پروفیسر سحرؔ انصاری۔۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی، کراچی

Print Friendly, PDF & Email

شاعروں کے شاعر ادیبوں کے ادیب


پروفیسر سحرؔ انصاری کااصلی نام ’انور مقبول انصاری‘ ہے ۔ سحرؔ تخلص کرتے ہیں،اپنے نام اور تخلص کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ’ ’میٹرک کے سرٹیفیکیٹ او ر بعد کی تعلیمی اسناد میں میرا نام انور مقبول انصاری ہے ۔ اسکول ہی کے زمانے میں شعر گوئی کی طرف رجحان ہوگیا تو ایک عدد تخلص سَحَرؔ انصاری رکھ لیا۔ اب یہ اس قدر معروف ہوگیا کہ میں خود اپنے اصل نام کے لیے اجنبی ہوگیا ہوں‘‘۔ ان کا خاندانی سلسلہ نسب حضرت ایوب انصاری سے جا ملتا ہے اس لیے انصاری ٹہرے۔ انصاری صاحب کے خاندان میں بعض بڑی ادبی شخصیات کے نام ملتے ہیں ان میں مولانا اسمعیل میرٹھی کا نام قابل ذکر ہے۔ ان کے والد کے بزرگوں کا تعلق مرادآباد سے جب کہ ان کی والدہ کے بزرگ میرٹھ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا آبائی وطن مراد آباد ہے،انہوں نے ہندوستان کے شہر’ اورنگ آباد ‘ دکن میں 27 دسمبر1941 ء کوآنکھ کھولی۔ ان کے نانا معروف شاعر مولوی سمیع الزماں سرابؔ میرٹھی‘ اسمٰعیل میرٹھی کے شاگرد رہ چکے تھے۔ شعر و ادب کاذوق انہیں ورثہ میں ملالیکن وہ ایک فطری شاعر ہیں گویا شاعری کا وصفِ لطیف انہیں مالک حقیقی کی جانب سے عطا کیا گیا ۔ سحرؔ انصاری نے جالبؔ مرادآبادی کے شاگرد ہیں جو جگرؔ مرادآبادی کے معاصر ہیں۔ سحرؔ انصاری نے پہلا مضمون ’’میرؔ اور فانیؔ کا غم‘ ‘ کے عنوان سے لکھا اس وقت سحرؔ صاحب نویں جماعت کے طالب علم تھے۔ ادب، شعر و شاعری کے ساتھ ساتھ آرٹ سے بھی دلچسپی تھی۔ اس شعبہ میں بھی کام کیا۔سحرؔ انصاری کی شاعری محض انسانی عمل نہیں بلکہ اس میں ان کے اندر موجود شاعر کی آواز محسوس ہوتی ہے۔ان کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں ؂

ابھی تو زندگی کو ریزہ ریزہ چن رہا ہوں میں
ابھی سے یہ شکست کا سوال کیسے آگیا

ابتدائی تعلیم اورنگ آباد میں ہی حاصل کی ۔ 1950ء میں والدین کے ہمراہ پاکستا ن ہجرت کی اور کراچی کے مکین ہوئے۔ناظم آباد میں رہائش اختیار کی، آج بھی ناظم آباد ہی میں رہائش رکھتے ہیں۔کراچی کے علاقے بہادر آباد میں مقبول عام اسکول میں پڑھا، 1958ء میں گورنمنٹ کالج برائے طلبہ ، ناظم آباد سے بی ایس سی کیا۔جامعہ کراچی سے تین ایم اے کیے ایک انگریزی میں، دوسرا اردوادب میں اور تیسرا لسانیات میں کیا۔ آپ گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، ناظم آباد کے اولین طالب علم تھے۔ اس وقت اس کالج کا نام’ سینٹرل گورنمنٹ کالج فار مین‘ ہوا کرتا تھا۔ 2008ء میں اس کالج نے اپنے قیام کے پچاس سال مکمل کیے تو کالج کا مجلہ ’روایت‘ کا گولڈن جوبلی نمبر شایع کرنے کا پروگرام ترتیب دیا گیا۔ پروفیسر سید خورشید حیدر زیدی کالج کے پرنسپل تھے مَیں دیگر ذمہ دارویوں کے ساتھ ساتھ کالج میگزین کا چیف ایڈیٹر بھی تھا۔ میگزین کے لیے سحرؔ صاحب کے تاثرات اس حوالے سے ضروری اور اہم تھے کہ وہ 1956ء میں اس کالج کے اولین طالب علموں میں سے تھے۔کالج کے جنرل رجسٹر میں سحرؔ صاحب کا پہلا نام ، جب کہ محمد احمد فاروقی صاحب کا دوسرانام ہے۔یہ بات سحرؔ صاحب نے کالج کے حوالے سے اپنے تاثرات میں بیان کی ہے۔یہ تاثرات کالج کے مجلہ ’روایت‘ گولڈن جوبلی نمبر 2008ء میں ان کے مضمون ’’میری درس گاہ: چند یادیں‘‘ میں درج ہیں۔ انصاری صاحب اس کالج کے پہلے میگزین سیکریٹری اور بعد میں یونین کے صدر بھی رہے۔ کالج کا پہلا مجلہ ڈاکٹر اسلم فرخی کی سرپرستی میں جس کے سیکریٹری انصاری صاحب تھے شایع ہوا۔ یہی وہ لمحات اور معاملات تھے جب سحرؔ انصاری صاحب سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ میں ان کے گھر جو کالج کے نزدیک ہی ہے گیا اور ان سے کالج میگزین کے گولڈن جوبلی نمبر کے لیے تاثرات اور کالج میں ایک مشاعرہ منعقد کرنے پر گفتگو کی۔ انصاری صاحب سے میری قربت کی یہ ابتدا تھی گو میں ان کے نام ، شاعری اور کام سے بہت پہلے سے متعارف تھا۔ وہ 1974 ء میں جامعہ کراچی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے ، میں اس وقت جامعہ کراچی کے کتب خانہ میں خدمات انجام دے رہا تھا ۔ ساتھ ہی شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں آنا جانا بھی رہتا تھا کچھ عرصہ میں اس شعبہ میں جزو وقتی استاد بھی رہا۔ اب ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘ انصاری صاحب سے مزید قربت کاباعث ہورہا ہے۔ کالج میگزین کے لیے سحرصاحب نے اپنا مضمون بھی دیا جو متعلقہ شمارہ میں شامل ہے۔ اسی سال کالج کے زیر اہتما م مشاعرہ بھی منعقد کیا گیا۔ سحر صاحب نے اس مشاعرہ کی صدارت کی ۔ اس طرح سحر صاحب سے تعلقات اور شناسائی کی زنجیر آگے بڑھی اور اب جب میں ہماری ویب رائیٹرز کلب کا صدر منتخب ہوا ، یہ کلب آن لائن لکھنے والوں کا پہلا فورم ہے۔ لکھنے والوں کی تعداد چھ ہزار سے زیادہ ہے۔ رائیٹرز کلب نے ای بک
(E-Book)
کا پروگرام بھی تشکیل اور ابتدائی طور پر 15لکھاریوں کی ای بک تیار کی گئیں ۔ ای بک کی تعارفی تقریب آرٹس کونسل میں منعقد ہوئی ۔ پروفیسر سحر انصاری صاحب اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ اس طرح سحر صاحب اور ہم رفتہ رفتہ قربت کی منزلیں طے کرتے چلے جارہے ہیں۔ یہ مضمون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سحرؔ انصاری کا ایک شعر ؂

ہنستے چہرے بھی دھوکا ہیں، روتی آنکھیں بھی ہیں فریب
لوگ نہ جانے دل میں کیا کیا بھید چھپائے پھرتے ہیں

سحر ؔ انصاری نے 1973ء میں جامعہ بلوچستان کے شعبہ اردو سے درس و تدریس کا آغاز کیا۔ دوسرے ہی سال یعنی 1974ء میں وہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں آگئے اور پھر اسی شعبہ کے ہوکر رہ گئے۔ جامعہ کراچی میں ان کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ وہ کئی سال صدر شعبہ رہے۔ اردو ڈکشنری بورڈ میں ایڈیٹر و سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ چین اور جاپان میں بھی درس و تدریس سے وابستہ رہے۔
ہفت روزہ ’نئی جمہوریت ‘ کے مدیر بھی رہے، کئی سال سے آرٹس کونسل کی ادبی کمیٹی کے سربراہ اور دیگر عہدوں سے وابستہ ہیں۔ ادارہ یاد گار غالب ؔ اور غالبؔ لائبریری کی ترقی اور فروغ میں اپنا حصہ ڈال چکے ہیں۔ شاعر کی حیثیت سے دنیا کے بے شمار ممالک میں پاکستان کی نمایندگی کرچکے ہیں۔ اردو سے تعلق اور انسیت رکھنے والا شاید ہی کوئی ادیب و شاعر ایسا ہوگا جو سحر ؔ انصاری کے نام سے واقف نہ ہو۔ کراچی کے باسی تو ان سے خوب خوب متعارف ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے پروفیسر سحر انصاری کو ان کی علمی و ادبی خدمات پر ’’ستارہ امتیاز ‘‘ سے نوازا گیا۔ اس سے قبل 2005 ء میں انہیں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا جا چکا ہے ۔ سحرؔ انصاری کا کہنا ہے کہ وہ سفارش کے قائل نہیں انہوں کبھی اپنے لیے یا اپنے بچوں کے لیے کبھی کسی سے کسی بھی قسم کی سفارش نہیں کرائی۔ وہ اس عمل کواچھا نہیں سمجھتے۔ انہیں جو کچھ ملا ہے وہ خدا کی دین ہے۔ ان کے مجموعہ کلا م ’خدا سے بات کرتے ہیں ‘ میں شامل ایک شعر ان کے اس خیال کی عکاسی کرتا ہے ؂

فصیلِ شہر میں پیدا کیا ہے در میں نے
کسی بھی بابِ رعایت سے میں نہیں آیا

پروفیسرسحرؔ انصاری کی شخصیت مختلف پہلو لیے ہوئے ہے ۔ وہ شاعر بہت اچھے ہیں، نثر نگار ی بھی ان کی خوب تر ہے، نقاد ہیں ، خوش گُلو وخوش اِلحان ہیں، خوش وضع و خوش قطع ہیں، شیریں زبان و شیریں کلام بھی۔ خوش طرز و خوش اِقبال بھی ہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں ایک تمغے کے بعد دوسرے تمغے سے حکومت نے نوازا۔ان کے شخصیت کے ظاہری خد وخال یا ان کا حلیہ بیان کیا جائے تو کچھ اس طرح کی صورتِ حال ابھر کر سامنے آتی ہے۔ گندمی رنگ، دراز قد ، فربہ جسم، اب کچھ کمر جھک کئی گئی ہے، موٹی کٹورہ آنکھیں جن میں سوجھ بوجھ کی چمک ، کھڑے نقش، سنجیدہ طرز گفتگو، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، سبک رفتار، ستواں ناک جس کے نیچے قینچی استرے کی دسترس سے محفوظ سپاٹ میدان یعنی کلین شیو، ان کی شخصیت کی ایک انفرادیت اور پہچان ان کی زلفوں کا دراز ہونا ہے، مخصوص روایتی لباس کالی شیروانی اور علی گڑھ پیجامہ ہے ۔ سحرؔ صاحب کے قبیلے کے ایک شاعرریاض ؔ انصاری جیوری نے زلفوں کے حوالے سے خوبصور شعر کہا ہے ؂

آپ گھبرائیں نہ زلفوں کی پریشانی سے
یہ سنور جاتی ہیں کچھ اور پریشاں ہوکر

پروفیسر سحر انصاری صورت شکل، وضع قطع،چہرے مہرے سب سے شرافت ، تحمل ، وضع داری ، معصومیت اور شاعر ہونے کا خوشگوار اظہار نمایاں نظر آتا ہے۔ اپنی وضع قطع کے حوالے سے سحر ؔ انصاری کا یہ خوبصورت شعر دیکھئے ؂

یہی ہے وضع ہماری یہی ہماری شناخت
کبھی سنا ہے پرندوں کو پَر بدلتے ہوئے

مجلسی اور دوست دار آدمی ہیں، لوگوں میں رہنا پسند کرتے ہیں ، گفتگو کرنا، ادبی موضوعات خاص طور پر شاعری اور شاعروں کے بارے میں وسیع معلومات رکھتے ہیں۔ بولتے زیادہ ہیں، کراچی کی ادبی محفلوں کے دولھا بنے نظر آتے ہیں، صدر محفل اور صدرِ مشاعرہ کی حیثیت سے خوب خوب جچتے ہیں اور اس کا حق بھی خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔معروف ادیب مشفق خواجہ مرحوم نے اپنے ایک ادبی کالم میں سحرؔ صاحب کو ’’شہرِ انصاری‘‘ کہ کا پکارا تھا۔ان کے ملنے والوں کا ایک وسیع حلقہ ہے۔سحرؔ انصاری نے اس موضوع پر کیا خوب شعر کہا ؂

سحرؔ اک دوسرے سے اس طرح ملتے ہیں ہم اکثر
ہمارے درمیاں تقدیر تک آنے نہیں پاتی

ادبی محفلوں کو سجانے کی بات اپنے اس شعر میں حسین انداز سے کہی ؂

اپنے خوں سے جو ہم شمع جلائے ہوئے ہیں
شب پرستوں پہ قیامت بھی تو ڈھائے ہوئے ہیں

سحر ؔ انصاری نے کم کہا جو کچھ کہا اچھا کہا، کم لکھا جو کچھ لکھا معیاری لکھا، درویش صفت ہیں،ان کا نثری و نظم کا ذخیرہ مطبوعہ سے زیادہ غیر مطبوعہ ہوگا۔ اس لیے کہ وہ زندگی میں اس فکر میں نہیں رہے کہ ان کی کتابیں دھڑا دھڑ منظر عام پر آتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی فیض احمد فیضؔ پر ایک نثری کتاب’ ’ فیضؔ کے آس پاس‘‘ 2011ء میں جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر نے شایع کی۔ اس سے قبل انہوں نے جوشؔ کے مقالات ’’مقالات جوش‘‘ کے عنوان سے مرتب کیے۔ ’ذِکرِ غَالبؔ ذِکرِ عَبد الحق‘سحر انصاری کی نثری کتاب ہے۔ 1971 ء میں غالب لائبریری کے تحت ہفتہ مطالعہ عبد الحق یکم ستمبر سے 7ستمبر 1971ء کو منایا گیا۔یہ کتاب اسی سلسلے کے حوالے سے مرتب کی گئی۔ اس کتاب میں مقدمے کا مقدمہ سحر انصاری کا تحریر کردہ ہے، بابائے اردو مولوی ڈاکٹر عبد الحق کی تحریر کردہ روئیداد مقدمہ غالب کے علاوہ ان کا ایک مضمون ’غالب اور میرن صاحب‘ شامل ہے۔ آخر میں اشاریہ عبدالحق دیا گیا ہے۔ ’تنقید ی افق‘ سحرؔ انصاری کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں بینتیس مضامین دو حصوں میں منقسم ہیں ایک’ نظری تنقید‘ دوسرا ’ادب تا ادب‘ ،دوسرے حصہ میں عملی تنقید کے عنوان سے مختلف تخلیق کاروں اور ان کے فن کا مطالعہ ہے۔ یہ کتاب جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈیز سینٹر نے شایع کی ہے۔ ’’اسالیب‘‘ کے عنوان سے 2010ء میں سحرؔ انصاری صاحب کی سرپرستی میں ایک کتابی سلسلہ (سالنامہ) شروع کیا گیا۔ اس ترتیب و تدوین سحر ؔ انصاری کی شاعرہ بیٹی ڈاکٹر’عنبر حسیب عنبرؔ ‘ کے سپرد ہے۔ اس ادبی کتابی سلسلہ کا پہلا شمارہ نومبر ۔ دسمبر 2010ء میں منظر عام پر آیا۔ دوسرا شمارہ جنوری ۔مارچ2011ء تھا، تیسرا اپریل ۔ جون 2011، چوتھا جولائی ۔دسمبر2011ء اور پانچواں جولائی 2011ء ۔دسمبر2012میں شایع ہوا۔ یہ کتابی سلسلہ چیف ایڈیٹر کی علمی مصروفیات کے باعث وقتی طور پر بند ہے۔
سحر ؔ انصاری کے شعری مجموعے اب تک دو ہی سامنے آئے ایک ’نمود‘ کے عنوان سے دوسرا ’خدا سے بات کرتے ہیں‘ کے عنوان سے شایع ، پہلے اور دوسرے مجموعے کا دورانیہ تیس برس پر محیط تھا، اب دوسرے مجموعہ کو منظر عام پر آئے پانچ برس ہوچکے ہیں۔دونوں مجموعوں کے درمیان طویل مدت کی وضاحت سحرؔ انصاری نے اس طرح کی کہ’ خدا سے بات کرتے ہیں ‘اور’ نمود‘ کے مابین جو تیس سال کی مدت حائل ہے اس طویل سناٹے میں میری ذاتی بے توجہی ، بے ترتیبی اور بے نیازی کا دخل رہا ہے۔‘ پہلے نثری کتاب ’ فیضؔ کے آس پاس‘ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں سحر صاحب نے فیضؔ سے اپنے مراسم، قربت،نظریات اور دیگر موضوعات پر مضامین تحریر کیے۔ کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر سید جعفر احمد نے ’سر آغاز‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں’’پروفیسر سحرؔ انصاری ملک کے علمی وادبی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں گزشتہ چار پانچ عشروں میں انہوں نے جس سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ ادبی موضوعات پر تحریری اور زبانی طور پر اظہار خیال کیا اور ادبیات کی تدریس کا اہم فریضہ سر انجام دیا اس کی ملک بھر میں پزیرانی بھی ہوئی اور اس کی وجہ سے ان کے ارادتمندوں کا ایک وسیع حلقہ بھی قائم ہوا۔ پروفیسر سحرؔ انصاری کا ایک خاص وصف نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور تخلیقی زندگی کے اس مرحلے میں ان کی مددکرنا ہے۔ جب یہ مدد سب سے زیادہ ضروری اور اگلی مسافتوں کے لیے رہنماثابت ہوسکی ہے ۔ کتنے ہی اچھے تخلیق کار ان کی حوصلہ افزائی و رہنمائی کے سبب اب بڑے اعتماد کے ساتھ گلشن ادب کی آبیاری کر رہے ہیں‘‘۔
’’نمود‘‘ سحر ؔ انصاری کا پہلا مجموعہ کلام ہے جوادبستان جدید نے 1976ء میں شایع کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب سحرؔ ساحب کو جامعہ کراچی سے منسلک ہوئے تین سال ہی ہوئے تھے ۔ لیکن شاعری کرتے دو دیہائیوں سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔ ’نمود‘ میں سحرؔ انصاری کی 20سال کی شاعری ہے ۔ اس میں ان کی غزلوں اور نظموں کا وہ وہ انتخاب ہے جو 1955ء سے1975ء تک پر محیط ہے۔ سحر ؔ صاحب معروف شاعر فیضؔ کے حلقہ احباب میں سے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے پہلے مجموعہ کلا کا فلیپ فیضؔ صاحب سے لکھوایااورفیض ؔ صاحب نے بہت ہی خوبصورت فلیپ لکھا۔ فیضؔ نے لکھا’’نمود‘‘ ایک بہت تعلیم یافتہ، خیال افروز اور سنجیدہ ذہن کی تخلیق ہے، جسے جدید ادب میں ایک معتبر اضافہ سمجھنا چاہیے۔سحر ؔ کے کلام میں ابہام یا ایہام کی کوئی آمیزش اور دوسرے زندگی کے روزمرہ مظاہر سے پل یا سٹرک، شفاخانہ ہو یا تجربہ گاہ کسی ذہنی یا جذباتی تجربہ کی تجرید اور کشیدگی کے بعد جس طرح سحرؔ انھیں نظم کرتے ہیں وہ انھیں سے مخصوص ہے‘‘۔ ’’نمود‘‘ کا پیش لفظ پروفیسر مجتبیٰ حسین کا لکھا ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں’’ سحرؔ کی شاعری کسی تعارف کی محتاج نہیں، ان کی نظمیں آپ سے اس ’’شخص‘‘ کا تعارف کرادیتی ہیں جو آپ میں موجود ہے۔ سحرؔ کی آواز میں دکھ ہے مگر اس کے ساتھ یہ ڈری ہوئی ، سہمی ہوئی آواز نہیں ہے یہ بے خوف اور بے لاگ آواز ہے، ان کی ایک نظم بھی ایسی نہیں جس میں کہنے کی بات کہنے کی طرح نہ کہی گئی ہو‘‘۔’نمود‘کے بارے میں خود سحرؔ کی رائے یہ ہے کہ ’نمود میرے لیے سووینیر کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہ فیض احمد فیضؔ ، پروفیسر مجتبیٰ حسین، آذرزوبی، اقبال مہدی کی محبتوں سے مزین ہے اور اس کی تدوین میں محسن بھوپالی ، عالم تاب تشنہؔ اور مرزا ظفر الحسن کا خلوص شامل ہے ، وہ صورتیں الہٰی کس دیس بستیاں ہیں۔
سحر ؔ انصاری کا دوسرا مجموعہ کلام’خدا سے بات کرتے ہیں‘2010ء میں اکادمی بازیافت نے شائع کیا۔اس میں نظمیں بھی ہیں غزلیں بھی، سحر ؔ نے نظری نظمیں بھی کہیں متعدد اس مجموعہ میں شامل ہیں۔ مجموعے میں مبین مرزا کی رائے شامل ہے وہ لکھتے ہیں’سحر انصاری عہدِ جدید کے اُن قلیل التعداد شعرا میں ہیں جو نہ صرف یہ کہ اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ علم و آگہی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں بلکہ انھوں نے اپنی ذہنی درّا جء اور متواتر اور ہمہ جہت مطالعے سے اپنے شعر و سخن کو وہ آبدی ہے جواُن کی شناخت کا ایک جدا حوالہ بنتی ہے‘۔
سحر ؔ انصاری علمی ادبی سرگرمیوں کے میں گزشتہ کئی برسوں سے فعال ہیں۔آرٹس کونسل میں کئی سالوں سے ادبی کمیٹی اور دیگر انتظامی امور میں شامل رہتے ہیں۔ غالب لائبریری سے بھی وابستہ رہے۔ اکتوبر2015ء میں سحر ؔ انصاری کو ایک اور اہم اور بہ عزت ذمہ داری سونپ دی گئی۔ انہیں انجمن ترقی اردو پاکستان کا خازن اور نگراں ادبی امور بھی مقرر کردیا گیا۔ یہ عہدہ بظاہر ادیبوں اور شاعروں کی شخصیت، مزاج اور طبیعت سے مُتَعضاد نظر آتا ہے لیکن ماضی میں انجمن ترقی اردو میں اس عہدہ پر کئی معروف ادیب و دانش ور خدمات انجام دے چکے ہیں ان میں ڈاکٹر جمیل جالبی، مشفق خواجہ ، افتخار احمد ادنی ، عبدالخالق عبد الرزاق ،اظفر رضوی اور ڈاکٹر جاوید منظر شامل ہیں۔ حال ہی میں انجمن ترقی اردو کے نو منتخب عہدیداران نے پاکستان کے صدر جناب ممنون حسین سے ملاقات کی ، نو منتخب عہدیداران میں صدر اعزازی ذوالقرنین جمیل( راجو جمیل) جو جناب جمیل الدین عالیؔ کے صاحبزادے ہیں، پروفیسر سحر ؔ انصاری (اعزازی خازن) ڈاکٹر فاطمہ حسن (معتمد اعزازی)، اور متولیان میں ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر اختر شمار، ڈاکٹر یوسف خشک شامل تھے۔
اردو کے معروف ادیب و دانشور معین الدین جینا بڑے نے ڈاکٹر خالد ندیم کی مرتب کردہ کتاب’رقعاتِ مشفق خواجہ‘ کے پیش لفظ میں لکھا کہ ’بابائے اردو کی سانسوں کاسفر ختم ہوا، لیکن کام رُکا نہیں کہ وہ مشفق خواجہ کی سانسوں میں زندہ تھے۔ مشفق خواجہ کی سانسوں کا سفر ختم ہوا لیکن کام میں پھر بھی کھنڈت نہیں پڑی کہ احباب کی سانسوں میں وہ بھی زندہ ہیں‘۔ معین الدین جینا بڑے کی اس بات کو آگے بڑھایا جائے تو صورت کچھ اس طرح کی بنتی ہے کہ اردو کی ترقی کا سفر انجمن ترقی اردو کے سائے تلے ، بابائے اردو مولوی ڈاکٹر عبد الحق کی سرپرستی میں شروع ہوا تھا وہ بابائے اردو کی سانسوں پر ختم ضرور ہوا لیکن رکانہیں اور ڈاکٹر مشفق خواجہ سے ہوتا ہوا، جمیل الدین عالی ؔ کی سانسوں تک پہنچا ، عالی ؔ جی کے دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد انجمن کی ترقی کا سفر جاری و ساری ہے اوراب یہ سفر ایک نہیں بلکہ کئی سانسوں میں منتقل ہوچکا ہے ان میں راجو جمیل، ڈاکٹر فاطمہ حسن اورپروفیسر سحرؔ انصاری کی سانسوں تک پہنچ چکا ہے۔انشاء اﷲ بابائے اردو کا لگا یا ہوا یہ پودا جو اب تناور درخت کا روپ دھار چکا ہے ترقی کے منا زل طے کرتارہے گا۔ پاکستان میں اردو کے صفِ اول کے ادیب و شاعر پروفیسر سحرؔ انصاری کی علمی و ادبی کاوشوں کے اعتراف میں2005ء میں انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا ۔ اب 2015ء میں حکومتِ وقت کی جانب سے وہ ستارہ امتیاز سے سرفرازہوئے۔
پروفیسرسحر ؔ انصاری نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی وہ علم و ادب کے فروغ و ترقی کے شعبہ میں خدمات انجام دینے والے ادبی و علمی اداروں کی رہنمائی و سرپرستی میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ وہ ادیبوں اور شاعروں کے دوست اور ان کی انجمنوں کے خیر خواہی میں تن من دھن سے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ موجودہ دور انٹر نیٹ اور کمپیوٹر کا دور ہے۔ انٹر نیٹ معلومات کے ذخیرہ کرنے ، بہ آسانی حصول میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ جس موضوع پر چاہیں جدید معلومات سیکنڈوں میں سامنے آجاتی ہیں۔ اب انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو کی ویب سائٹ بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں اور بے شمار علمی و ادبی مواد ، نثر و نظم سافٹ فارم میں دستیاب ہے۔ ’ہماری ویب‘
(Hamariweb)
پاکستان میں اردو کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویب سائٹ ہے جس کا 14 اگست2007 کو ہواتھا۔یہ ویب سائٹ جدید تقاضوں، جدید ٹکنالوجی سے ہم آہنگ ہے جس کے مقاصد میں پاکستانی کلچرکا فروغ، معاشرتی اقدار کی ترویج، قومی زبان اردو کے فروغ و ترقی کے ساتھ ساتھآن لائن لکھنے والوں اور انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور انہیں آن لائن پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے ۔ ہماری ویب کونہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایک مقبول ویب سائٹ کا درجہ حاصل ہے۔ 2014ء میں ہماری ویب کے زیر اہتمام ’’رائیٹرز کلب‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔اس کا بنیادی مقصد آن لائن لکھنے والوں کو ایک فورم فراہم کرنا، ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ رائیٹرز کلب نے اپنے مقاصد کی تکمیل میں ابتدائی طور پر 15 ای بک ن
(E-Book)
تیار کیں جن کی تعارفی تقریب آرٹس کانسل آف پاکستان میں منعقد ہوئی، سحرؔ انصاری اس تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ اس طرح سحر ؔ صاحب سے ہمارے تانے بانے آگے بڑھتے گئے۔
اب سحرؔ انصاری صاحب نے سر پرست اعلیٰ کا اعزاز رائیٹرز کلب کو بخش دیا ہے ۔ اب سحرؔ صاحب کے ساتھ ہماری قربتیں اور زیادہ ہوجائیں گی بلکہ ہوگئیں ہیں۔ حال ہی میں میرے چند احباب نے میری مطبوعہ اور برقی کووشوں پر مبنی توضیحی کتابیات مرتب کی جو اس وقت زیر اشاعت ہے۔ مَیں نے پروفیسر سحرؔ انصاری صاحب سے کتاب کے فلیپ کے لیے ان کی رائے کی درخواست کی۔ میرے لیے خوشی کا مقام ہے کہ سحرؔ صاحب نے اس کتابیات کے حوالے سے میرے بارے میں چند کلمات تحریر فرمائے جو اس کتاب کے فلیپ پر شایع ہوئے۔سحرؔ انصاری کے مطابق’’ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ایک ہمہ صفت موصوف ہیں۔ اس دور میں جب جہل اندھیرے پھیلا نے والے ہات اپنے عمل پر زرا بھی شرمندہ نہیں ڈاکٹر صمدانی حرفِ خیر اور فروغ کتب کی شئعیں روشن کرتے جاتے ہیں۔ کتب خانوں اور فن کتب داری کے تووہ بانیوں میں سے ہیں لیکن انھوں نے کتابوں اور مقالات کی تصنیف کا بھی حق ادا کردیا ۔ مطبوعہ کتب کی تعداد ۳۳ ہے اور مقالات کی تعداد پانچ سو سے زاید ہے ۔ ہمارے ملک میں اشاریہ سازی اور کتابیات کی ترتیب و تدوین کو عموماً غیر ضروری سمجھا جاتا ہے لیکن اہم علم اور اہل تحقیق جانتے ہیں کہ یہ تحقیق کی دنیا کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ مقامِ مسرت ہے کہ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی تحریروں کی توضیحی کتابیات شایع ہورہی ہے۔ ان میں اسلوب اور موضوعات کا جو تنوع ہے وہ یقیناًمحققین کے کام آئے گا۔ ڈاکٹر صمدانی اب تحریر سے آگے بڑھ کر E-Bookکی دنیا میں بھی رہ نمایانہ کردار ادا کررہے ہیں وہ ہماری ویب رائیٹرز کلب‘ کے بھی سربراہ ہیں اور ان کا حلقہ اثروسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ صمدانی صاحب سے میرے ذاتی مراسم بھی ہیں وہ مجھے ہمیشہ سے خوش اخلاق ‘ متّبسم‘ علم نواز اور ذمے دار انسان کی حیثیت سے عزیز ہیں۔ میں توضیحی کتابیات کی اشاعت پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں‘‘۔آخر میں پروفیسرسحرؔ انصاری کے مجموعوں ’خدا سے بات کرتے ہیں‘ اور ’نمود‘ سے
انتخاب ؂

بدلتے موسموں کی آگہی کس کی ضرورت ہے
میں اکثر سوچتا ہوں شاعری کس کی ضرورت ہے

مکان کو تو خبر بھی نہیں ہوئی ہوگی
جو دکھ ہوا ہے ہمیں بام و در بدلتے ہوئے

اے زمیں تو جو بھی ہو لیکن ہمارا ساتھ دے
زندہ رہنے کے لیے صرف آسماں کافی ہے

ہم تو ایک حرف محبت سے بھی مر سکتے ہیں
تیرکیوں ڈھونڈ کے لاتے ہو نشانے کے لیے

رہے تھے جسم و جاں کی طرح ساتھ ساتھ ہم
پھر کچھ تو تم بدل گئے کچھ ہم بدل گئے

اک تبسم جس کو ہونٹوں پر سجایا تھا سحرؔ
آنکھ میں آئے ہوئے آنسو سے پہچانا گیا

دائرے میں وقت کے خود کو فنا کرتے چلیں
آئیں رہنے کی کوئی قیمت ادا کرتے چلیں

تجھے معلوم تو ہوگا میری جاں !
تجھے اک شخص نے چاہا بہت ہے

وصال وہجر سے وابستہ تہمتیں بھی گئیں
وہ فاصلے بھی گئے ، اب وہ قربتیں بھی گئیں

کیا خبر تھی ترے انداز گریز
صرف ملنے کے بہانے ہوں گے

حرف صداقت کا نام آپ نہ بدلیں سحر
لوگ خفا ہیں توہوں، لوگ خفا ہی تو ہیں

میں زمانے کو آخر بُر ا کیوں کہوں
جانتا ہوں کہ خود ہی زمانہ ہوں میں

نہ کسی سے کرم کی امید رکھیں
نہ کسی کے ستم کا خیال کریں

ہمیں کون سے رنج ملے ہیں نئے
کہ جو دل کے زیاں کا ملال کریں

میرے قبضے میں نہ رفتہ ہے نہ آیندہ ہے
اک یہی لمحۂ موجود ابھی زندہ ہے

اب ایک مر حۂ ترکِ دوستی یہ ہے
کہ پہلے تجھ سے خفا تھا اور اب خفا بھی نہیں

سحرؔ انصاری کی ایک خوبصورت غزل ؂

سز ا بغیر عدالت سے میں نہیں آیا
کہ باز جرم صداقت سے میں نہیں آیا
فصیلِ شہر میں پیدا کیا ہے در میں نے
کسی بھی بابِ رعایت سے میں نہیں آیا
اڑا کے لائی ہے شاید خیال کی خوشبو
تمہاری سمت ضرورت سے میں نہیں آیا
تیرے قریب بھی یاد آرہے ہیں کار جہاں
بہت قلق ہے کہ فرصت سے میں نہیں آیا
گزرگئے یوں ہی دو چار دن اور اس کے بعد
یہی ہوا کہ ندامت سے میں نہیں آیا
ہمیشہ ساتھ رہا ہے سحرؔ میرا سورج
گزر کے وادئ ظلمت سے میں نہیں آیا

Short URL: http://tinyurl.com/zk8xzr8
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *