ہندوستان میں بقاء اسلام کی تحریک۔۔۔۔ تحریر: حافط محمد احمد رضا

Print Friendly, PDF & Email

مسلم قوم کے کسی بھی فرد کی جانب سے دو قومی نظریہ کی مخالفت نہ صرف افسوس ناک ہے بلکہ حیرت افزا بھی ہے۔قرآن کریم جیسی زندہ کتاب کی حامل قوم یہ کیسے باور کر سکتی ہے کہ کفر اور اسلام ایک ہی چیز ہے۔اس نظریہ کی بنیا د تو اس وقتہی پڑ گئی تھی جب ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیاتھا۔اس جرم کی پاداش میں وہ راندۂ درگاہ ٹھہرا۔قرآن کریم کی سینکڑوں آیات اور رسول اللہ ﷺ کی ان گنت احادیث اسلام اور کفر کے درمیان واضح فرق پر ثبوت ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے جس قوم کی بنیاد رکھی اس میں صرف عرب نہیں تھے بلکہ فارسی، یمنی اور دیگر علاقوں کے افراد بھی شامل تھے جو سب کے سب ملت اسلامیہ کے فرد کہلائے۔یعنی اسلام نیقومیت کی تقسیم رنگ، نسل، زبان اور وطن کی غیر فطری حدود سے ماوراء ہو کر ایمانپر رکھی۔اس موضوع پر عصر حاضر کے مشہور مفسر اور سیرت نگارپیر محمد کرم شاہ الازہر ی سورۃ الانفال آیت نمبر 82 کے تحت لکھتے ہیں: قرآن کریم نے انسانی معاشرہ کو نسل، زبان، دولت اور منصب کی بنیادوں پر تقسیم نہیں کیا بلکہ معاشرہ کی تقسیم کا دارومدار ایمان اور کفر پرہے۔مومنین بلاامتیاز نسل، زبان،ملک ایک طبقہ ہیں اور کفار اسی طرح ایک الگ طبقہ ہیں۔یہی انسانی معاشرہ کی صحیح تقسیم ہے جسے عقل تسلیم کرتی ہے۔(تفسیرضیاء القرآن )اسلام کا یہ دو قومی نظریہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔یہی نظریہ پاکستان کی اساس (بنیاد) ہے۔ہندوستان میں جب مسلمانوں نے اپنا سیاسی تسلط قائم کر لیاتو اسلام کی نشرواشاعت کیلئے مختلف علاقوں سے صوفیاء تشریف لائے۔اگرچہ وہ مختلف علاقوں سے برصغیر میں آئے تھے مگر ان کی پہچان صرف ایک مسلمان مبلغ کی حیثیت سے تھی۔مثلاً لاہور میں بخارا سے حدیث اور تفسیر کے بہت بڑے عالم شیخ محمد اسماعیل بخاری ،افغانستان کے علاقوں سے حسین زنجانی اورحضرت سید علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ المعروف داتا گنج بخش تشریف لائے۔حضرت سید علی ہجویری کی مساعی جمیلہ اور دعوت وتبلیغ کی بدولت لاہورکے گورنر رائے راجو سمیت بہت سے غیر مسلم اسلام کی دولت سے مالامال ہوئے۔اسی طرح خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ ،حضور ﷺ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے 586ء میں جب ہندوستان آئے تو لاہور حضرت سید علی ہجویری کے مزار پر 40دن چلہ کشی کی اور فیض حاصل کیا۔پھر آپ نے ہندوستان میں دعوت و تبلیغ کرنے کی غرض سے سنسکرت زبان سیکھی ۔اس کے بعد تبلیغ دین کے لئے آپ نے’’ اجمیر ‘‘کا انتخاب فرمایاجہاں آپ کی تبلیغ سے لاکھوں افراداسلام میں داخل ہوئے۔ انگریز مصنف آرنلڈ نے
Preaching of Islam
میں لکھا کہ آپ کی دعوت سے 90لاکھ غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا۔
ہندوستان کی تاریخ میں مغلیہ عہد سلطنت کا کرداربہت اہم ہے ۔تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مغلیہ سلطنت کو وسعت دینے اور طاقتور کرنے میں سب سے اہم کردار جلال الدین محمد اکبر کا ہے۔جس نے سلطنت کو مضبوط کرنے کے لئے نظام حکومت میں بہت سی قابل قدر اصطلاحات کیں اور ہندوؤں سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے ہندو مہارانیوں سے شادیاں کیں۔اگرچہ مغلیہ سلطنت کا یہ دور سیاسی وعسکری لحاظ سے سب سے طاقتور دور شمار کیا جاتا ہے لیکن جب اکبر نے شعائر اسلام کا مذاق اڑایااور ’’دین اکبری‘‘ کے نام سے ایک ملغوبہ تیارکیاجس میں ہندوؤں کی تعلیمات کواسلام میں ملانے کی کوشش کی گئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے برصغیر میں اسلام کی سربلندی اور اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے سلسلہ نقشبندیہ کے عظیم بزرگ حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو شرف بخشا۔آپ نے جرأت و بے باکی سے حاکم وقت کے سامنے کلمہ حق بلند فرمایا۔آپ کے پیش نظر بھی اسلام اور کفر کا فرق یعنی دو قومی نظریہ ہی تھا جس کی بنا پر آپ نے بادشاہ کے دربار میں حق اور سچ کی صدا بلند کی۔ اگرچہ آپ کو قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں مگر فتح حق کی ہی ہوئی اوراکبر کے بیٹے بادشاہ جہانگیر نے آپ کے دست حق پرست پر توبہ و بیعت کر لی۔علامہ محمد اقبال نے آپ کو خراج عقیدت پیش فرماتے ہوئے کہا:۔

حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
اس خاک کے ذروں سے شرمندہ ہیں ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے گرمئی احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

یہ کفر و اسلام کا فرق ہی تھا جس کی بنا پر شاہ ولی اللہ نے اسلام دشمن مرہٹوں کی طاقت کو کچلنے کے لئے احمد شاہ ابدالی کو خطوط لکھے اور اس نے پانی پت کی تیسری جنگ1761ء میں مرہٹوں کو شکست دی۔اوریہ دو مختلف قومیت کا فرق ہی تھا جس کی بدولت ہزار سال تک ہندوستان میں رہنے کے باوجود مسلمانوں کی انفرادیت برقراررہی۔ ورنہ ہندوستان میں اس سے پہلے بھی بہت سی قومیں فاتح کی حیثیت سے آئیں، جن کی حکومتیں بھی قائم ہوئیں مگریہاں کے رسم ورواج اور طرز بودوباش کا حصہ بن کر اپنی انفرادیت کھو گئیں۔گویا اس تحریک کو جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا’’تحریک پاکستا ن‘‘ کہنے کی بجائے ’’ہندوستان میں بقاء اسلام کی تحریک‘‘ کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔
مغلیہ سلطنت کے خاتمے اور آخری مغل فرمانروابہادر شاہ ظفر کی گرفتاری کے بعد 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ہندو اپنی عیاری سے انگریزوں کے دل میں اپنے متعلق نرم گوشہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے اور مسلمانوں پرہندوستان میں ترقی کے تمام دروازے بند کر دیے گئے۔اگرچہ مسلمان حکمرانوں نے اپنے دور اقتدار میں غیر مسلموں کے ساتھ رواداری کا سلوک کیا تھا مگرحکومت اور طاقت چلے جانے کے بعد مسلمانان ہند کو اس کے برعکس رویہ دیکھنے کو ملا۔ اس موقع پرہندوؤں نے بڑھ چڑھ کرمسلمانوں کا معاشی استحصال کیا، مذہبی معاملات میں مداخلت کی اور ان کی زبان، ثقافت اور تہذیب کو مٹانے کے لئے اپنے تئیں تمام جتن کرڈالے۔حتیٰ کہ 1906ء میں مسلمانوں نے ارباب اختیار تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے ’’آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ کی بنیاد رکھی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تمام مسلمانوں کی نمائندہ جماعت بن گئی۔کانگریس نے ہمیشہ مسلمانوں کو مسلم لیگ سے بد گماں کرنے کے لئے سبز باغ دکھائے اورمختلف فتنے پھیلائے جن سے متاثر ہو کر کچھ مسلمان کانگریس کا حصہ بھی بن گئے۔لیکن جلد ہی ہندوؤں کی اصلیت جاننے کے بعد مسلم لیگ میں آگئے۔ قائد اعظم کا شمار بھی ایسے ہی مسلم لیڈرز میں ہوتا ہے جو پہلے متحدہ ہندوستان اور ہندو مسلم اتحاد کے لئے کوششیں کرتے رہے لیکن کانگریس کی دو رنگی دیکھنے کے بعد بالآخر انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔کانگریس نے ہمیشہ دو قومی نظریہ کی مخالفت کی اور مسلمانوں کو اس سے بیزار کرنے کے لئے طرح طرح کے ڈرامے رچائے ۔لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ یہ سب کچھ مسلمانوں کی توجہ ان کے مقصد سے ہٹانے کے لئے تھا۔ ایسے نازک موقع پر جب عالمی سطح پر سلطنت عثمانیہ کو کمزور کرنے کے لئے ’’لارنس آف عریبیہ ‘‘ اور دیگر کئی کردار مصروف عمل تھے اور عربوں میں لسانیت کا بیج بویا جارہا تھا، ہندوستان کے کچھ علماء بھی ’’ملت از وطن است‘‘ کے فریب کا شکار ہوئے لیکن علامہ محمد اقبال نے انہیں ملت کا حقیقی مفہوم سمجھانے کے لئے کہا:۔

عجم ہنوز نہ داند رموز دیں ورنہ
زدیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی است
سرود بر سر منبرکہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقام محمد عربی است
بمصطفےٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ اونہ رسیدی تمام بولہبی است

(عجم ابھی تک رموز دین سے آگاہنہیں ہو سکا، ورنہ دیوبند سیحسین احمد مدنی یہ عجیب بات نہ کرتے۔اس نے بر سر منبر، ’’ملت وطن سے ہے‘‘کا راگ الاپا،یہ شخص مقام محمد عربی ﷺ سے کس قدر بے خبر ہے۔اپنے آپ کو مصطفی ﷺ کی بارگاہ تک پہنچاؤ کیونکہ سارے کا سارا دین آپ ہی ہیں ، اگر تو ان تک نہ پہنچ سکاتو سب کچھ بو لہبی ہے۔)
آخر میں نظریہ پاکستان سے متعلق کچھ شبہات کا ازالہ کرنا ضروری ہے۔نظریہ پاکستان کے مخالفین کی جانب سے کہاجاتا ہے کہ ہندوستان میں دو قوموں کی بجائے دو کمیونٹیز
(Communities)
آباد تھیں ۔ مسلمانوں کی حیثیت ہندوستان میں ایک فرقہ یا کمیونٹی جیسی تھی،اور پھریہ دونوں کمیونیٹیز ہزار سال تک اکٹھی بھی رہیں، لہٰذا دو قومی نظریہ اور اس کی بنیاد پر الگ ریاست کے مطالبے کا تصور ہی غلط تھا۔اس کے جواب میں ہم قائد اعظم کے قرارداد پاکستان 1940ء کے جلسے میں کیے گئے خطاب سے اقتباس پیش کرتے ہیں:’’غلط بیانی اور تنگ نظری کی بنا پر ہمیشہ مسلمانوں کو اقلیت شمار کیا گیا۔مسلمان اقلیت نہیں بلکہ وہ ایک قوم ہیں۔قومیت کی ہر جامع اور مستند تعریف مسلمانوں کو ایک قوم ماننے پر مجبور ہے۔ہندوؤں اور مسلمانوں کا تعلق دو مختلف فلسفوں ،سماجی رسوم اور ادبی روایات سے ہے۔وہ نہ تو باہمی شادیاں کرتے ہیں اور نہ ہی اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ ان کا تصور حیات ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ان کے ہیرو اور تاریخ
(History)
تک الگ الگ ہے۔مسلمان ہر اعتبار سے ایک علیحدہ قوم ہیں اور انہیں اپنا وطن ، اپنا علاقہ اور اپنی ریاست ملنی چاہیے۔‘‘
اسی طرح ایک شبہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ انگریزکو ہندوستان پر قابض رہنے کے لئے ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی ضرورت تھی ، لہٰذا اس نے ہندو اور مسلمان دونوں کو الگ الگ منظم کر دیا ۔اگر اس بات کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو نظریہ پاکستان یا تحریک پاکستان پر کوئی زد نہیں آتی کیونکہ علیحدہ اسلامی مملکت کا واضح مطالبہ 1940ء میں کیا گیا جبکہ کانگریس 1885ء اور مسلم لیگ 1906ء میں قائم ہوئی۔ اس ضمن میں قائد اعظم کا کردار بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ انہوں نے لکھنوپیکٹ 1916ء کی صورت میں مسلم لیگ اور کانگریس میں اتحاد کروایا۔1917ء تک وہ ’’ہندو مسلم اتحاد کے سفیر‘‘ کے خطاب سے مشہورتھے مگر 1928ء میں ایک لمبی مدت تک اتحاد کی کوششیں کرنے کے بعد نہرو رپورٹ کی صورت میں ہندوؤں کی مسلم دشمنی دیکھنے پر انہوں نے کہا کہ آج سے ہمارے اور ہندوؤں کے راستے جدا جدا ہیں۔جس کے بعد انہوں نے کانگریس کو چھوڑ کر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔
مخالفین کی جانب سے ایک وسوسہ یہ پھیلایا جاتا ہے کہ برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کا قیام مسلم لیگ یا مسلمانوں کی کاوشوں سے نہیں ہوا بلکہ انگریز ہندوستان سے جاتے ہوئے اسے اپنی خوشی سے تقسیم کر گئے ۔اس کے جواب میں2جنوری 1969ء کو’’ لندن ٹائمز ‘‘ میں شائع ہونے والا وائسرئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور فلپ ہارورڈ کے درمیان ملاقات کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو: ’’لارڈ مائنٹ بیٹن کو تقسیم کے خیال سے نفرت تھی اور اس کو ٹالنے کے لئے انہوں نے ہر ممکن کوشش کی‘‘
نظریہ پاکستان کے مخالفین کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ بہت سے علماء مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد، سید عطا ء اللہ شاہ بخاری اور مولانا مودودی وغیرہ نظریہ پاکستان،مسلم لیگ بلکہ قائد اعظم کی ذات کے بہت مخالف تھے۔حتیٰ کہ انہیں ’’کافر اعظم‘‘ تک کہا گیا۔لہٰذا پاکستان کا مطالبہ سیاسی تو ہو سکتا ہے مگرنظریاتی یا ملی نہیں۔ اس کے جواب میں ہم صرف اتنا کہیں گے کہ اگرچہ ان چندعلماء کی ہمدردیاں متحدہ ہندوستان کے حق میں تھیں مگربرصغیر میں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت اور ان کے نمائندہ علماء تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے رہے ۔اعلیٰ حضرت کے خلفاء مثلاً سید نعیم الدین مرادآبادی،مفتی برہان الحق جبل پور اورمولانا عبد العلیم صدیقی قادری(مولاناشاہ احمد نورانی کے والداور قائد اعظم کے نماز عید میں امام)سمیت بہت سے دیگر علماء اس سفر میں شامل رہے۔اہل سنت کے علماء کی سیاسی تحریک ’’الجمعیۃ العالیۃ المرکزیہ‘‘(ایک تنظیم/سیاسی تحریک، جسے آل انڈیا سنی کانفرنس کے نام سے یاد کیاجاتا ہے)کے لاکھوں افراد پر مشتمل اجتماع اس بات کی علامت ہے کہ علماء کے تعاون سے مسلمان قوم اپنے دین ومذہب کی بقا کے لئے ایک علیحدہ ملک کے مطالبے پر متفق ہو چکی تھی۔

Short URL: http://tinyurl.com/hs56efx
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *