کیاہم سب منافق ہیں؟۔۔۔۔ تحریر: ذوالفقار خان

zulfiqar khan 2
Print Friendly, PDF & Email

میرے پچھلے کالم شریف میٹرو پھکی کومیرے بہت سے قارئین نے کمنٹس دیئے اور ایس ایم ایس کر کے پسندیدگی کا اظہار کیا۔جن میں قابل ذکرجناب اویس قرنی ،سہیل مراد پوری،ملک بلال ،اشتیاق بخاری،سہیل سواتی،عبدالرحمان ،اور اسلام آباد سے شہزاد احمد اور غضنفرمحمودروزنامہ جانچ اسلام آباد شامل ہیں۔سب کی حوصلہ افزائی کے لئے شکریہ۔ اب آتے ہیں کالم کی طرف۔
اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف الخوق بنااس کر اس ذمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا۔اور تخلیق آدم کے وقت شیطان ملعون کو اس خاکی آدم کو سجدہ نہ کرنے پر ہمیشہ کے لئے لعنتی بنا دیا۔اگریہ انسان اپنی اھمیت کو سمجھنے کی کوشش کرے تو اس کے لئے یہ ہی کافی ہے کہ اسے فرشتوں اور ملائکہ سے سجدہ کروایا گیا۔اللہ عزوجل کو اگر اپنی عباد ت اور ریاضت کروانی ہوتی توفرشتے اور ملائک ہی کافی تھے۔جو نفسانی خواہشات اور ضروریات سے پاک ہیں۔جو ہر لمحہ اور ہر لحظہ عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔
انسان کو دنیا میں اتارنے اور پیدا کرنے کا کوئی مقصد تھا۔انسان کو نفس اورنفسانی خواہشات کا حامل بنا کرساتھ میں عبادت الہٰی،حقوق اللہ ،اور حقوق العبادکا حکم دینا بھی ایک آزمائش ہے۔ اگر اللہ کو صرف ہماری عبادت اور ریاضت سے غرض ہوتی تووہ ہمیں ان حقوق و خواہشات سے مبرا فرماتے ۔اور ہمارا ہر وقت یاد الہٰی اور تسبیح اور توصیف میں ہی گزرتا۔نہ ہمیں کھانے پینے کی خواہش ہوتی ،نہ اوڑھنے بچھونے کی فکر،نہ دنیاوی امورانجام دینے کی پریشانی،اورنہ ایک دوسرے سے برتر بننے کی تگ ودو۔
آ ج کا انسان ہر وقت فکرو تردد اور پریشانی کا شکار ہے۔ حصولِ دنیا اور دولت کیلئیے کوشاں ہے۔ وہ صرف اپنے لئے آسانیاں اور آسائشیں حاصل کرنے کی خاطر دوسروں کا گلہ کاٹنے سع بھی گریز نہیں کرتا۔آج ہم جو ظاہر کرتے ہیں وہ دراصل ہوتے نہیں ہیں۔ کسی کو کسی کی عز ت نفس کا پاس نہیں۔اور کسی کے دل اور میں کسی کے لئے رحم نہیں۔ اور اسی طرح کسی چیز کے حصول کے لئے ہم راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو عبور کرنا اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں ۔ چاہے اسکا حصول ناجائز ہی کیوں نہ ہو۔
اس پر مستزاد یہ کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہلانے پر مصر ہیں۔ ہمارے پاس حقوق اللہ اور حقوق العباد پورا کرنے کا وقت ہی نہیں۔ ہاں چند مواقع ضرور ایسے آتے ہیں کہ ہم اپنی سوچ اور اپنے خیالات کے برعکس اپنے آپ کو ایک اچھا اور نیک انسان اور مسلمان پوز کرنے کی سہی ضرور کرتے ہیں۔جب محرم الحرام کا مہینہ آتا ہے تو ہر طرف شہادتِ حسین علیہ السلام کی باتیں ہوتی ہیں اوران کی قربانی اور جذبے کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔واقعہ کربلا پر سیمینار اور مقالہ جات کا اہتمام ہوتا ہے۔ہر شخص ذکرِ حسین علیہ السلام میں مشغول نظر آتا ہے۔ ان کے جذبہ جہاد کو سراہتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور تلقین کرتا دکھائی دیتا ہے کہ اس جذبے کو اپنا شعار بناؤ۔ کہظالم حکمراں کے سامنے سر نہیں جھکاناکلمہِ حق کہنا ہے۔
اسی طرح جب رمضان المبارک کی آمد ہوتی ہے تو تیس دن کے لئے ہم پکے مسلمان اور سچے غازی بن جاتے ہیں۔چاہے ہمارے پڑوس میں کوئی سارا سال روزے رکھنے پر مجبور رہا ہو۔ ہم روزے اور افطاری کا ایسا انتظام کرتے ہیں کہدیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں،افطاری کے لئے ٹرانسپیرنٹ شاپنگ بیگز میں پھل فروٹ اور دیگر اشیاء لاتے ہیں۔تا کہ دیکھنے والوں کی نظر میں ہماری قدرو قیمت بڑھ جائے اور ہمیں مومن اور پارسا سمجھا جائے۔ لیکن ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ بازار سے گھر پہنچنے تک کتنی حسرت بھری نگاہوں نے ہمارا تعاقب کیا۔ کتنے دل مضمحل ہوئے اور کتنے معصوموں کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہوئیں۔
عیدین کے موقع پر ہم بڑے کرو فر سے اور دھوم دھام سیبچوں کو لے کر نکلتے ہیں اور ان کے کپڑے جوتے اور دیگر اشیاء کی شاپنگ کرتے نہیں تھکتے۔ لیکن ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ اسی معاشرے میں بسنے والے کئی بچے ایسے بھی ہیں جو سارا سال ننگے پاؤں گھومتے ہیں اور کپڑوں کے نام پہ اکثر انکے جسم پر چیتھڑے جھول رہے ہوتے ہیں۔ اور ہمیں کبھی یہ سوچنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ جہاں ہم اپنے بچوں کو چار چار سوٹ دلوا رہے ہیں وہاں انکا ایک ایک سوٹ کم کر کے کسی ایسے لاچار بچے کو بھی اس خوشی کے موقع پر ایک مکمل سوٹ ( کپڑے اور جوتے) دلوا دیں جو سارا سال اس عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکا۔ لیکن ایسے مواقع پراکثر ہماری انا آڑے آ جاتی ہے کہ یہ زندگی بھر محروم رہنے والا بچہ میرے بچوں جیسے کپڑے کیوں پہنے اور وہ میرے بچوں جیسا کیوں دکھے۔
ذوالحجہ کے پہلے دس دن ہم قربانی کی اہمیت اور فلسفے پر تقریریں جھاڑتے ہیں۔ رسمِ ابراہیمی کی تعریفیں کرتے ہیں۔ اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے مہنگے سے مہنگا جانور خریدتے ہیں اور پھر اسے لا کر محلے میں اسکی نمائش کرتے ہیں۔غریب اور لاچار لوگوں کے دل میں یہ امنگ جگا دیتے یہں کہ یہ جانور ذبح ہو گا تو گوژت میں ان کو بھی حصہ ملے گا۔ لیکن پچھلے کچھ عرصہ سے یہ سلسلہ بھی ایسا رخ اختیار کر چکا ہے کہ جو ہمیں قربانی کا گوشت بھیجتا ہے ہم بھی اسی کو دیتے ہیں۔ اور جو قربانی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔اسکو گوشت کھانے کا بھی کوئی حق نہیں۔
اسی حوالے سے جب ربیع الاول کا مہینہ آتا ہے تو ہم امتی بن جاتے ہیں ۱۲ دن خوب جشن مناتے ہیں اور نبی ﷺ کی تعلیمات اور ترجیحات پر خوب لیکچردیئے جاتے ہیں،سیمینار اور کانفرنسوں کا خوب اہتمام کیا جاتا ہے۔ اور ایسے مواقع پر نہ صرف عام آدمی بلکہ ہمارے مولوی صاحبان اور علماءِ کرامو و مشائخِ عظام بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے اور ۱۲ ربیع الاول گزرا۔ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی تعلیمات کیا تھیں اور ہم کون ہیں؟
اسی طرح مارچ، اگست اور ستمبر کا مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں۔ اور ہمارے آباؤ اجداد نے کتنے قربانیاں دے کر یہ وطن ہمارے لئے حاصل کیا تھا، کتنی عورتوں نے اپنیسہاگ اجاڑ کر اور کتنی بہنوں نے اپنے بھائیوں کی جانیں لٹا کراور کتنی ماؤں نے اپنے لختِ جگر اور باپوں نے اپنے جگر گوشوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے جان دے کر اس وطن کا حصول ممکن بنایا۔
سال میں ۳۶۵ دن ہوتے ہیں ، جن میں سے ہم صرف ۱۰۵ دن ( جن میں ۶۲ دن مذھبی لحاظ سے اور اور ۴۴ دن ملکی حساب سے) ہم پکے سچے مسلمان اور محب الوطن پاکستانی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ۲۵۹ دن ہم ہم کس کام میں مصروف رہتے ہیں۔ صرف میں اور میرا کی گردان کرتے ہوئے دولت کے حصول کے لئے بغیر کسی اچھائی برائی کی تمیز کئے اپنے سٹیٹس کے لئے اپنے غرور و مان کیلئے ہم کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں، بلکہ کرتے ہیں۔ کسی معبود کا نہیں سوچتے کسی رسول کی نہیں سنتے، کسی مجبور کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا۔ کسی محتاج کی مدد نہیں کر سکتے، کسی کے زخموں پہ مرہم نہیں رکھ سکتے کسی کے دکھ کا ہم مداوا نہیں کر سکتے، کسی کی ہمدردی پمارے پاس پھٹکتی۔
کیا یہ سراسر منافقت نہیں کہ ہم محض چند مخصوص مواقعوں اور دنوں میں تو سچے مسلمان اور حب الوطن پاکستانی بن جاتے ہیں لیکن جوں ہی وہ مخصوص دن یا ایام گزرتے ہیں اپنے ھی مسلمان بھائیوں کے گلے کاٹنے لگ جاتے ہیں، سفارش ، رشوت اور اختیارات کے ڈنڈے سے ان کو ہانکنے لگتے ہیں اور اسی ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔کیا باقی دنوں میں ہمارے تمام حقوق و فرائض بخش دئے جاتے ہیں؟ کیا ان دنوں کے علاوہ ہمارا مسلمان اور پاکستانی ہونا ہم بھول جاتے ہیں؟ ہمارے قول و فعل کا یہ تضاد کیا ہمیں منافق ثابت کرنے کی لئے کافی نہیں؟؟؟

Short URL: http://tinyurl.com/zoq75ne
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *