بدلتی سیاست میں کون بکھر جائے گا؟

Ch. Zulqarnain Hundal
Print Friendly, PDF & Email



خطہ برصغیر میں بلکہ پوری دنیامیں بدلی ہوئی صورتحال سے مختلف تجزیہ کار یہ سوال اٹھا رہے ہیں ۔کہ کون خطے میں تنہا رہ جائے گا؟ اور کون سا وطن بکھر جائے گا۔؟قارئین آپ بھی حالات حاضرہ پر نظر دوڑا کر اس سوال پر سوچئے گا۔میرے نزدیک جو ملک خطے میں ذاتی نمبرداری یا اثر و رسوخ قائم کرنے کی سیاست کرے گا یا کر رہا ہے جو کسی خطے میں حکمرانی کے خواب دیکھے گا یا حکمرانی حاصل کرنے کے لئے سرمایہ کاری کرے گا یا سازشیں کریگا۔ وہ ملک ماضی میں مستحکم نہیں رہ سکے گا ایک دن آئے گا کہ اس وطن کا شیرازہ بکھر جائے گا۔وہ ملک اتنے ٹکڑوں میں منقسم ہوگا کہ دوبارہ اکٹھا کرنا مشکل ہوجائے گا۔تن تنہا ہونا کسی ملک کے لئے اتنا اذیت ناک نہیں جتنا ٹکڑوں میں بٹنا۔فرض کریں اگر کوئی وطن تن تنہا ہو بھی جائے تو اسکی اذیت کچھ عرصے کی ہوگی مگر ایک وقت کے بعد وہ ملک دنیا میں ایک بڑی طاقت کی صورت میں ابھرے گا۔کیوں کہ اسے خود پر انحصار کرنے کی عادت ہوجائے گی کسی کی مدد پر وہ کبھی انحصار نہیں کرے گا۔برہان وانی کی شہادت کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں آزادی Zulqarnain Hundal - Meri rayeکی تحریک ذور پکڑتی جا رہی ہے۔دن بدن کشمیریوں کے دلوں میں آزادی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔بھارت اس تحریک آزادی کو دبانے کے لئے کشمیریوں پر دن رات نت نئے ظلم و تشدد کر رہا ہے۔بھارتی فوج بزور بندوق کشمیریوں پر روز بروز طرح طرح کی پابندیاں لگا رہی ہے۔شاید بھارتی فوج دنیا کی ظالم ترین فوج ہونے کا ریکارڈ درج کروانا چاہتی ہے۔بہادری کا ٹائٹل تو حاصل نہیں کر سکتی۔گزشتہ کئی روز سے کشمیریوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔پیلٹ گنوں سے شررے برسا کر متعدد کو آنکھوں کی بینائی سے محروم اور زخمی کیا جا رہا ہے۔کشمیریوں کو روز مرہ معمول کے کاموں سے روکا جا رہا ہے۔اخبارات اور انٹرنیٹ پر پابندیاں عائد ہیں۔یہاں تک کے بعض کو مسجدوں میں جانے سے بھی روکا جا رہا ہے۔بھارتی فوج کشمیریوں کے ساتھ قیدیوں سے بھی بدتر سلوک کر رہی ہے۔مقبوضہ کشمیر کو یرغمال بنا کر رکھا ہے۔ کشمیری ظلم برداشت کر لیں گے مگر غلامی کو ہر گز قبول نہیں کریں گے۔کشمیریوں کا جذبہ آزادی صرف آذادی حاصل کر کے ہی ختم ہوگا۔برسوں سے آزادی کے منتظر ہیں۔بار بار کشمیر کا تذکرہ کرنے کا مقصد مسئلہ کشمیر کو اجاگر رکھنا ہے۔سب سے گزارش ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتے رہیں۔عالمی طاقتیں بھی جانتی ہیں کہ بھارت ایک عرصہ سے مقبوضہ کشمیر پر ناجائز قبضہ جمائے ہوئے ہے۔اور بذور بندوق کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی تگ و دو میں ہے۔افسوس سب جانتے ہوئے بھی عالمی طاقتیں خاموشی سادھے ہوئے ہیں۔گزشتہ دنوں کسی بھی بڑے ملک کی طرف سے کشمیر کے حق میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔مسئلہ کشمیر کے حل سے ہی برصغیر میں امن کا آغاز ہوگا۔شاید عالمی طاقتیں ہی امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔عالمی طاقتیں تو اپنی آنکھیں بند ظاہر کر رہی ہیں۔مگر سب سے بڑی طاقت اللہ تو دیکھ رہا ہے۔وہ دیکھ رہا ہے کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم اور کون بیٹھا تماشائی بنا ہوا ہے۔آخر کتنے دن ظالم کے ہوں گے ایک دن تو مظلوم کا بھی ہوگا۔وہ بھی بدلہ کی پوزیشن میں ہوگا۔ماضی میں برطانیہ اور روس کی مثال لے لیجئے۔دونوں نے خطے میں ظالمانہ حکمرانی اور قبضوں کی کوششیں کیں کسی حد تک کامیاب بھی ٹھہرے۔مگر جب اللہ نے حکمرانی چھینی تو ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔اتنے ٹکڑے کے دوبارہ سمیٹ نہ سکے۔موجودہ صورتحال میں بھارت پورے براعظم ایشیاء میں حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے۔امریکا انکا حامی یعنی بھارت ایشیاء میں امریکی نمائندگی کرے گا۔ایشیاء میں امریکی ری پری زینٹیٹر بننے کی تیاریوں میں ہے۔اس پلان کے تحت کچھ عرصہ سے امریکہ بھارت کی مالی اور بارودی امداد کر رہا ہے۔امریکہ کا اصل مقصد بھارت کو چین کے مخالف کھڑا کرنا ہے۔جس کی خاطر امریکہ بھارت کو خطے میں عسکری لحاظ سے سب سے زیادہ طاقتور بنانا چاہتا ہے تاکہ چین کو بزریعہ بھارت کھوکھلا کر سکے۔افغانستان اور ایران میں نت نئے پراجیکٹس کا افتتاح بزریعہ بھارت بھی امریکی پلان کا حصہ ہے۔براستہ افغانستان امریکہ و بھارت چین کے سب سے بڑے دوست پاکستان کو بھی کھوکھلا کرنا چاہتا ہے۔جس کے شواہد پاکستان کے پاس موجود ہیں اور مزید امریکہ کی ان ثبوتوں پر خاموشی اس پلان کی صداقت پر مہر ثابت ہو رہی ہے۔خطے میں ایرانی رویے میں تبدیلی بھی امریکہ سے گہرے تعلقات کی تصدیق ہے۔گزشتہ سالوں سے عالمی سیاست میں بدلاؤ آتا جا رہا ہے۔روس بھارت کا سب سے بڑا حامی بھی اپنے نئے دوست بنانے کے در پہ ہے۔اپنا بلاک تبدیل کر رہا ہے۔ماضی میں پاکستان ایشیاء میں امریکہ کا سب سے بڑا حامی تھا۔بذریعہ پاکستان امریکہ نے ایشیاء میں قدم جمائے۔امریکہ نے صرف اور صرف اپنے مفادات کی خاطر پاکستان کو استعمال کیا۔مفادات حاصل کرنے کے بعد تعلقات کو بھی کم کردیا۔شاید پاکستان آج بھی امریکی دوستی کی بدولت دہشتگردوں کی آڑ میں ہے۔پاکستان نے امریکی سیاست سے بڑے نقصانات اٹھائے۔بڑے عرصے کے بعد پاکستان دوبارہ مستحکم ہو رہا ہے۔جس کا کریڈٹ راحیل شریف تمام پاکستانی فورسز اور کسی حد تک حکومت کو بھی جاتا ہے۔سب سے بڑی بات کہ پاکستان خود پر انحصار کرنا سیکھ رہاہے اور اس پر عمل شروع کر دیا ہے۔پاکستان نے جو نقصانات اٹھانے تھے اٹھا چکے۔راہ راست ہمیں مل چکا ہے۔اب کے بار مودی سرکار کی پالیسیوں کی بدولت بھارت کی ناؤ خطرے میں ہے۔بھارت خطے میں حکمرانی و نمبرداری قائم کرنے کی صورت میں افغانستان ایران اور بنگلہ دیش کو فنڈنگ کر رہا ہے۔اس کے بر عکس بھارتی عوام بھوک وافلاس اور طرح طرح کے مسائل سے دو چار ہے۔بھارت اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ جاسوسی کی صورت میں اور مخالفین کو کھوکھلا کرنے کی صورت میں خرچ کر رہا ہے۔اور بھارت میں بھوک کے ستائے ہوئے لوگ انصاف کے متلاشی بھارتی سرکار کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔بھارت مخالف تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔خالصتان تحریک ہندوستان کی آزادی کے بعد دوبارہ ذور پکڑ رہی ہے۔اس تحریک کا ذور یونہی رہا تو ایک دن بھارت اپنے صوبہ پنجاب سے محروم ہو جائے گا۔بھارت میں مسلمان عیسائی سکھ بدھ مت دلت بلکہ تمام اقلیتیں انتہا پسند ہندو دہشت گردوں سے اکتائی ہوئی ہیں۔اور بھارتی حکومت ان انتہا پسندوں کی خود پشت پناہی بھی کر رہی ہے۔بھارت کی سب سے بڑی بھول کے وہ کشمیر کو اپنا حصہ سمجھتا ہے ۔کشمیر ایک دن ضرور آزاد ہوگا ۔اور بھارتی شیرازہ بکھرنے کا آغاز ہوگا کشمیر۔اس کے بعد پنجاب پھر بنگال اور دوسرے علاقے بھی بھارت سے آزادی حاصل کر لیں گے۔کشمیر کے آغاز کے بعد بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے ایک دفعہ یہ سلسلہ شرع ہو گیا تو تھمے گا نہیں بھارت کے اتنے ٹکڑے ہو جائیں گے سمیٹنا مشکل ہو جائے گا۔3287263 کلو میٹر رقبے پر محیط بھارت کا نقشہ میں سے صرف چالیس فیصد باقی رہ جائے گا۔بھارت کا نیا دوست امریکہ بھی جلد اپنے انجام کو پہنچننے والا ہے۔عنقریب امریکہ بھی بکھر جائے گا۔پاکستان کو صرف اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے ۔اپنے آپ کو اندر سے مضبوط کرنا ہوگا۔اپنے اندرونی معاملات کو نپٹانا ہوگا۔خود پر انحصار کرنا ہوگا عالمی سازشوں کو بھانپنا ہوگا۔اگر ہم مضبوط رہیں۔ تو ہمیں تنہا کرنے والے خود بکھر جائیں گے مگر ہمیں کبھی تنہا نہیں کر پائیں گے۔

Short URL: http://tinyurl.com/zado72h
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *