قانون کی حکمرانی

Rana Ijaz Hussain Chohan
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان 
گزشتہ دنوں پاکستان سپریم کورٹ کے جسٹس امیرہانی مسلم کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ سرکاری محکموں میں رشوت ستانی اور اقرباء پروری کا خاتمہ ضروری ہے۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر مضبوط معاشرہ قائم نہیں ہوسکتا، کسی بھی معاشرے کی سماجی و جمہوری ترقی کیلئے قانون کی حکمرانی لازم ہے، قانون کی حکمرانی انفرادی حد تک محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ اس کے مقاصد اجتماعی ہوں، حکومت کے بھی قانون کے تابع ہونے سے ہی قومی ترقی کا خواب حقیقت بن سکتا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے مذید کہا کہ حکومتی اداروں کے اندر استحصال اور منظور نظر افراد کو نوازنے کی مثالیں موجود ہیں جو ملازمین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا باعث بن رہے ہیں، ملک میں گڈگورننس کا قیام نہ ہونے کی اصل وجہ ملکی اداروں میں منظور نظر افراد کا تقرر ہے، یہ عمل ریاستی اداروں کو کمزور کرتا ہے۔قانون کی حکمرانی معاشرے کی معاشی، سیاسی اور سماجی ترقی کی بنیاد ہے۔ قانون کی حکمرانی صرف انفرادی حقوق کے تحفظ اور جھگڑوں کے حل تک محدود نہیں بلکہ اس میں آزاد اور موثر عدلیہ، اختیارات کے غلط استعمال کو روکنا اور قانون کی پابندی کرنے والی حکومت بھی شامل ہے۔ حکومتی اداروں کے اندر قانون کی حکمرانی کے بغیر مثالی معاشرے کا قیام ناممکن ہے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے کرپشن میں کمی، اقربا پروری اور استحصال کو اداروں سے ختم کرنا ہو گا اور آئین اور قانون کا سخت اطلاق کرنا ہو گا۔‘‘
چیف جسٹس آف پاکستان کے درج بالا ریمارکس لائق تحسین ہیں جس میں انہوں نے سسٹم میں موجود خامی کی نشاندہی کی ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قانون پسند معاشرے میں کوئی شخص یا ادارہ قانون سے بالاتر نہیں ہوتا، کوئی چاہے جتنا بھی طاقتور ہووہ ریاست کے بنائے ہوئے قانون کے سامنے بے بس و لاچار ہوتا ہے، کیونکہ قوانین بنائے ہی انسانی بھلائی کے لیے جاتے ہیں، جنہیں حرف عام میں زندگی گزارنے کے اصول بھی کہا جاسکتا ہے۔مہذب معاشروں میں قانون ساز اداروں کا قیام اسی سلسلے کی کڑی ہوتی ہے جہاں عوام کے نمائندے گاہے بہ گاہے ملکی حالات و واقعات کے مطابق قانون سازی کرتے اور عدالتی سسٹم کو مضبوط بناتے ہیں۔ آج دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی ترقی وخوشحالی کا جائزہ لیا جائے اور دوسری جانب ترقی پزیر ممالک کی پست حالی کا بھی بغور جائزہ لیا جائے تویہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جس اقوام نے ریاست کے بنائے ہوئے اصولوں کااحترام کیا وہ بام عروج پر پہنچ گئیں اور جنہوں نے اپنے قوانین کو مذاق سمجھا ،یا تو وہ برباد ہوگئیں یا تباہی کے دہانے پر جاپہنچیں۔ بدقسمتی سے ہم ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں، نہ توہم اسلامی اصولوں کے مطابق خود کو ڈھال سکے ہیں اور ناخود میں وہ ولولہ و جوش پیدا کر سکے ہیں جو ہمیں کم از کم جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کر سکتا ہے۔ ہمارے ہاں آئین پاکستان موجود ہونے کے باوجود ،ریاست پاکستان میں قانون کا نفاذ سب کے لئے برابر نہیں، ہمارے ہاں عوام کے لئے سخت ترین قوانین مگر وڈیروں اور لٹیروں کے لئے کمزور ترین قانونی شکنجہ ہے جس کے باعث یہ لوگ قانون سے بالاتر نظر آتے ہیں ، سمجھ سے بالاتر ہے کہ ملک کے خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والی بڑی بڑی مچھلیاں قانون کے آہنی شکنجے سے کیسے بچ نکلتی ہیں؟ یہ بھتہ مافیا، یہ ٹیکس چور، یہ قبضہ مافیا، یہ کرپٹ افرادآخر کب قانون کی گرفت میںآئیں گے، اور فوج کو کب تک ان کا تعاقب کرنا پڑیگا۔ اگر ریاست کا موجودہ عدالتی سسٹم بہتر ہوتا تو ہمیں فوجی یا خصوصی عدالتوں کے قیام کی ہر گز ضرورت نہ ہوتی۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ اگر ملکی دولت لوٹنے والے، ملک میں کرپشن کرنے والے مگر مچھ قانون سے بالا رہتے ہیں توسسٹم کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ اربوں روپے کی لوٹ کھسوٹ کے مقدمات درج ہوتے ہیں اور پھر کئی کئی سال عدالتی کاروائی کے علاوہ میڈیا ٹرائل بھی ہوتا رہتا ہے۔تفتیش اور پراسیکیوشن پر خطیر رقوم قومی خزانے سے صرف ہوتی ہے، مگر یہ مگرمچھ مکھن سے بال کی طرح بچ نکلتے ہیں۔ جہاں تک عدالت کا تعلق ہے جب ثبوت نہیں ہوگا تو عدالت کسی کو سزا نہیں دے سکتی۔ سمجھ سے بالاتر یہ ہے کہ اسقدر کمزور مقدمات پیش کر کے عدالتوں کا قیمتی وقت ضائع کرنے ، کارروائی پر خطیر رقوم ضائع کرنے اور قوم کو سالہا سال تک سسپنس میں مبتلا رکھنے میں کیا مصلحت کارفرما ہوتی ہے۔ اگر ٹھوس ثبوت کے باوجود محض تکنیکی بنیادوں پر قومی مجرم چھوٹ جائیں تو یہ لمحہ فکریہ ہے اور ایسی صورت میں ضابطوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر قیام پاکستان کے مقاصد پر غور کیا جائے تو دستور ساز اسمبلی سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا خطاب ہی ہمارے لئے کافی ہے ، انہوں نے ہمیشہ اقرباء پروری ، سفارش اور رشوت جیسی لعنتوں کا قلع قمع کرنے اور بلا تفریق انصاف کی ضرورت پر زور دیا۔ معاشرے میں پائیدار امن کے لئے بلا امتیاز انصاف کی فراہمی لازمی ہے، جب نظام تفتیش بہتر نہ ہو اور مظلوم کو عدل کے ایوانوں سے انصاف نہ ملے تو پھرجنگ و جدل اور خانہ جنگی کا ماحول جنم لیتا ہے جو کہ ملک و ملت کی ترقی و خوشحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جبکہ قانون کی بالا دستی اور بلا امتیاز انصاف کی فراہمی پرامن معاشرے کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ ریاست میں قانون کی مساوی و بلا امتیاز عملداری وقت کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملزم چاہے کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو قانون کی گرفت سے بچ نہ پائے۔

Short URL: http://tinyurl.com/ycfs9auj
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *