دل سے ملاقات

Print Friendly, PDF & Email

انتخاب: ثبات گل، فیصل آباد

بابا جی (اشفاق احمد) زاویہ میں لکھتے ہیں کہ ”قدم ایک اٹھانا ہے پھر رکھنا ہے اس کے بعد تمہیں نیا قدم ملتا جائے گا لیکن اس ایک قدم اٹھانے کی شرط یہ ہے کہ تمہیں دیکھنا پڑے گا کہ جو کام کرنے لگو اس کے اندر دل بھی ہے کہ نہیں۔ کام ایک وجود والی چیز ہے اور ہر وجود کا ایک دل بھی ہوتا ہے۔” زاویہ کی یہ دو سطریں ہماری سوچ کے زاویے کو ایک نئی سمت دیتی ہیں ہم اپنے گرد و نواح میں دیکھیں تو

ایسے وجود نظر آئیں گے جن میں دل نہیں ہے وہ کسی مجبوری یا کسی کی خوشنودی کی خاطر بس چل رہے ہیں۔یہاں پر ایک طالب علم کی مثال لیتے ہیں کہ اگر اسے ایسے مضامین پڑھنے پر مجبور کیا جائے جن میں اس کو قطعی دلچسپی نہ ہو لیکن وہ والدین کی خوشنودی کی خاطر دل مار کر پڑھے اور نتیجہ بھی اچھا آجائے تو اپنی من پسند کامیابی ملنے پر آنکھوں میں جو چمک ہوتی وہ چمک اس کی آنکھوں میں دیکھنے کو نہیں ملے گی۔
منزل کی جانب چلنے کے لیے پہلا قدم اٹھانا ہی مشکل ہوتا ہے لیکن پہلا قدم اٹھانے کی شرط ہی دل کی طمانیت ہے۔جب دل کی طمانیت میسر ہو گی تو پُر خار راہ بھی منزل کے حصول میں رکاوٹ نہیں بنتی اسکے برعکس ایسا کام جس کو کر کے آپ کے دل اور روح کو وہ خوشی اور آسودگی نہیں ملی تو پھر اس کام کو چھوڑ دینا چاہیے۔ہر وجود کی موجودگی کا سبب دل ہے بغیر دل کے وجود کی کوئی وقعت نہیں۔یاد رکھیں آپ کا دل آپ کو اچھی طرح جانتا ہے ہمیشہ دل کی سنیں آخری فیصلہ ہمیشہ دل سے لیں۔بلاشبہ رکاوٹیں، الجھنیں، پریشانیاں،اپنوں کی ناراضی کا سامنا ہو گا لیکن برداشت کرنا ہو گا۔کوئی بھی نیا قدم اٹھانے سے پہلے خود سے ملاقات کیجیے پر سکون ہو کر سوچیں کہ جس کام کے آغاز کے لیے قدم اٹھانے جا رہے ہیں کیا آپ اس کے وجود کو دل دے سکیں گے؟ کیا آپ کی روح کو آسودگی ملے گی؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو یقیناً وہ کام آپ کے لیے ہے تو اچھے گمان اور ایک عزم کے ساتھ قدم اٹھائیں اور سفر شروع کریں منزل آپ کی منتظر ہے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔

Short URL: https://tinyurl.com/28dbs8mc
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *