سوشل میڈیا پر اسلامی نطریات کے خلاف جنگ !۔۔۔۔ تحریر: شیخ زوہیب

Sheikh Zohaib
Print Friendly, PDF & Email

اگرچہ فیس بک کی تخلیق تو چند آشنا اور عملی زندگی میں جان پہچان والے لوگوں کے انٹرنیٹ پر باہمی تعلق کی بنا پر ہوئی تھی۔ جس میں لوگ اپنی ذاتی تصاویر و معلومات اور زندگی میں ہونے والے واقعات اپنے دوستوں ٗ عزیزوں سے شیئر کرتے تھے۔لیکن بہت جلد ہی انسانوں میں موجود منفی رجحانات اور اپنے نظریات کا دوسروں کو ہمنوا بنانے کی خواہش سے ٗ اول تو یہ فیس بک ٗ  یعنی جھوٹ کا گڑھ بن گئی ۔ دوم یہ کہ اس پر مختلف مذاہب ، ممالک، سیاسی تنظیموں ، لسانی گروہوں اور رنگ بہ رنگ نظریات کے لوگوں میں نظریاتی جنگ چھڑ گئی یا پھر شاید چھیڑ دی گئی۔
قصہ مختصر یہ کہ فیس بک کو ٗ عالمی طاقتوں نے خلاف اسلام و پاکستان ٗ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ تقریباً عرصہ 5 سال پہلے سوشل میڈیا پر اردو زبان میں کچھ ایسے فورمز یعنی گروپس ٗ پیجز اور اکاؤنٹس سامنے لائے گئے جن پر اسلام کے خلاف مواد پیش کیا جاتا تھا۔ یہ فورمز نظریۂ الحاد ، دہریت ،سیکولرازم، لادینیت و ملّا منافرت نیز پاکستان مخالفت کی بنیاد پر بنائے گئے تھے۔
ان فورمز پر خدا کا انکار کیا جاتا ٗمذاہب کی توہین کی جاتی ٗ قرآن مجید میں کیڑے نکالے جاتے ٗ نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس پر بہتان باندھے جاتے ٗ عجیب و غریب الزامات لگائے جاتے ٗ اسلامی تاریخ کو حد درجہ مسخ کرکے پیش کیا جاتا ٗ مسلمانوں کو انتہادرجے کی بُری قوم بنا کر پیش کیا جاتا ٗ نیز اسلام اور مسلمانوں کا دہشت گردانہ تصور پیش کیا جاتا۔اس سب کے ساتھ ساتھ ٗ ان فورمز پر ہر وقت پاکستان کے خلاف زہر اگلا جاتا ٗ اسے جنونیوں کی آماجگاہ بنا کر پیش کیا جاتا ٗ اسے اقلیتوں کی مقتل گاہ کہا جاتا ہے ۔ یہ لوگ پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے نیز رائی کا پہاڑ بنا کر ہر چھوٹی موٹی خامی یا مسئلے کا ڈھنڈورا پیٹتے ۔ یہ فورمز پاکستانی فوج کے بدترین دشمن ہیں ۔ یہ ہر وقت فوج کے خلاف پراپیگنڈا میں مصروف رہتے ہیں۔اسے پاکستان کا خون چوسنے والی بلا ٗ دہشت گردوں کی سرپرست اور ایک نکمّا چوکیدار قرار دیتے ہیں۔ یہاں لطف کی بات یہ ہے کہ ان سب سرگرمیوں سے ان کا مقصد معاشرے میں بہتری ہرگز مقصود نظر نہیں آتی ٗ بلکہ ان کی منزل صرف اتنی ہے کہ ایک پاکستانی کے دل سے اسلام کی محبت کھرچ کر پھینک دی جائے اور پاکستان کو بطور اسلامی ریاست نہ رہنے دیا جائے۔ ان لوگوں کے نزدیک پاکستان کا قصور صرف اتنا ہے کہ یہ دو قومی نظریہ پر تخلیق ہونے والی اسلام کے نام پر بنائی گئی ریاست ہے۔ چنانچہ یہ ہمیشہ ملک خداداد میں برائی اور خامی ہی تلاش کرتے ہیں نیز اگر کوئی مثبت ٗ بہتر یا قابل تعریف بات ہو تو اس پر ان کے فورمز اکثر خاموش ہی پائے جائیں گے۔
اگر ان لوگوں کے اسلام پر اعتراضات علمی و تحقیقی نیز تلاش حق و نیک نیتی کی بنیادوں پر ہوتے تو پھر بھی خیر تھی ٗ کہ اصولاً پھر ان کے جوابات دینا یقیناًمسلمانوں کی اخلاقی ذمہ داری تھی۔لیکن افسوس کہ ان لوگوں کے طریقۂ کار سے صاف طور پر بدنیتی و تخریب کاری جھلکتی ہے۔
مثلاً اگر ان لوگوں نے اپنی فیس بک آئی ڈیزیا اکاؤنٹس ٗ سنجیدہ کام و انداز کی بنائی ہوتی تو پھر عموماً نام بھی خالصتاً اسلامی طرز و اندازوا لے رکھے جاتے ٗ جیسا کہ ’’میاں مصطفی ، غلام رسول، نعمان سعید ، سید عباس حیدر، اشبا نور، سیدہ عائشہ اور ’محمد اسلام‘ ‘و غیرہ ۔ ایسی آئی ڈیز سے یہ لوگ بہ آسانی مسلمانوں میں گھس کر ان سے بات چیت کرکے اسلامی موضوعات پر گفتگو کرکے ان کے ذہنوں میں وسوسہ ڈالتے ہیں۔
اور اگر فتنہ پروری و اسلام سے نفرت کی بناء پر آئی ڈیز بنائی جاتیں تو پھر نام بھی انتہائی گھٹیا و بیہودہ اور متعصبانہ رکھے جاتے جیسا کہ ’’ ملّا منافق ، کافر خان ، کافر شکاری ، مولوی استرا یا پھر ’ محمد رام سنگھ‘‘ وغیرہ۔ بہرحال ٗ نام اچھا ہو یا برا ٗ سنجیدہ ہو یا غیر سنجیدہ ٗ مقصدان لوگوں کا وہی ہے جوپیچھے بیان کیاگیا۔ یونہی یہ لوگ فرداً فرداً بھی ٗ کئی قسم کی متعدد آئی ڈیز بناتے جو کہ مختلف مزاج و انداز کی ہوتی ہیں۔ اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک عام مسلمان کو یہ دھوکہ دیا جائے کہ مسلمانوں میں بہت تیزی سے لوگ اسلام کو چھوڑ رہے ہیں۔
ان فتنہ پرور لوگوں کے بدنیت ہونے کی تیسری علامت ٗ ان کا خود کو سابقہ مسلمان کہ کر مسلمانوں کو دھوکا دینا ہے۔ یہ مسلمانوں والے نام کی آئی ڈی بناتے ٗ جب ہم اعتراض کرتے کہ’’ آپ لوگ غیر مسلم ہو کر مسلمان کیوں بن رہے ہیں؟‘‘ تو ان کا جواب ہوتا کہ ’’ ہم پیدائشی مسلمان ہیں ٗ البتہ بعد میں تحقیق کرکے اسلام کو غلط پایا اور پھر اسلام و خدا کو چھوڑ دیا‘‘۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں سے آٹے میں نمک کے برابر بھی ایسے لوگ نہیں ہوں گے جو حقیقتاً پیدائشی مسلمان تو دور کی بات ہے ٗ کبھی مسلمان بھی رہے ہوں۔وگرنہ ہم نے تو یہی دیکھا کہ جب کبھی ایسے پیدائشی مسلمانوں سے بطور امتحان ٗ چھوٹے موٹے اسلامی سوال کیے تو یہ لوگ جواب دینے میں ہمیشہ ہمیشہ نہ صرف ناکام رہے بلکہ بہانے بھی بنائے کہ ہم کوئی بہت اچھے مسلمان نہیں تھے وغیرہ۔ مثلاً ایک فیس بکی ملحد سے پوچھا کہ ’’ تہجد کی کتنی رکعات ہوتی ہیں؟ ‘‘ تو جواب ملا ’’ ہمارے تو کبھی فرائض بھی پورے نہیں ہوئے ٗ تہجد کا کیا معلوم ! ‘‘ ایک سے انتہائی بچگانہ سوال پوچھا کہ ’’ قرآن کی کتنی منزلیں ہیں؟ ‘‘ تو جواب دیا ’’ میں بہت زیادہ باعلم مسلمان نہیں تھا ٗ میں کیا جانوں‘‘ ۔ ذرا غور تو کیجیے کہ جو شخص ٗ ’’اپنی تحقیق ‘‘ کے مطابق قرآن میں عربی کی غلطیاں اور سائنسی خامیاں بیان کررہا ہے ٗ وہ یہ نہیں جانتا کہ قرآن میں منزلیں کتنی ہوتی ہیں۔ ایک صاحب نے تو حد ہی کردی ٗ نام تھا ان کا ’یزید حسین‘ ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ حافظ قرآن تھے اور تراویح بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ اگر تراویح کی ایک رکعت نکل جائے تو اسے کیسے پورا کرتے ہیں؟ تو موصوف کا انتہائی مضحکہ خیز جواب تھا ’’ چونکہ اسلام چھوڑے کئی سال ہوگئے ہیں ٗ اس لیے اب میں بھول چکا ہوں ‘‘۔کیا آپ یقین کرسکتے ہیں کہ ایک شخص انڈیا کا پیدائشی مسلمان ہو کر انڈیا میں ہی درس نظامی یعنی 8 سالہ عالم دین کورس کرنے کا مدعی ہو لیکن اسے اردو زبان نہ آئے؟ جبکہ اس کی آئی ڈی کا نام تھا ’’ منصور حلّاج ‘‘۔
قارئین ۔آپ بھی اپنے فیس بکی فرینڈ ز کو چیک کریں ان میں بھی یہ اسلام مخالفین گھسے ہوئے ہوں گے ۔شوشل میڈیا پر نام نہاد ملحدین جو کہ اصل میں صرف ملحد ہی نہیں ہیں بلکہ عیسائی ،یہودی ،ہندو،قادیانی اور وہ لبرل جو اسلام کے خلاف فتنہ پھیلا رہے ہیں ان کے خلاف یہ جنگ جاری ہے ۔
Short URL: http://tinyurl.com/zouoklc
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *