ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

Rana Ijaz Hussain Chohan
Print Friendly, PDF & Email

تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان 
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے دور میں غریب محنت کش کے لئے رزق حلال کے دو لقمے کمانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ محنت مزدوری کے دوران محنت کش کو جس سفاکانہ روئیے کا سامنا کرنا پڑتاہے وہ ناقابل بیان ہے۔ محنت کشوں کا ایک طبقہ تعمیراتی کاموں، کھیتوں کھلیانوں، ورکشاپوں اور دیگر مقامات پر مشقت کرتاہے جہاں مالکان کی جانب سے ان کے حقوق و سلامتی سے متعلق خیال تو درکنار،بلکہ ان کا بری طرح استحصال کیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ سرکاری یا پرائیوٹ اداروں، کاروباری مراکز،کارخانوں میں ملازمت کرتا ہے ، سرکاری ادروں کی صورتحال توکچھ بہتر ہے مگر پرائیوٹ کمپنیوں اور اداروں میں کام کرنے والے ملازمین اکثر پریشان حال نظر آتے ہیں، جہاں ان سے آٹھ گھنٹے کی بجائے بارہ پندرہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے، جبکہ تنخواہ اس قدر کم دی جاتی ہے کہ ضروریات زندگی کیلئے ناکافی ر ہے، اور وہ بھی وقت پر نہیں دی جاتی۔ اورکچھ کمپنیاں تو دو چار ماہ کے بعد تنخواہ دینا بند کردیتی ہیں جس پر مجبوری میں ملازم بغیر تنخواہ لئے کمپنی چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اور وہ لیبر کورٹ میں بھی اپنے مقدمہ لیکر بھی نہیں جاسکتا ہے کیوں کہ اس کے پاس وہاں کام کرنے کا کوئی پروف اور ثبوت نہیں ہوتا۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان عظیم ہے کہ مزدور کی اجرت ا س کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکردی جائے‘‘۔ معاوضے کا نہ ملنا بھی کوئی اتنی بڑی بات نہیں بلکہ دل دھلانے والی بات تو یہ ہے کہ بعض اوقات غریب مزدور کی عزت نفس بھی اپنے مالکان کی غیر انسانی سلوک کی وجہ سے اتنی مجروح ہوتی ہے کہ وہ ایسی ذلت کی زندگی پر موت کو مقدم جانتے ہیں۔ 
پاکستان سمیت دنیا بھر کے اسی سے زائد ممالک میں ہر سال یکم مئی کا دن محنت کشوں سے اظہار یکجہتی کے لئے مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر اس عہد کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ مزدوروں کے معاشی حالات تبدیل کرنے کیلئے کوششیں تیز کی جائیں گی اور ان کا استحصال بند کیا جائے گا، جبکہ امریکہ اور کینڈا میں مزدوروں کادن ستمبر میں منایا جاتا ہے۔ یکم مئی 1886ء کو امریکا کے شہر شکاگو کے مزدور، سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کی جانب سے کئے جانے والے استحصال کے خلاف سڑکوں پر نکلے تو پولیس نے اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے والے پرامن جلوس پر فائرنگ کر کے سینکڑوں مزدوروں کو ہلاک اور زخمی کردیا جبکہ درجنوں کو حق کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں تختہ دار پر لٹکا دیا، لیکن یہ تحریک ختم ہونے کے بجائے دنیا بھر میں پھیلتی چلی گئی جو آج بھی جاری ہے۔ اس دن کی مناسبت سے ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں تقریبات، سیمینار، کانفرنسز اور ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں شکاگو کے محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی،ملک کے مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کو تیز کرنے، مہنگائی وبے روزگاری کے خاتمے، قومی اداروں کی نجکاری کے خاتمے، مزدور دشمن قوانین کی منسوخی، ٹھیکیداری نظام کے خاتمے، تنخواہوں و اجرت میں اضافے سمیت مزدوروں، محنت کشوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے عملی اقدامات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں قومی سطح پر یوم مئی منانے کا آغاز 1973 ء میں وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ہوا، ذوالفقار علی بھٹو نے مزدوروں کے حقوق کیلئے انقلابی لیبر پالیسی نافذ کی جس کے مطابق مزدوروں کو روزگار کا تحفظ دیا گیا او ر انہیں روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ ان کے دور حکومت سے یکم مئی کو سرکاری تعطیل قرار دیاگیا، اس دن تمام سرکاری و غیر سرکا ری ادارے اور بنک بند رہتے ہیں۔ 
بے شک محنت کش اللہ تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدور کے حقوق پر بہت زور دیا۔ ایک بار ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اسکے ہاتھ کھردرے اور سخت تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھا کہ محنت اور مشقت کرتے ہو اس شخص نے بتایا کہ پہاڑوں کی چٹانیں کاٹ کر روزی کماتا ہوں، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس محنت کش کے ہاتھ چوم لیے۔ یکم مئی کے دن دنیا بھر کا دانشور طبقہ مزدوروں کے مسائل حل کرنے کیلئے بڑے بڑے جلسے کا انعقاد کرتا ہے، لیکن افسوس کہ ان مزدوروں کو اس کی خبر ہی نہیں ہو تی، اور تقریبا 99 فیصد مزدور اس بات سے بالکل ناواقف رہتے ہیں کہ سال میں ایک دن ایسا بھی آتاہے جو ان کیلئے خاص ہے، ان کیلئے خوشیاں منانے کا موقع ہے، چھٹیاں کرکے بال بچوں کے ساتھ گزارناہے جسے دنیا بھر میں ’’ مزدوروں کے عالمی دن ‘‘ کے طور پر منایا جاتاہے، لیکن ایک عام مزدور جو صبح چوک پر اپنی مزدوری کا انتظار کرتا ہے، صبح مزدوری کرتا ہے تو رات کو اس کا چولہا جلتا ہے، کسی بھی سرکاری یا پرائیوٹ چھٹی کے ساتھ ہی اس کے گھر میں فاقے کی آمد ہوتی ہے، آج یوم مزدور بھی اس کے لئے محض فاقہ کا ہی دن ہوتاہے۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے مزدوروں کی مجبوری کو ان اشعار میں خوب بیان کیا ہے۔
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت ۔۔۔ احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
تو قادر وعادل ہے مگر تیرے جہاں میں ۔۔۔ ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ پاکستان مزدوروں کی خوشحالی کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا‘‘۔ حکومت کو چاہئے کہ مزدور وں کے حالات میں بہتری کے لئے اقدامات اور ان کی اجرت و تنخواہوں میں مناسب اضافے کا اعلان کرے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں مزدور تحریک ہمیشہ کمزور رہی ہے ، مزدور رہنماؤں کی جانب سے مزدور تحریک کو منظم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مزدور رہنماؤں کو قومی سطح پر ایک مضبوط فیڈریشن قائم کرنے کیلئے جدوجہد کرنا چاہئے، تاکہ ان کے مسائل حل ہوسکیں اور ان کا استحصال ختم ہوسکے ۔ بلاشبہ مزدور ایک ایسی طاقت اور قوت ہیں کہ اگر متحد اور منظم ہوجائیں تو کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

Short URL: http://tinyurl.com/y8y3jq3v
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *