ہمیں یہ ہنر سیکھنا ہو گا۔۔۔۔ تحریر: شاہ فیصل نعیم

Shah Faisal Naeem
Print Friendly, PDF & Email

الفاظ ایک خزانے کی مانند ہیں جو ہر انسان کے پاس ہے مگر محدود مقدار میں۔ جب لب کھلتے ہیں تو یہ خزانہ لٹنا شروع ہوتا ہے۔ لفظوں کے سامنے انسان بکتے بھی ہیں اور لفظوں کا بے پروا استعمال لوگوں کو لوگوں سے دور بھی کرتا ہے۔ہر انسان کو خدا تعالیٰ کی ذات نے آزاد پیدا کیا مگر ہر کسی کی آزادی کی ایک حد ہے اب ابنِ آدم پہ لازم آتا ہے کہ وہ ان حد بندیوں کا پابند رہے۔ وہ اس لیے کے ہر شخص کی آزادی وہاں تک ہے جہاں تک اْس کی ذات سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتاکہا تو یہا ں تک بھی جاتا ہے کہ کوئی انسان اپنی آزادی کو اس طرح بھی استعمال نا کرے جس سے اْس کی اپنی ذات کو نقصان پہنچے۔
الفاظ کا بے دریغ استعمال کس طرح انسان کے لیے بْرا ثابت ہوتا ہے اْسے جاننے کیلیے ہم ایک کہانی پڑھتے ہیں۔ کہانی اس لیے کے انسان چاہیے زندگی کے کسی بھی حصے میں ہو وہ ہمیشہ داستانوں کا شوقین رہتا ہے۔
یہ علمی درس گا ہ کا ایک منظر ہے میں برآمدے میں سے گزر رہا ہوں پروفیسرز کیکمروں کے دروازے اسی برآمدے میں کھلتے ہیں، دیواروں پر جگہ جگہ مختلف ادوار میں پاس آؤٹ ہونے والے طلبااور طالبات کی ادارے کے پروفیسرز کے ساتھ گروپ فوٹوز آویزاں ہیں، بلڈنگ پرانی ہے مگر صفائی ستھرائی کا خاص خیا ل رکھا گیا ہے جس کے باعث گزرتے وقت کے آثار کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔اسی برآمدے کے آخر والے کمرے کے باہر کچھ لڑکے اور لڑکیاں جمع ہیں جو کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ اتنے میں ایک لڑکی روتی ہوئی کمرے سے باہر نکلتی ہے اور ایک لڑکا اندر چلا جاتا ہے۔ وہ لڑکی اپنی دوست کے کندھے پر سررکھ کر روتی جا رہی ہے اْس کی سہلیاں اْسے چپ کرانے کی کوشش کررہی ہیں۔ اب مجھے ان آنسوؤں کے پیچھے پنہاں کہانی سمجھ نہیں آرہی ، پوچھنے پر جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ مجھے ایک سوچ میں مبتلا کر دیتا ہے کہ کیا کبھی ایک باپ بھی اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے مگر اس پر مزید سوچنا بیکار ہے کیونکہ ایسا ہو چکا ہے ایک باپ یہ کلنک بیٹی کے ماتھے پر لگا چکاہے۔
اس منظر کاپسِ منظر کچھ یوں ہے کہ یہ لوگ جو دروازے کے باہر جمع ہیں ان کو لیٹ آنے کی وجہ سے کلاس لینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی جس کے باعث ان کی حاضری مطلوبہ معیار سے گر گئی تھی جو امتحان میں بیٹھنے کے لیے ضروری ہے۔ اب یہ سب لوگ معافی کی عرضی لیے پروفیسر کے رحم وکر م کے منتظر ہیں اور اندر بیٹھا پروفیسر ان کے ساتھ جو سلوک کر رہا ہے وہ کچھ یوں۔
روتی ہوئی باہر لوٹنے والی لڑکی جب کمرے میں داخل ہوتی ہے۔
\”اسلام و علیکم سر\”!
استاد بغیر سلام کا جواب دیئے کہتا ہے:
\”اپنے والد کا فون نمبر بتاؤ\”؟
لڑکی فکر میں پڑ جاتی ہے۔ پروفیسر پھر بولتا ہے:
\”میں نے کہا اپنے باپ کا نمبر بتاؤ\”؟
لڑکی ڈرتے ڈرتے نمبر بتا دیتی ہے۔
پروفیسر نمبر ڈائل کرتا ہے دوسری طرف سے کچھ دیر کے بعد لڑکی کا والد فون اْٹھا لیتا ہے۔پروفیسربات شروع کرتا ہے:
\”جی میں فلاں ادارے سے بات کر رہا ہوں میں آپ کی لڑکی کو ایک مضمون پڑھاتا ہوں۔ آپ نے اپنی بیٹی کو گاؤں سے لاہور پڑھنے بھیجا ہے مگر یہ پتا نہیں کہاں رہتی ہے\”۔
پروفیسر ابھی بات کر رہا ہے مگر یہ الفاظ سنتے ہی لڑکی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اشکوں کی برکھا برسنے لگی ہے اور وہ سر جھکائے ،آنسو بہائے باہر آچکی ہے۔ آپ اگر پروفیسر کےآخری الفاظ پر غور کریں تو آپ کو پوری کہانی سمجھ آ جائے گی۔
\”یہ پتا نہیں کہاں رہتی ہے\”؟
روحانی باپ کیان الفاظ نے اْس لڑکی کی عزت اپنے باپ کی نظروں میں گرا دی ہے۔ ہم ایسے معاشریمیں رہتے ہیں جہاں لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلوائی جاتی اعلیٰ تعلیم نا دلوانے کی جہاں بہت سی وجوہات ہیں وہاں ایک سبب یہ بھی ہے کہ والدین ڈرتے ہیں کہ اگر وہ اپنی بیٹی کو پڑھنے کیلیے گھر سے باہر بھیجیں گے تو اْن کی عزت کو خطرہ ہو گا۔ جب ایک استا د لڑکی کے والدین کو لڑکی کے بارے میں ایسے تاثرات دے گا تو۔۔۔۔۔والدین پر کیا بیتے گی اور اْن سیبڑھ کر لڑکی پر کیا بیتی گی ؟
مجھے یہ مسئلہ نہیں کہ پروفیسر نے لڑکی کے گھر فون کیوں کیا ؟ مجھے مسئلہ یہ ہے کہ ایک روحانی باپ نے اپنی بیٹی کے بارے میں بات کرنے کے لیے کس قدر گھٹیا الفاظ کا انتخاب کیا۔ اگر یہی بات ایسے کی جاتی :
\”سر ! میں آپ کی بیٹی کا استاد بات کر رہا ہوں بیٹی چند ایک دن سے کلاس میں لیٹ آرہی ہے آپ ذرا بیٹی کو سمجھا دیں کہ وہ وقت پر کلاس لینے آیا کرے\”۔
تو اس سے آپ کا پیغام بھی پہنچ جاتا اور لڑکی کا وقار بھی قائم رہتا۔ مجھے ، آپ کو اور ہم سب کو الفاظ کے خزانیکو استعمال کرنے کا طریقہ سیکھنا ہوگا۔ ہمیں بولتے وقت سوچنا ہوگا کہ کہیں ہمارے الفاظ سے کسی ابنِ آدم یا کسی بنتِ حوا کو دکھ تو نہیں پہنچ رہا۔

Short URL: http://tinyurl.com/j77758x
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *