بے حس معاشرہ ۔۔۔۔ تحریر: سمیعہ رشید

Samia Rasheed
Print Friendly, PDF & Email

بچے کی پیدائش پر جو خوشی والدین کے چہروں پر دیکھنے کو ملتی ہے اس کا اندازہ لگانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے. وہ اس خوشی کے لمحے نہ جانے اپنے بچے کے مستقبل کے بارے میں کتنے خواب اپنی آنکھوں میں سجا لیتے ہیں ایسا ہی کچھ عبدالباسط کے والدین نے بھی اس کی پیدائش پر کیا ہو گا. عبدالباسط جو کراچی کا رہائشی اور ہمدرد یونیورسٹی کا ہونہار طالب علم تھا گزشتہ روز ماں کی دعاوں کے سائے میں پیپر دینے کے لئے گھر سے نکلا. امتحانی مرکز پہنچنے میں دس منٹ تاخیر کیا ہوئی اساتذہ نے اس کو امتحانی سنٹر میں یہ کہہ کر داخل نہیں ہونے دیا کہ تہیں آنے میں تاخیر ہو گئی ہے ؛عبدالباسط کی منت سماجت کے باوجود وہ نہ مانے اور مزید کہا کہ اگر تم یہاں خود کو تیل چھڑک کر آگ بھی لگا لو تو بھی پیپر دینے نہیں دیا جائے گا.کچھ دیر کے بعد یہ اطلاع آئی کہ عبدالباسط نے کیمیکل چھڑک کر خود کو آگ لگا لی اور تڑپ تڑپ کر وہ ہونہار طالب علم جو اپنے فائنل ائیر میں تھا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد آسٹریلیا اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے انتظامات کر چکا تھا. واپس آکر پاکستان کی خدمت کرنا اور والدین کا سہارا بننا اس کا خواب تھا. والدین نے بہت خوشی سے جس کی منگنی کی تھی اور والدہ اس کی شادی کی تیاریاں کرنے میں مصروف تھیں۔ وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔
دوسرا پہلو یہ کہ اتنی بڑی میڈیکل یونیورسٹی جہاں لاکھوں روپے فیسیوں کی مد میں لئے جاتے ہیں۔ کیا وہاں سی سی ٹی وی کیمرے نہیں لگے ہونے چاہیے؟؟؟؟جبکہ وزیر اعلی ہاوس سے تمام یونیورسٹیوں کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں کہ دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر کیمرے نصب کیے جائیں مگر ہمدرد یونیورسٹی جہاں ہزاروں طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ہمارے مستقبل کے روشن ستارے جو دن رات محنت کر کے یہاں تک پہنچے ہیں ان کی سیکیورٹی کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ایک بھی سی سی ٹی وی کیمرہ نصب نہیں کیا گیا۔ چار چھ نہیں تو ایک دو کیمرے تو نصب کیے جا سکتے تھے مگر یہ صرف بے حسی ہے انتظامیہ کی جو انہوں نے اس فرض سے خفلت برتی
تیسرا پہلو یہ ہے کہ کیا ایک فائنل ائیر کا طالب علم جس کو اچھی طرح معلوم بھی ہے کہ ایک ذرا سی چوٹ انسانی جسم کے لئے برداشت کرنا بہت مشکل کام ہے وہ خود کو ایک دم آگ کیسے اور کیونکر لگائے گا؟؟؟ چار ساڑے چار سال کی میڈیکل تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان ذہنی بیمار تو ہو نہیں سکتا اور نہ ہی یہ بات ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والا انسان بلاشبہ مضبوظ اعصاب کا مالک ہوتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ لائق ہونا لازمی امر ہے
عبدالباسط جو گھر سے پیپر دینے کی غرض سے نکلا تھا اس کے پاس فورا سے کیمیکل کہاں سے آگیا؟؟؟؟ اس کو کس نے وہ فراہم کر دیا کیا یونیورسٹی میں کیمیکلز کو کھلے عام رکھا جاتا ہے کہ جس کی جب مرضی ہو وہ اس کو استعمال میں لے آئے اس معاملے میں یونیورسٹی انتظامیہ خاموش ہے اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کر رہی ہے کہ عبدالباسط نے خودسوزی کر لی اور خود کو بری الزمہ قراردے رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
عبدالباسط کی والدہ نے انتہائی درد ناک حالت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اساتذہ پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ ان کے بیٹے کو انہوں نے قتل کیا ہے ان کا بیٹا ایسا قدم کبھی نہیں اٹھا سکتا تھا اساتذہ نے میرے بچے کے ساتھ ناروا سلوک کیا نیز عبدالباسط کے بھائی نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے بتایا کہ ہم نے اپنے بھائی کو یونیورسٹی پڑھنے کے لئے بھیجا تھا نہ کہ خودسوزی کرنے کے لئے ؛ فیملی نے حکومت وقت اور پولیس سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ اساتذہ کو گرفتار کر کے تفتیش کی جائے اور اس واقع میں جن کا ہاتھ ہو ان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے
حقائق کے سامنے آنے تک کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا کہ کیا عبدالباسط کی فیملی کے لگائے گے الزامات درست ہیں یا ان میں کوئی صداقت نہیں ہے مگر اس واقع سے اس معاشرے کی بے حسی کو باآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنا برا واقع رونما ہو گیا ایک نوجوان جو تیاری کر کے پیپر دینے گھر سے تو اپنے قدموں پر چل کر گیا مگر واپس اپنے قدموں پر چل کر نہ آسکا
ہمارا میڈیا جس کو پانامہ لیکس کے علاوہ اس وقت کوئی موضوع کی دستیاب نہیں ہے جس پر وہ بات کر کے تین چار مختلف پارٹیز کے رہنماوں کو آپس میں لڑوا کر ریٹنگ حاصل کرسکے مگر ایک نوجوان جو اتنے سالوں کی محنت کے بعد اپنی منزل کے بہت قریب جا کر س بے بسی سے دنیا کو خیر باد کہہ گیا۔۔۔۔۔۔…
آج ہمیں احساس کرنے کی ضرورت ہے۔ پتا نہیں ہمارے ضمیر کیوں مرتے جا رہے ہیں۔؟؟؟؟ ہمارے لئے ہمارا نقصان اور فائدہ زیادہ اھم ہے اگر ہمیں سب کچھ میسر ہے تو پھر ہمارے ہاں کوئی مرے یا جئے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہمارے ہاں بہت سے درد نا واقعات رونما ہو جاتے ہیں مگر ہمارے کان پر جوں تک نہیں رنگتی۔۔۔…
آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کے آگے روز قیامت سرخرو ہوں تو آج صرف ہمیں احساس کرنے کی اور اپنے اپنے حصے کے کام کو ایمانداری سے کرنے کے ضرورت ہے صرف یہ سوچ کر کہ کوئی ذمہ دار دیکھے یا نہ دیکھے اللہ تعالیٰ کی ذات جو سمیع و بصیر ہے وہ سن بھی رہا ہے اور دیکھ بھی رہا ہے اس سے کچھ بھی چھپایا نہیں جاسکتا چاہیے وہ عمل چھپ کر کیا جائے یا سب کے سامنے۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ عبدالباسط کے خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے امین

Short URL: http://tinyurl.com/zfu4goz
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *