آمدِ پیکرِ عفوودرگزر،مظہرِ رحمت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم

M. Tariq Nouman Garrangi
Print Friendly, PDF & Email

manifestation of the mercy manifestation of the mercy manifestation of the mercy manifestation of the mercy manifestation of the mercy manifestation of the mercy manifestation of the mercy

تحریر: مولانامحمد طارق نعمان گڑنگی

آقا تیرے آنے سے رنگ بدلا زمانے کا
ہیبت سے گرا تیری ہر بت،بت خانے کا

مبارک ماہ ربیع الاول کا آغاز ہوچکا ہے۔ جس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ہوئی ظلمات سے نکل کر لوگ روشنی کی طرف سفر کرنے لگے چور چوکیدار بن گئے،بچیوں کوزندہ درگور کرنے والے بچیوں کے محافظ ونگہبان بن گئے یقینا یہ اسی وقت ہواجب تاریخ میں ایک انقلاب آیاانقلاب بھی کسی کی بعثت کے ساتھ آیاسرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا واقعہ بلا شبہ انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ انقلاب آفریں واقعہ ہے۔
انسانی دنیا تاریخ کے دوراہے پر کھڑی تھی،عرب میں ایک طرف جہالت تاریکی بد امنی اور قتل غارت گری کا دور دورہ تھا تو دوسری طرف عجم کے فرماں روا اپنی بادشاہت اور تہذیب وتمدن کی آڑ میں عوام الناس کا استحصال کرکے اپنے جذبہ جہاگیری کو تسکین دے رہے تھے۔انسانیت کا ضمیر نفس کے پنجہ میں سسک رہاتھا طاقتور کمزور کو اپنا غلام سمجھتا تھا اور کمزور محکومی کی حدوں سے گزرکرزورآوروں کی بندگی پہ مجبور ہوچکے تھے۔عدل وانصاف اور اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چکا تھا لوگوں کے پاس آسمانی ہدایت کا کوئی قابل لحاظ نسخہ اپنی اصل شکل میں محفوظ نہیں تھا جو اس بحرانی کیفیت کا مداوا کر پاتا۔اہل کتاب کے احبار ورہبان کی کاروباری ذہنیت کے نتیجہ میں وحی ربانی کا وہ چشمہ صافی بھی گدلا ہو چکا تھا جو ایسی مشکل گھڑی میں ان تشنہ لبوں کی سیرابی کا سامان کر سکتا۔کل ملا کر انسانی دنیا ایسے اندھیرے میں بھٹک رہی تھی جہاں روشنی کا کوئی گزر نہ تھا۔تاریخ کے اس دور کو دور جاہلیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
لیل ونہار کی یہ گردشیں اس امر کی متقاضی تھیں کہ دنیا کے منظر نامہ پر ایک تاریخی انقلاب کاظہورہو۔تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ جب انسانی دنیا اس قسم کے بحرانی حالات سے دوچار ہوئی ہے تو اس کارخانہ قدرت کے صانعِ حکیم نے تمدن کے گہوارہ کی حیثیت رکھنے والے مقامات پر ایسے افراد کو منصب نیابت پر مامور کیا جنھوں نے اپنی فوق العادت شخصیتوں کے ذریعہ اس ربع مسکون پر بسنے والے لوگوں کی رہبری کا فریضہ انجام دیا۔چھٹی صدی عیسوی میں یہ حیثیت مکہ کو حاصل تھی جہاں عرب جیسی جفاکش بلند حوصلہ اور اولوالعزم قوم آباد تھی۔ عرب قوم کی شناخت گردونواح میں بعض خصوصیات کی بنا پر مسلم تھی۔اس میں قیادت کی اہلیت اور جوہر دونوں چیزیں موجود تھیں اس میں حوصلہ اور عزم کا ٹھاٹیں مارتا سمندر موجزن تھا۔اس کے اندر انقلاب آفرینی کی بھرپور صلاحیت موجود تھی۔ایسے وقت میں عرب کے سب سے معززاور مشہور قبیلہ قریش میں دنیا کے سب سے بڑے انسان کو اللہ تعالی نے وجود بخشا جو آگے چل کر جہالت وضلالت کی تاریک رات میں آفتاب رسالت بن کرابھرا اور بہت قلیل مدت میں اس کی جلوہ سامانی سے تمام شرق وغرب منورہو گئے۔شاعر نے کیاخوب پہ منظر کشی کی ہے

حضور آئے توسر آفرینش پا گئی دنیا
اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آگئی دنیا
بجھے چہروں کوزنگ اتراسُتے چہروں پہ نورآیا
حضور آئے توانسانوں کوجینے کاشعور آیا

محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا واقعہ بلاشبہ انسانی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد نے صفحہ ہستی پر جوانمٹ نقوش ثبت کئے ہیں وہ آج بھی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف بارہا کیا گیا اور رہتی دنیا تک کیا جاتا رہے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کے اعتراف کا دائرہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میداں میں متعدد غیر مسلم شخصیتوں نے طبع آزمائی کی ہے۔مشہور مصنف تھامس کارلائل نے اپنی کتاب ہیرو اینڈ ہیرو ورشپ میں کمالات محمدی کا اعتراف کیا ہے۔امریکہ سے تعلق رکھنے والے تاریخ داں اور ماہر فلکیات ڈاکٹرمائکل ہارٹ نے اپنی مایہ ناز تصنیف تاریخ کی سو انتہائی متاثر کن شخصیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سر فہرست تسلیم کیا ہے۔دنیا میں بڑے لوگ بہت ہوئے ہیں مگر جو جامعیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے اس کی کوئی دوسری مثال پیش کرنے سے دنیا کی تاریخ عاجز ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو بجائے خود ہمارے لیے ایک نمونہ عمل نہ ہوقرآن کا بیان ہے۔البتہ تحقیق ہے تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ(القرآن)

وہ اک امی کہ ہر دانش کو چمکاتا ہوا آیا
وہ اک دامان ِ رحمت پھول برساتا ہوا آیا
تیرے در کے سوا آسودگیِ دل کہاں ملتی
زمانہ تیرے در پہ ٹھوکریں کھاتا ہوا آیا

ٓؒؒاللہ پاک نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کوسارے جہاں کے لیے رحمت بناکر بھیج دیافرمایا۔اے نبی ہم نے آپ جہاں کے لیے رحمت ہی رحمت بنادیا(القرآن)
کسی نے کیاخوب شانِ رسالت میں ایک نقشہ کھینچاہے کہ۔رحمۃ للعلمین آپ کا جبہ ہے اور خلقِ عظیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تاج ہے۔ صداقت اور امانت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کا تانا بانا ہے۔ خوش خلقی کا رنگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت حسنہ میں جلوہ گر ہے۔ حق کا نورانی حلقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک کے گرد جگمگ جگمگ کرتا ہے۔ اللہ کا نور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب صادق میں جمال آرا ہے۔ معرفت کا سرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کالی سرخ ڈوروں والی آنکھوں سے مترشخ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجسم حق ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تفسیر قران ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو کرتے ہیں تو جیسے پھول جھڑتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبسم فرماتے ہیں تو دلوں کی فوج اسیرِ محبت ہو جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادب سکھلانے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل سراپا ادب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برتری کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت ہیں جوبیٹھتے ہیں تو سب کے برابر،جو چلتے ہیں تو سب کے درمیان۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی میں ایک کائنات جذب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو پھولوں کی ایک جنت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل موتیویں بھرا دریا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی اختیار کرتے ہیں تو کائنات خاموش ہو جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبسم فرماتے ہیں تو سدا بہار باغ کِھل جاتے ہیں۔ فرشتے جن کی خوشہ چینی کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے کلام کی جب تلاوت فرماتے ہیں تو کائنات مسحور ہو جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم افسردہ ہوتے ہیں تو جہاں افسردہ ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غمزدہ ہوتے ہیں تو جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غمزدہ ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبسم فرماتے ہیں تو کائنات مسکراتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روتے ہیں تو کائنات روتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے ہیں تو کائنات کانپتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیکرِ عفو ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مظہر رحمت ہیں۔ دوست پر رحمت فرماتے ہیں تو دشمن کو درگزر کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حلم کے نورانی مینار ہیں تو شفقت کے پھول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وعدہ کرتے ہیں تو ہر قیمت پرایفا کرتے ہیں۔ کوئی امر سخت ناپسندیدہ وقوع پزیر ہو تو سینہ بے کینہ میں رنجیدگی کا کچھ ایسا تموج پیدا ہوتا ہے کہ آبروں کے درمیان سے اٹھتی ہوئی وہ رگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جبین مبارک سے مانگ تک جاتی ہے پھول جاتی ہے۔ مگر ناپسندیدگی ذات کے لئے نہیں کسی اصول کے لئے ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہیں تو راستے میں ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کی خیریت پوچھ رہے ہیں اور شفقتیں فرمارہے ہیں

ہمیں وہ اپناکہتے ہیں محبت ہوتوایسی ہو
ہمیں نظروں میں رکھتے ہیں عنایت ہوتوایسی ہو

پیاری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کااخلاق عالیہ کودیکھ کرکئی لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوئے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر میں تھے، ایک بکری پکانے کی تجویز ہوئی، ایک شخص نے کہاکہ اس کا ذبح کرنا میرے ذمہ ہے۔ دوسرا بولاکہ اس کی کھال کھینچنا میرے ذمہ۔ تیسرے نے کہا اس کا پکانا میرے ذمہ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ لکڑیاں اکٹھا کرنا میرے ذمہ۔ آپ کے رفقا نے عرض کی کہ حضور!یہ بھی ہم ہی آ پ کی طرف سے کر لیں گے۔ آ پ نے فرمایا کہ ہاں!مجھے معلوم ہے کہ تم میری طرف سے کرلوگے، لیکن مجھے یہ بات ناگوار ہے کہ میں اپنے رفیقوں سے امتیازی شان میں رہوں اور اللہ پاک کو بھی ناپسند ہے اپنے بندے کی یہ بات کہ وہ اپنے رفیقوں سے امتیازی شان میں رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور خود لکڑیاں جمع فرمائیں۔
امتیازی شان اختیار کرنااور کام لوگوں سے کام کروانااور خود ہٹ کر بیٹھ جانا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاپسند نہیں تھا۔آپ گھریلوکام میں بھی ازواجِ مطہرات کے ساتھ ہاتھ بٹایاکرتے تھے زندگی گزارنے کاسلیقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کوسکھایا۔اس امت کی خاطر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے راتوں کواٹھ اٹھ کردعائیں کیں اب ہمیں چاہیے کہ ان دعاؤں کی لاج رکھتے ہوئے اعمال وافعال نبی علیہ السلام کے طریقوں کے مطابق کریں جنت میں جانے کایہی طریقہ ہے

؎اگر جنت میں جانے کاارادہ ہے تمامی کا
توگلے میں طوق ڈالومحمد(ﷺ)کی غلامی کا

اللہ پاک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے (آمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)

Short URL: https://tinyurl.com/2lkpy4hm
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *