دعویٰ ہے عشقِ حسینی ؑ، تو عشق ہونا چاہئے۔۔۔۔ تحریر: اقراء سحرؔ

Iqra Sahar
Print Friendly, PDF & Email

نیا اسلامی سال شرو ع ہو چکا ہے ۔ہمیں نئے سال کو نئی سوچ اور نئے فکر کے ساتھ شروع کرنا چاہئے۔ اسلامی سال کی ابتدا ء محرم الحرام جیسے عظیم الشان مہینے سے ہوتی ہے۔اور یہ مہینہ چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ اس مہینے میں واقعہ کربلا پیش آیا جس سے اُن خوابیدہ افکار نے جنم لیا جو ہمارے لیے درس ہیں۔اس مقدس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کا ایک شاندار ڈھنگ سمجھایا گیا۔ جسے آج کے مسملین نے یا تو نظر انداز کر دیا یا پشِ پشت ڈال کر خود آگے بڑھنے کی ناکام کوشش میں مصروفِ عمل ہیں۔ آج واقعہ کربلا کو بہت سے انداز میں پیش کیا جاتا ہے مگر اکثر اس کی اصل روح کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔عظیم قربانیوں کا واقعہ، واقعہ کربلاہمیں ایک عظیم درس یہ بھی دیتا ہے کہ کسی بھی حال میں، چاہے وہ ابتر ہو، بدتر ہو، یا بدترین، ہمیں عبادت الٰہی کو، اپنے فرضیات کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔یہی وہ اہم درس تھا جو اہلِ بیت ؑ نے کربلا میں ہمیں دیا، آج ہم عشقِ اہلِ بیت ؑ کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر اس عظیم درس کو بھول چکے ہیں۔
واقعہ کربلا کو تاریخ میں بالکل وہی اہمیت حاصل ہے جو کہ اُن اسلامی جنگوں کو جو کہ مشرکین کے خلاف لڑی گئیں۔ بلکہ چند مکتبِ فکر کے مطابق تو ان سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ جب اس واقعہ کے اصل مقصد کو ہی بھلا دیا گیا تو پھر واقعہ کربلا کو بقائے اسلام کیسے کہا جائے؟ کربلا میں اہلِ بیت نے اپنا جان و مال، سب کچھ نثار کر کے ہمیں یہ درس دیا کہ ہم اپنی زندگیاں، اپنا مال، حتیٰ کہ اپنی اولاد کو بھی اسی ہستی کے سپرد کر دیں کہ جس کی طرف سے یہ عطا کردہ ہیں۔ اپنی زندگی کا کوئی بھی فیصلہ اپنے خالقِ حقیقی کی رضا کے بغیر مت کریں ،اپنی حیات کو رضائے الٰہی کا نمونہ بنا لیں۔ وہ جہاں کہے بیٹھو وہاں بیٹھ جائیں، جہاں کہے اٹھو لبیک کہیں، جہاں کہے کھاؤ وہاں کھائیں، جہاں کہے مت کھاؤ خود کو روک لیں، وہ کہے پؤ تو پئیں، وہ کہے مت پؤ تو رک جائیں، جنگ کرنے کا کہے تو ڈٹ جائیں، منع کرے تو مانع ہو جائیں، اور یہ سب کریں بنا سوچے سمجھے۔
میدانِ کربلا میں جب فوجِ یزید کو فوجِ حسینی ؑ کا پانی بند کیا تو فوجِ حسین ؑ نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا کہ یہ ظالمین کی سازش ہے بلکہ حکمِ خداوندی میں راضی رہے۔ اور پھر جب شبِ عاشور اس بات کا علم ہوا کہ صبح ایک ایک فرد کے ساتھ جنگ ہو گی تو ہر خیمہ میں عبادتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہر خیمہ سے تلاوتِ قرآنِ پاک کی صدا بلند ہوئی۔ یہ عبادتوں کا سلسلہ اس لیے شروع نہیں ہوا کہ صبح جنگِ حتمی ہے، عبادت کریں تاکہ ہمیں نصرتِ جنت ملے بلکہ سب کے اذہان میں صرف ایک ہی بات موجود تھی کہ شاید آج تک عبادت خداوندی کاہم صحیح حق ادا نہیں کر پائے، ایسا نہ ہو کہ روزِ محشر ہماری عبادتیں کم پڑ جائیں اور ہم رسول ؐ کہ جنہوں نے ہماری خاطر اس قدر آنسو بہائے کہ داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی، اُن سے نظر ملانے کے قابل نہ رہیں۔ شاید کہ اس رات کے دامن میں وہ لمحہ خوشنودی موجود ہو کہ جس میں اس خالق و مالک اور اُس کے نبی کریمؐ کی رضا حاصل ہو جائے، وہ ہم سے خوش ہو جائیں۔ اور پھر جب روزِ عاشور سب قربانیاں خدائے غالب و جلیل کے گوش گزار کر چکے تو امام عالی مقام حضرت حسین ؑ نے اپنی شہادت پیش کی۔ تب جب کچھ بچا نہ تھا۔ سب کچھ اسلام کی خاطر قربان کر چکے تھے۔ لیکن ایک چیز تھی جو اُن کے لئے چیز نہیں تھی بلکہ سب کچھ تھا۔ جو اُن سب قربانیوں سے بھی بڑھ کر تھی جو وہ دے چکے تھے۔ اور وہ تھی ’’نماز‘‘۔ آپ ؑ نے نماز ادا کی اور سر مبارک سجدے میں ہی تھا جب جامِ شہادت نوش کیا۔
آج شبِ عاشور میں کہیں کہیں عبادتیں جاری رہتی ہیں مگر رسمیہ عبادتیں ۔ شب بیداری کی جاتی ہے مگر محظ ذاتی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے، اور بعض اوقات تو ذاتیات، نفس اس قدر غالب آ جاتا ہے کہ اس محفل اور اس عبادت کے تقدس کو کلی طور نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ روزِ عاشور مجالس ہوتی ہیں، فاقہ رکھا جاتا ہے، عبادات کی جاتی ہیں، عباداتی اعمال ہوتے ہیں، لیکن ان سب میں بھی فرض عبادت کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ وقتِ فجر سے وقتِ عصر تک بھوکا پیاسا رہا جاتا ہے مگر ظہر و عصر کی فرض نمازوں کو بھلا دیا جاتا ہے۔ پھر مجالس و جلوس میں مگن نظر آتے ہیں تمام عشقِ حسینی ؑ کے دعویدار لیکن یہ بھلا بیٹھے کہ حسین ؑ کو عشق کن سے تھا؟ حسین ؑ کا عشق کیا تھا؟
ذکر اہلِ بیت کی مجالس جن کا سلسلہ یکم محرم الحرام سے شروع ہو کر 17ربیع الاول تک جاری رہتا ہے۔ یہ اپنے عنوان کی رو سے نہایت ہی مقدس مجالس ہوتی ہیں لیکن ان مقدس مجالس میں بھی تقدس کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ ان مجالس میں اکثر اوقات اُن مقدس ہستیوں کے متعلق نازیبا گفتگو کی جاتی ہے جن کی عزت وہ ہستیاں بھی کرتی تھیں جن کے نام یہ مجالس منسوب ہیں نہ صرف وہ ہستیاں بلکہ ان کو عزت و تکریم دینے والا خود خدائے ربِ جلیل القدر ہے۔اگر ہمیں دعو ٰی ہے عشقِ حسینی ؑ کا تو عشق ہونا چاہئے، ہمیں حسین ؑ کی ہر چیز سے، ہر اس انسان سے جسے حسین ؑ دل و جان سے چاہتے ہوں۔جب ہم کسی عام انسان سے یا دنیاوی چیز سے عشق کرتے ہیں ، تو خود بخود ہمیں عشق ہو جاتا ہے ہر اس چیز سے جو اس شخص یا چیز سے منسوب ہو۔ تو پھر جب بات آئے عشقِ حسینی ؑ کی تو پھر اس جذبہ میں کھوٹ کیوں؟ کیا اُس وقت اس جذبہ کی حقیقت ماند پڑ جاتی ہے؟ یا اصلیت بدل جاتی ہے؟ اگر خدا، خدا کا رسولؐ اور رسولؐ کے نواسے، تمام اہلِ بیت ؑ خود ایک کام کرنے کا حکم دیا، وہ ہم پر فرض ہیں ، جن سے منع کیا ہر حال میں ہمیں رُکے رہنا ہو گا۔ تو پھر ہم وہ کام کیوں کریں جو اِن تمام ہستیوں کو ناپسند ہوں؟ اُن ہستیوں کی تکریم کیوں نہ کریں جنہیں عزت خود خدا نے دی اور تمام اہلِ بیت ؑ خود اُن کی عزت بجا لاتے تھے۔
ایک بار حضرت عمر فاروق ؓ کی ملاقات امام حسین ؑ سے ہوئی ، حضرت عمر فاروق ؓ نے امام حسین ؑ سے فرمایا کہ ’’آپ ؑ مجھ سے ملاقات کرنے کیوں نہیں آتے؟ کبھی ہمارے گھر تشریف لائیں، ہمیں عزت افزائی کا موقع بخشیں۔‘‘ حضرت امام حسین ؑ نے فرمایا، ’’جی ضرور‘‘۔ کچھ دن بعد امام حسین ؑ حضرت عمر فاروق ؓ کے گھر ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ لیکن وہاں دیکھا کہ حضرت عمر فاروق ؓ ، حضرت امیر معاویہؓ سے کسی اہم معاملے پر گفتگو فرما رہے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ (حضرت عمرفاروق ؓ کے بیٹے) بھی باہر موجود سے ان سے پتہ چلا کہ اندر کسی اہم معاملے پر گفتگو ہو رہی ہے اور انہیں (عبداللہ بن عمرؓ) اندر جانے کی اجازت نہیں۔ یہ سن کر امام حسین ؑ واپس تشریف لے گئے کہ جب عبداللہ بن عمرؓ کو اجازت نہیں تو مجھے بھی نہیں جانا چاہئے۔ جب حضرت عمر فاروق ؓ کو اس معاملے کا علم ہوا تو فوراً جا کر حضرت امام حسین ؑ سے فرمایا، وہ عمرؓ کا بیٹا ہے اس لئے اسے اجازت نہیں اور آپ رسولؐ کے نواسے ہیں، آپ ؑ مجھے ویسے ہی عزیز ہیں جیسے رسول ؐ کو آپ ؑ یا مجھے رسولؐ۔
یہ تھی محبت اہلِ بیت ؑ ، صحابہ اکرامؓ کے دل میں اور یہ تھا احترام صحابہ اکرامؓ کا اہلِ بیت ؑ کے دل میں۔ اس واقع کو بیان کرنے کا مقصد اس حقیقت سے آگاہی حاصل کرنا ہے کہ جس کی بات کو حکم کا درجہ اُس ہستی نے دیا، جس سے عشق کا دعو ٰی ہم کرتے ہیں، تو ہم کون ہوتے ہیں گستاخی کرنے والے؟ اور اگر حضرت عمر فاروق ؓ کو حضرت امام حسین ؑ اپنے بیٹے سے زیادہ عزیز سمجھتے ہیں تو ان کی پاکیزہ ہستی کے لیے گستاخی کرنا گناہ کبیرہ کی مانند ہے، ایسا کرنے والوں کو اپنے اذہان کو کشادہ کر کے سوچنے کی ضرورت ہے۔۔۔آخر میں پھر سے کہوں گی ہمیں اپنے نئے سال کو ہائے حسین ؑ (ماتم)سے نہیں بلکہ نئی افکار کے ساتھ شروع کرنا ہو گا۔واقعہ کربلا کی اصلی روح کو سمجھ کر اپنے افعال سے اسے مبارک بنانا ہو گا۔ اہلِ بیت ؑ کی قربانیوں نے جو ہمیں درس دیا اس پہ عمل کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو حق، سچ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

Short URL: http://tinyurl.com/hq42bfa
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *