عروج۔۔۔۔ تحریر : ملک محمد شہباز، قصور

Malik Muhammad Shahbaz
Print Friendly, PDF & Email

لفظی مطلب بلندی ہے معنی و مفہوم کے لحاز سے عروج سے مراد کسی بھی شعبہ زندگی میں اعلیٰ مقام و مرتبہ حاصل کر لینا ہے ، ہر وہ شخص اپنے آپ کو عروج پہ سمجھتا ہے جس کو کوئی بہت زیادہ دولت و عزت ، مقام و مرتبہ، شان و شوکت، اور اچھابزنس مل جائے حالانکہ حقیقت بالکل برعکس ہے۔ کوئی اپنے آپ کو اپنی اچھی جاب کی وجہ سے عروج پر سمجھتا ہے توکوئی وزارت و حکومت میں کوئی عہدہ مل جانے پر،کوئی اپنی کاریگری و فن کی وجہ سے خود کو عروج پر سمجھتا ہے توکوئی اپنے اچھے بزنس کی وجہ سے، کوئی شخص اپنے آپ کو عیاشی و بدماشی کی وجہ سے عروج پر سمجھتا ہے تو کوئی لوگوں کی طرف سے ملنے والی خوشامد کی وجہ سے اپنے آپ کو عروجِ کامل پر سمجھتا ہے۔اور صرف یہی نہیں بلکہ ہر اعلیٰ و ادنیٰ، چھوٹا وبڑا، ملکی و غیر ملکی، ہنرمند و بیکار، مصروف و فضول، امام و مقتددی، دوست و دشمن ، اپنا و بیگانہ، عالم و جاہل، مقررو سامعین،کی بھر پور کوشش اور لگن یہی ہے کہ وہ بھی عروج پر پہنچیں مگر سب کا انداز، خیال،سوچ الگ الگ ہے۔
آج کے گئے گرے دور میں اپنے آپ کو عروج کامل کے مالک سمجھنے والے اقتدار کے مالکوں کی بات اگر کی جائے تو ہر بحث روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائیگی۔ایک آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ گزشتہ روزلاہور کی ایک سڑک کے کنارے ایک خوبصورت ، تند رست وتوانا، صاحب عقل و دانش، نوجوان سے ملاقات کا شرف ملا۔دیکھتا کیا ہوں کہ یہ خوبصورت نوجوان لڈو پیٹھیاں اور نان پکوڑے کی ریڑھی لگائے افسردہ سا ، خاموش سا، چہرہ لٹکائے کھڑا ہے۔السلام علیکم ، وعلیکم السلام اور تعارف کے بعد باتوں باتوں میں بات یہاں آپہنچی کے ملک شہباز بھائی آج کل کیا کر رہے ہیں؟
اس سوال کاجواب دینے کے بعد میرا بھی حق بنتا تھاکہ میں بھی گفت و شنید کو تھوڑا آگے بڑھاؤں۔! لہذا میں نے بھی بھی پوچھ ہی لیا کہ جناب اس کام سے پہلے کیا کرتے تھے؟ بس میرا یہ سوال کرنا تھا کہ اس کی آنکھوں میں جیسے سمندر امڈ آیا ہو۔میں نے پوچھا کہ جناب میں نے کوئی غلط سوال تو نہیں پوچھ لیاتو کہنے لگا نہیں نہیں آپ نے کچھ غلط نہیں پوچھا بس ماضی کی کچھ یاد یں تازہ ہو گئیں تو بس معمولی سے آنسو آگئے۔
کہنے لگا 2007 میں بی ۔اے مکمل کر لیا تھااس کے بعد آگے پڑھنے کی خواہش تو بہت تھی مگر پیسے نہیں تھے، دل تو بہت کرتا تھا کہ تعلیم کے عروج پر پہنچوں مگر اتنی استطاعت نہیں تھی ۔سوچا یہ تھا کہ چلو کوئی جاب تلاش کر لیتا ہوں پھر جاب کے ساتھ ساتھ زیور تعلیم سے بھی آراستہ ہوتا رہوں گامگر کیا بتاؤں
NTS ، PPSC، FPSC
، وغیرہ کی لوٹ مار کا شکار ہوتا ہوتا آخر کار ایک پرائیویٹ فیکٹری میں سر چھپانے کا موقع ملا جہاں بی ۔اے تو دور بلکہ ایم ۔اے پاس نوجوان بھی اسی عہدے و منصب پر کام کر رہے تھے جہاں بلکل ان پڑھ اور جاہل کام کر رہے تھے۔اس صورتِ حال کو دیکھ کر میرے دل میں موجود عروج پر پہنچنے کی ساری کی ساری خواہشیں دل کے اندر ہی دفن ہوگئیں۔اور میری ساری امیدیں دم توڑ گئیں اس کے بعد کچھ عرصہ مزید سرکاری بھرتیوں کے اشتہارات کو دیکھ کر اپنی درخواست تو بھیجتا رہا مگر میرے پاس نہ ہی اتنے پیسے تھے اور نہ ہی اتنی بڑی سفارش تھی کہ مجھے کوئی سرکاری جاب مل پاتی اور ایسا ہی ہوا کہ آج تک نہیں ملی۔ بس اسی وقت سے ایک اصول کو ذہن میں رکھ کر محنت مزوری کر رہا ہوں کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ اسی اصول کو مد نظر رکھ کر سات ، آٹھ سال سے رات کو فیکٹری میں اور دن کو کچھ وقت کے لیے یہ نان پکوڑے بنا کراپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کا سبب بن رہا ہوں اور آج یہ ہی میرا زوال ہے اور یہ ہی میرا عروج ہے۔
ہمارے حلقہ اقتدار ، عہدیداران حکومت ، عروج کامل اوراعلیٰ عہدوں پر فائز افرادکو شاید ان چیزوں کی کوئی خبر بھی نہ ہو اور اگر خبر ہو بھی تو ہوسکتا ہے کوئی دلچسپی ہی نہ ہو ؟ ان کو کیا معلوم کہ کتنے بی۔اے ، ایم۔اے
کس طرح زندگی گزار رہے ہیں؟ ان حضرات کو کیا علم کہ کتنے ہیرے ایم۔اے پاس تندوروں پر روٹیاں پکا رہے ہیں؟ ان کو کیا خبر کتنے معصوم بھوکے مر رہے ہوتے ہیں ؟ شاید ان کو ان تمام حالات و واقعات کی خبر ہوتی اگر ان کے اپنے بچے تعلیم حاصل کرنے امریکہ، بطانیہ،یورپ نہ جاتے بلکہ ادھر ہی ذلیل ہوتے۔ایئر کنڈیشنر میں زندگی گزارنے والوں کو لوڈشیدنگ کے بارے میں کیا خبر؟ گنتی میں نہ آنے والی دولت کے مالک کو کیا احساس ہوگا کہ بھوک کی وجہ سے کتنے افراد زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔یہ ملک تو اسلام کے نام پر بنا تھا مگر یہاں پردہ کرنے والی لڑکی کو کالج میں داخلہ نہیں ملتا مگر کیوں؟ جس کو داڑھی والا انسان دیکھ کر پتھر کا زمانہ یاد آجائے اس کی تشہیر کے لیے تو سارے باپ بیٹے اکٹھے ہو جاتے ہیں مگر کیوں؟کیا یہی اسلام کی تعلیمات ہیں جس اسلام کی خاطر اتنا خون بہا کر یہ ملک پاکستان حاصل کیا تھا؟
خون کی ندیاں بہا کر ، اتنی جانیں گنوا کر، اپنا سب کچھ لٹا کر کیاملا؟ پاکستان کا مطلب کیا ؟ اس نعرے کے بدلے ہمارا میڈیا ہمیں کیا سکھا رہا ہے کہ معصوم بچے خودکشیاں کر رہے ہیں؟ لاالہ الا اللہ کے نام پہ حاصل کیے جانے والے ملک میں گدھے، گھوڑے، کتے، یہاں تک کہ خنزیر(سور)کا گوشت فروخت ہو رہا ہے۔آفریں ہیں ایسی مسلمانی اور ایسی انسانیت پر کہ مسلمانی کے دعوے تو اتنے عروج پر ہیں کہ آسمان کی بلندیاں بھی کم پڑ جاتی ہیں مگر کہنے اور کرنے میں مسلمانی الگ الگ ہے کیا؟ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کون کون سا رونا رویا جائے، کیا کریں ، کیا کریں ، یا بولیں، کیا لکھیں، سب کچھ سمجھ سے بالا تر ہو چکا ہے۔آج مردہ جانور کو بے حس ہو اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو کھلایا جا رہا ہے، مسلمان ہی مسلمان کو لوٹ رہا ہے، مسلمان ہی مسلمان کو مار رہا ہے،مسلمان ہی مسلمان کا جانی دشمن بن چکا ہے، آگ لگے ایسے عروج کو جو اپنے ہی مسلمانوں کو نقصان پہنچا کر حاصل ہو، آگ لگے ایسے عروج کو جس کی وجہ سے ایک مسلمان کے شر سے دوسرا مسلمان محفوظ ہی نہ ہو، آگ لگے ایسے عروج کو جس کی خاطر اپنے بھائیوں کا خون بہایا جائے، آگ لگے ایسے عروج کو جس کو حاصل کرنے کے لیے سینکڑوں معصوم طلباء کو جلادیا جائے ، دھماکے سے اڑا دیا جائے، آگ لگے ایسے عروج کو جس میں کسی کو کسی کا احساس نہ ہو۔
اصل عروج تو وہ تھا کہ میرے اور آپ کے آقا ﷺ نے فرمایا تھا کہ مہمان کو لے جاؤ اس کو کھنا کھلاؤ تو آپ ﷺ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے صحابی رسول اور اس کی بیوی محترمہ خود بھوکے رہے مگر مہمان کی مہمان نوازی میں کسر نہ چھوڑی، اصل عروج تو وہ ہی تھاجب مسلل تین دن حضرت علیؓ روزہ پانی سے سحرو افطار کرتے رہے مگر سائل کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا، اصل عروج تو وہی تھا جب آپ ﷺ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے حضرت عثمان غنیؓ نے بحر رومہ کو خرید کر وقف کر دیا، وہی تو اصل عروج تھا جب صحابہ کرامؓ کی جماعت نے اپنا تن، من، دھن آپ ﷺ کے ایک اشارے پر قربان کرنے سے ذرا بھی دریغ نہ کیا۔یہ بھی تو عروج ہی ہے کہ جب عہدہ خلافت کو سنبھالنے کے بعد حضرت عمر ؓ جنگل کی طرف جاتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک چھوٹا سا خیمہ نما گھر نظر آتا ہے تو حضرت عمرؓ اس جانب جاتے ہیں تو وہاں ایک بوڑھی اور نابینا اماں جان نظر آتی ہیں۔ حضرت عمرؓ السلام علیکم کے بعد فرماتے ہیں اماں جان تمہارا کیا حال ہے ؟؟؟ اماں کہتی ہے کہ ابوبکرؓ فوت ہوگئے؟ حضرت عمرؓ حیران ہوگئے کہ اس بوڑھی اماں جان کو کیسے معلوم ہوا کہ ابوبکر صدیقؓ کی وفات ہو گئی ہے ؟ تیرے پاس کوئی بتانے آیا تھایا کوئی اطلاع ملی؟ تو اماں کہنتی ہے کہ مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی نہ ہی کوئی قاصد آیا ہے بلکہ میں نے تو اندازہ لگایا ہے کہ پہلے ہر روز صبح و شام حضرت ابوبکر صدیقؓ میرا پانی کا مشکیزہ بھر کے رکھ جاتا تھا اور مجھے کھانا کھلاجاتا تھا لیکن اب تین دن سے میں بھوکی پیاسی ہوں تو مجھے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ جیسے حضرت ابوبکر صدیقؓ فوت ہوگئے۔ اماں جان کی یہ باتیں سن کر حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں سمندر امڈ آیا کہ واہ سبحان اللہ کیا شان و عظمت ہے ابوبکر صدیق ؓ کی کہ میں اس قدر عروج پر کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ شاعر نے کیا خوب ترجمانی کی ہے کہ

فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

شاعر تو یہاں یہ کہتا ہے کہ انسان بننے میں اور انسانیت پر قائم ہونے میں بڑی محنت لگتی ہے مگر آجکل لوگ کچھ الٹی ہی سمت میں جا رہے ہیں۔کوئی محنت کرتا ہے تو کرپشن کی خاطر، دولت لوٹنے کی خاطر، اور کوئی محنت کرتا ہے کسی دوسرے کو نیچا دکھا کر اس کی جگہ اس کے منصب عروج پر خود قابض ہونے کے لیے، مگر کوئی بھی انسان بننے کی خاطر یا انسانیت پر قائم رہنے کی خاطر، یا عملی زندگی میں جذبہ انسانیت اپنانے کی خاطر کوئی محنت نہیں کرتا۔اور نہ ہی ایسے انسان کی کوئی قدر ہے جو انسان انسانیت کے جذبہ سے سرشار ہو اس کو لوگ جاہل سمجھتے ہیں، پردہ کرنے والی اسلامی لڑکیوں کو کالجوں میں داخلہ نہیں ملتا مگر ماڈلنگ کرنے والیوں سے یونیورسٹیوں میں لیکچر دلائے جاتے ہیں۔اور تو اور ہمارے اس ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے اپنے جائز کام کے لیے بھی انسان عدالتوں کے چکر لگا لگا کر تھک جاتا ہے مگر مسئلہ حل نہیں ہوتا جبکہ اس کے برعکس ظالم شخص پیسے اور پاور کی بناء پر گھر بیٹھے اگلی تاریخ لے لیتا ہے۔ اگر بجلی کا بل زیادہ آجائے تو واپڈا کے دفتر جاؤ تو ان کا پہلا بیان یہی ہوگا کہ یہ بل تو آپ کو جمع کروانا ہی پڑے گا ۔بعد میں ایڈجسٹ ہوجائے گا جو کہ نہیں ہوتا اور آخر کار غریب چکر لگا لگا کر تھک جاتا ہے ۔کریں تو کیا کریں ؟ جائیں تو کہاں جائیں؟ ہر محکمہ کرپشن سے بھرا پڑا ہے۔دونمبری عام ہو چکی ہے۔اگر کسی بھائی دوست کی موٹرسائیکل چوری ہوجائے تو پولیس کملین کروانے جائے تو وہاں بھی دونمبری۔ذکر کرتا جاؤں کہ میرے ابو کے اک دوست اور میرے انکل کے گھر ڈاکہ پڑ گیا ، ڈاکو روپے ، پیسے، زیور کے ساتھ ساتھ موٹرسائیکل بھی لے گئے ۔موٹرسائیکل کی حالت کے مطابق کوئی 20ہزار قیمت بنتی ہو گی۔ڈاکوؤں نے اسی رات اسی موٹر سائیکل پر جا کر کسی دوسری جگہ بھی ڈاکہ مارااور موٹرسائیکل واہاں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔دو دن بعد وہ موٹر سائیکل ضع قصور کے ایک تھانے میں پہنچ گئی تھی مگر میرے انکل کو پورے دو مہینے بعد بالکل کباڑ حالت میں لاہور سے کوئی بیس (20)چکر لگانے کے بعد ملی اس وقت تک انکل اپنے دوستوں ،، رشتہ داروں سے چودہ سے سولہ ہزار ادھار لے کر لگا چکے تھے اور جب موٹر سائیکل ملی تو اس کی حالت ایسی تھی کہ کسی قابل بھی نہیں۔اور اس وقت پانچ سے چھ ہزار کی رہ گئی تھی۔اس کیس سے اہل دانش بخوبہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے محکمے کس قدر کرپشن سے پاک ہیں۔ان محکموں کی کرپشن دور کرنا تو ہم غریبوں کے بس میں نہیں لیکن کم سے کم ہم اس چیز کا رونا تو رو سکتے ہیں ، دہائی تو دے سکتے ہیں اور خدائے عظیم وکریم کے سامنے ہاتھ اٹھا کر رو رو کر اور گڑگڑا کر دُعا تو کر سکتے ہیں کہ اے بزرگی والے رب ذوالجلال،اے پروردگارِ عالم، اے خالقِ کائنات ہمارے تمام محکموں کو پاک فرما دے اور ان تمام اہلکاروں کو ہدائیت فرما۔اگر ان کی قسمت میں ہدائیت نہیں تو اے پروردگار ہرمحکمے میں ہمیں نیک اور ایماندار افسران عطا فرما دے۔آمین ثم آمین۔

Short URL: http://tinyurl.com/hmwso6c
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *