ایم اے انگلش کی ساٹھ میں سے بارہ کتب کے مصنف، تین نثری اور ایک شاعری کی کتاب کے خالق، پروفیسر منور علی کا انٹرویو

داؤدخیل(انٹرویو: ذوالفقارخان)وقت ملا تو سوچیں گے جیسی شاعری کی کتاب شاعرہ سعیدہ صبا نیازی ضلع میانوالی میں خواتین شعراء کے ماتھے کا جھومرہیں۔میری انگلش سے محبت ایک انسپائرنگ ٹیچر کی مرہونِ منت ہے۔ عطااللہ عیسیٰ خیلوی میری کتاب درد کا سفیر کا سفیر ہے۔ جو تم سے کہہ نہ سکا میری اردو شاعری کی واحد کتاب ہے۔باقی شاعری ڈائریوں کی زینت بن کے رہ گئی ۔لاہور اور میانوالی کے لوگوں میں زندہ دِلی اور ملنساری مشترکہ اوصاف ہیں۔یہ باتیں ایم اے انگلش کی ساٹھ میں سے بارہ کتب کے مصنف، تین نثری اور ایک شاعری کی کتاب کے خالق، گورنمنٹ کالج میانوالی کے انگلش کے سابق پروفیسر منور علی ملک نے گزشتہ روز اپنے استاد پروفیسر گل خان کی رہائشگاہ پر اسکندرآبادمیں راقم سے تفصیلی انٹرویو کے دوران کہیں۔ آپ قیامِ پاکستان کی ابتداء میں ہی انگریزی کی طرف راغب ہوگئے حالانکہ اُس وقت انگریزی سے لوگ بھاگتے تھے، اس کی کیا وجہ بنی؟ اس پر پروفیسر منور علی ملک نے کہاکہ انگلش کی طرف میں چھٹی کلاس میں اپنے استاد پروفیسر گل خان کی انسپائرنگ شخصیت کی بدولت راغب ہوا۔میرے محترم استاد نے اتنا شوق پیدا کیا کہ مجھے آج انگلش کاجنون ہے۔انگلش میں خدمات کے حوالے سے سوال پر بتایاکہ ایم اے انگلش میں پاکستان میں جو ساٹھ کتب اس وقت رائج ہیں اُن میں سے 12میری تصنیف شدہ ہیں۔ ایک انگلش پروفیسر کا اُردو شاعری اور اُردو ادب سے محبت عجیب لگتی ہے لیکن سرائیکی ، اُردو شاعری اور اُردو نثرآپ کی وجہ شہرت کیسے بن گئی؟ پروفیسر منور علی ملک نے جواب دیا کہ میں نے لالا عطااللہ عیسیٰ خیلوی پر درد کا سفیر کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ وہ اتنی مقبول ہوئی کہ اردو ادب میں میرا نام بھی ساتھ ساتھ لیتی گئی۔ اس کے علاوہ پسِ تحریر کے نام سے کتاب لکھی جس میں شہرہ آفاق ادبی شخصیات کے انٹرویوز ہیں۔ جبکہ جان ملٹن جو انگریزی کے بہت بڑے شاعر تھے اُن کی شخصیت اور خدمات پر ایک کتاب جان ملٹن کے نام سے لکھی ہے۔شاعری اوائل میں بہت کی مگر کتاب صرف ایک ہی جو تم سے کہہ نہ سکا کے نام سے چھپوائی باقی کلام ڈائریز اور کھلے صفحات پر بکھرا پڑاہے۔اپنے استاد پروفیسر گل خان کی سادگی پر اظہارِخیال کرتے ہوئے کہاکہ جینوئن لوگ ہمیشہ سادہ ہوتے ہیں۔ درویشانہ زندگی گزارتے ہیں۔ پروٹوکول اور جاہ وحشمت سے اُن کا لینا دینا نہیں ہوتا ۔جینوئن لوگوں کے اندر مزاح کی حس بھی غضب کی ہوتی ہے جو میرے استاد میں بھی موجود ہے۔ میری سادگی بھی میرے استاد کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ علامہ اقبال جیسی نابغہ روزگار شخصیت گھر میں ہمیشہ دھوتی ، بنیان اور حقہ کے ساتھ نظر آتی تھی۔جینوئن تکبر سے بھی پاک ہوتاہے۔انہوں نے کہاکہ شاعری دراصل میں نے لالا (پروفیسر منور علی صاحب عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کو لالا کے نام سے پکارتے ہیں)کے لیے کرتاہوں ورنہ شاید میرے شاعری مجموعے کا وجودبھی نہ ہوتا ۔انہوں نے پرانی یادوں کوتازہ کرتے ہوئے کہاکہ دن رات کی پرواہ کئے بغیر کام کرنے میں جو مزہ ہے وہ کسی اور شے میں نہیں ہے ۔خواتین کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ ضلع میانوالی کی خواتین ذہانت و ادب کے لحاظ سے ملک بھرمیں کسی سے کم نہیں ہیں۔ شاعری ادب میں نوجوان شاعرہ سعیدہ صبا نیازی ضلع میانوالی کی خواتین شعراء کے ماتھے کا جھومر ہیں۔اُن کی کتاب وقت ملا تو سوچیں گے پڑھنے کے قابل ہے۔مگر شادی اور معاشرتی حدود نے ایسی شاعرہ سے بھی مواقع چھین لیے۔ اب گھر داری کے ساتھ اُس کی شاعری گھر تک ہی محدود ہوگئی ہے۔ گورنمنٹ کالجزاور سکولز کی زبوں حالی پر پروفیسر منور علی ملک نے کہاکہ دراصل سپرویژن کی کمی ہے۔ عمارت پر کروڑوں روپے لگا دیئے جاتے ہیں مگر سٹاف کی کمی پوری نہیں کی جاتی اور لیکچرار وغیرہ کے انتخاب کا طریقہ بھی غیر معیاری ہے۔ اداروں کے سربراہان کو ادارے سے زیادہ اپنے ذاتی نفع و خسارے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ ذریعہ تعلیم اُردو یا انگریزی کے سوال پر پروفیسر منور علی ملک نے جواب دیاکہ میں ذاتی طور پر کسی زبان کا مخالف نہیں ہوں ۔ بہتر ہے ابتدائی تعلیم بچے کو مادری زبان میں دی جائے مگر پھر سرکاری سکولز میں اُردو اور پرائیویٹ میں انگلش والا آدھا تیتر آدھا بٹیر کاسا معاملہ نہیں ہونا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ اپنی ثقافت اور تہذیب کی بقا اور فروغ کے لیے بھی ہمیں اپنی قومی زبان کی ترویج کے لیے سنجیدہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انگریزی کی اہمیت سے انکار دُنیا میں تنہا رہ جانے کے مترادف ہوگا۔ اس لیے انگریزی سے بھی غفلت نہ برتی جائے۔انہوں نے والدین کے متعلق کہاکہ وہ جیسا اپنے بچے کو دیکھنا چاہتے ہیں ، بچے کے سامنے ویسا بن کے دکھائیں۔ اپنا مثبت امیج ، گُڈ فیس سا منے لائیں۔
پروفیسر صاحب کے والد محمد اکبر علی ملک پاک فوج سے فراغت کے بعد محکمہ تعلیم میں آئے ، وہاں سے بطور اے ڈی آئی ریٹائر ہوئے۔ بعد ازاں نواب آف کالاباغ فیملی کے ٹیوٹر مقرر ہوئے۔سر منور علی ملک کے بڑے بھائی ہیڈماسٹر انور علی ملک مرحوم بھی ماہر تعلیم تھے۔اپنے علاقے داؤدخیل اور گردونواح کے لیے تعلیمی میدان میں اُن کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ انیس سو چھیاسی ستاسی میں میانوالی کے مقام پر ہائی ایس تھل کینال میں گرنے سے چند دیگر افراد کے ساتھ جاں بحق ہوگئے تھے۔ ایک بھائی سردار علی ملک بھی ٹیچر تھے جو وفات پاچکے ہیں۔چھوٹے بھائی مظفر علی ملک کچھ عرصہ قبل ٹیچر ریٹائر ہوئے ہیں۔ پروفیسر منور علی ملک کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ایک بیٹااکرم علی ملک ایم اے او کالج لاہور میں انگلش کے پروفیسر،دوسرے امجدعلی ملک پی اے ایف کالج میانوالی میں لیکچرار، تیسرے مظہر علی ملک میڈیا میں علی عمران اعوان کے نام سے کام کررہے ہیں جبکہ چھوٹے بیٹے ارشد علی ملک نے داؤدخیل میں اپنا آبائی گھر بسارکھاہے۔ بیٹی طاہرہ ملک بھی درس و تدریس سے وابسطہ ہے۔
سر منور علی ملک پروفیسر مقرر ہونے سے پہلے داؤدخیل کے قریب قصبہ ٹھٹھی شریف کے ایک سکول میں بطورِ ہیڈماسٹر بھی فرائض سر انجام دیتے رہے۔ ایک عشرہ سے زیادہ ہوا اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔کبھی لاہور تو کبھی داؤدخیل اُڑان بھرتے رہتے ہیں۔ مستقل مسکن محلہ کوثر آباد میانوالی شہر میں ہے۔ جہاں وہ علم و ادب کا شہر بسائے سادگی سے اپنا تجربہ نئی نسل میں منتقل کرکے سکون حاصل کررہے ہیں۔
جاتے جاتے پروفیسر صاحب اپنا تازہ بہ تازہ ایک شعر آٹو گراف کی صورت عنایت کرگئے۔ آپ بھی ملاحظہ فرما لیں۔
خیر ہو دِلِ ناداں اب یہ غم بھی سہنا ہے
اُس سے بھی نہیں ملنا، شہر میں بھی رہنا ہے
Leave a Reply