سرائیکی زبان سے پیپلز پارٹی کا سوتیلا سلوک

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ظہور دھریجہ
پیپلزپارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ سرائیکی صوبے کی حامی ہے ، پیپلزپارٹی یہ بھی کہتی ہے کہ پیپلزپارٹی کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو سرائیکی صوبے کی حمایت پر برطرف کیا گیا اگر یہ بات صحیح ہے تو ہم پیپلزپارٹی سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ سینیٹ میں سرائیکی کو شودر کیوں بنایا؟ سینیٹ میں منظور ہونے والی قراردادپر سرائیکی وسیب میں سخت نفرت اور اشتعال سامنے آیا ، اس سلسلے میں سرائیکی قوم پرست جماعتوں کے الائنس ’’سرائیکستان عوامی اتحاد‘‘ کے ہنگامی اجلاس میں اس قرارداد پر سخت غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے پیپلزپارٹی سے سخت احتجاج کیا گیا اور فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا، پیپلزپارٹی کے خلاف ہر آئے روز اخبارات میں بیانات بھی شائع ہو رہے ہیں اور مظاہرے بھی رہے ہیں مگر افسوس کہ آصف زرداری ، بلاول بھٹو، یوسف رضا گیلانی، مخدوم احمد محمود اور دیگر تمام ذمہ دار عہدیداروں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اس خاموشی کو کیا نام دیا جائے؟ یہ خاموشی مجرمانہ خاموشی ہے اور سرائیکی قوم کو تباہ کرنے والی خاموشی ہے ، پی پی والوں نے جو فائر مارنا تھا مار دیا ہے اب سرائیکی قوم کو خاموش نہیں رہنا چاہیے۔
ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اگر ہم پیپلزپارٹی کے کردار پر غور کرتے ہیں تو پیپلزپارٹی سرائیکی دوست کی بجائے سرائیکی دشمن کے روپ میں سامنے آتی ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد برسر اقتدار آئی تو اس نے نئی 18ویں ترمیم لانے کا فیصلہ کیا، سینیٹ کے موجودہ چیئرمین رضاربانی کی قیادت میں آئینی کمیٹی قائم کی گئی ، اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی باقی تمام آمرانہ ترامیم کو ختم کیا گیا مگر سرائیکی صوبے کا راستہ روکنے والی ترمیم کو باقی رکھا گیا، آٹھویں ترمیم کے موقع پر سرائیکی جماعتوں نے اپنے مطالبات جاری رکھے ، ہمارا مطالبہ تھا کہ اٹھارویں ترمیم میں سرائیکی صوبے کا بل بھی شامل کیا جائے اور سرائیکی قوم کو بھی شناخت دی جائے ، مگر حکمرانوں نے آئین میں ترمیم کر کے خیبر پختونخواہ کے نام پر پختونوں کو شناخت دے دی مگر سرائیکی کا نام سننا بھی گوارہ نہ کیا۔کیا اس کا نام سرائیکی دوستی ہو سکتا ہے؟ حالانکہ یہ گولڈن چانس تھا کہ تیسری مرتبہ وزیراعظم نہ بننے کی شرط کے خاتمے کیلئے نواز شریف ہر بات ماننے کو تیار تھے۔
پیپلزپارٹی ایک عرصہ سے سرائیکی صوبے کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے ، سرائیکی جماعتوں نے پیپلزپارٹی سے کہا کہ اگر آپ کی جماعت سرائیکی صوبے کے قیام میں مخلص ہے تو اسے اپنے جماعت کے منشور کا حصہ بنائے اور اس کے لئے الگ تنظیم بنائے ، کئی سالوں تک تو پیپلزپارٹی نے اس بات کو ٹالے رکھا ، پھر جب ن لیگ سے اس کی سیاسی جنگ تیز ہوئی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف مرکز کے خلاف آئے روز جلوس نکالنے لگے تو پیپلزپارٹی نے بغض معاویہ کے طور پر سرائیکی صوبے کے مطالبے کو اپنے جماعتی منشور کا حصہ بنانے اور الگ تنظیم کے قیام کا اعلان کر دیا ، پھر کچھ عرصہ بعد پیپلزپارٹی پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ’’جنوبی پنجاب‘‘کے نام سے الگ تنظیم بنا دی گئی ، مخدوم شہاب الدین صدر اور شوکت بسرا جنرل سیکرٹری بنایا گیا، سرائیکی جماعتوں نے لفظ ’’جنوبی پنجاب‘‘ پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ لفظ وسیب کے لئے گالی ہے ، تنظیم کا نام سرائیکی وسیب رکھا جائے ، پیپلزپارٹی نے آج تک یہ معقول مطالبہ منظور نہیں کیا ، بارہا پیپلزپارٹی کی قیادت سے پوچھا گیا کہ جنوبی پنجاب تنظیم میں کونسے اضلاع شامل ہیں تو پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے سابقہ صدر مخدوم شہاب الدین اور موجودہ صدر مخدوم احمد محمود اس کا کوئی جواب نہیں دے سکے ،اس سے ظاہر ہوا کہ یہ بھی ٹوپی ڈرامہ ہے اور اس کی حیثیت سرائیکی صوبہ، سرائیکی بنک کے لولی پاپ سے زیادہ نہیں۔
ن لیگ نے پانچ سال قبل اسی ماہ پنجاب اسمبلی سے دو صوبوں کی قرار داد منظور کر کے مرکز کو بھیجی کہ بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لئے صوبہ کمیشن بنایا جائے ، پیپلزپارٹی نے صوبہ کمیشن سینیٹر فرحت اللہ بابر کی قیادت میں بنایا ، اس پر سرائیکی جماعتوں نے موقف دیا کہ فرحت اللہ بابر کا تعلق خیبر پختونخواہ سے ہے اور وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ٹانک اور دیرہ اسماعیل خان پر مشتمل سرائیکی صوبہ بنے، چنانچہ یہی ہوا کہ صوبہ کمیشن نے نہ صرف یہ کہ ٹانک اور دیرہ اسماعیل خان کو مجوزہ سرائیکی صوبے سے نکال دیا بلکہ میانوالی اور جھنگ جیسے اہم اضلاع کو بھی سرائیکی صوبے سے آؤٹ کر کے صوبے کا نام سرائیکی شناخت کے برعکس ’’بی جے پی ‘‘ (بہاولپور جنوبی پنجاب) رکھ دیا جس پر پورے سرائیکی وسیب میں احتجاج ہوا کہ ایک طرف آئین میں ترمیم کر کے آپ نے پختونخوں کو شناخت دی دوسری طرف پیپلزپارٹی کے صوبہ کمیشن نے نہ صرف سرائیکی شناخت کو مسخ کیا بلکہ صوبہ بننے سے پہلے بہت سے اضلاع کاٹ کر سرائیکی صوبے کو لولہا لنگڑا بنا دیا ۔
جہاں تک سرائیکی زبان کو شودر بنانے کے بات ہے تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس کی ذمہ دار صرف پیپلزپارٹی ہے ، جہاں تک ن لیگ کی بات ہے وسیب دشمنی میں اس کا کردار ڈھکا چھپا نہیں ، تحریک انصاف کی جہاں تک بات ہے تو سرائیکی مسئلے پر اس کا معاملہ نہ Heاورنہ She والا ہے حالانکہ وہ جماعت ہی نہیں ہوتی جس کا کسی اہم مسئلے پر کوئی موقف نہ ہو، حرف آخر کے طور پرمیں اتنا کہونگا کہ زبان کا مسئلہ ہمیشہ حساس مسئلہ رہا ہے ، اردو ہندی تنازعہ ہندوستان کی تقسیم اردو بنگالی تنازعہ پاکستان کی تقسیم کا باعث بنا ہے، یہ سنی سنائی باتیں نہیں یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے، میں اتنا کہونگا کہ زبانوں کی درجہ بندی غلط ہے، لسانی مسائل یا لسانی فسادات جب بھی پیدا ہوئے اس کا باعث عاقبت نا اندیش سیاستدان اور حکمران رہے ہیں۔
حکمرانوں اور سیاستدانوں کو زبان کا مسئلہ حل کرنا ہوگا، میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ سرائیکی وسیب کے لوگ تمام زبانوں کا برابر احترام چاہتے ہیں ، وہ پنجابی زبان کی ترقی کے بھی خواہاں ہے اور اردو کو بھی اسکی آبادی کے مطابق اس کا حق ملنا چاہیئے، مگر کسی بھی زبان کے جبری نفاذ کے ہم خلاف ہیں،ہر طرح کے لسانی شاؤنزم کے خلاف ہیں، لسانی دہشتگردی کے خلاف ہیں اور زبانوں کو دوسرے تیسرے درجوں میں تقسیم کرنے کی مذمت کرتے ہیں، یہ مختلف قوموں، مختلف زبانوں اور مختلف ثقافتوں کا ملک ہے، قوموں کے وطن ہوتے ہیں اور قوموں کی زبانیں ہی قومی زبانیں ہوتی ہیں، اس کی ہمسایہ ملک بھارت اور دوسرے ملکوں میں مثالیں موجود ہیں، ملک کو دو لخت کرانے کے باوجود بھی اشرافیہ کو مسئلہ سمجھ نہیں آیا تو یہ بدقسمتی ہے۔ 
آخر میں تاسف کے ساتھ تفصیل بتا رہا ہوں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے پاکستانی زبانوں سندھی، سرائیکی ، بلوچی، پشتو ، ہندکو اور براہوی کو قومی زبانیں دینے کیلئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں قرار داد پیش کی گئی، پیپلزارٹی کی قرار داد کی مخالفت بھی پیپلزپارٹی کے چوہدری اعتزاز احسن اور فاروق ایچ نائیک نے کی، عجب بات ہے کہ قرار داد بھی پی پی پیش کر رہی ہے اور مخالفت بھی پی پی کر رہی ہے، پی پی والوں کا اعتراض سرائیکی پر تھا، گویا ایک نئی قرار داد چار زبانوں سندھی ، پنجابی، بلوچی اور پشتو کیلئے پیش کی گئی جسے منظور کر لیا گیا اور سرائیکی کو رد کر دیا گیا۔ پیپلزپارٹی کے اس عمل سے سرائیکی قوم کے زخم ایک بار پھر تازہ ہو گئے کہ پیپلزپارٹی کہتی کیا ہے اور کرتی کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ پوری سرائیکی قوم کو پیپلزپارٹی کے اس دوغلے پن سے صدمہ ہوا ہے، مگر یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ نہ سمجھا جائے کہ پیپلزپارٹی کے اس عمل سے سرائیکی قوم تباہ ہو گئی یا سرائیکی زبان ختم ہو گئی، سرائیکی قوم یا سرائیکی زبان کو نہ پیپلزپارٹی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت اور نہ سینیٹ کی اور نہہی سرائیکی کو دنیا کی کوئی طاقت ختم کر سکتی ہے ، اگر سرائیکی نام شامل ہوتا تو پیپلزپارٹی اور سینیٹ کی توقیر میں اضافہ ہونا تھا جہاں تک سرائیکی قوم کی بات ہے تو میں پیپلزپارٹی کیا سب مخالفین کو کہتا ہوں کہ تمہاری ترکش میں اور بھی تیر ہیں تو وہ بھی پھینکو، کوئی اور میزائل ہیں تو وہ بھی چھوڑو اور اگر کلاشنکوف چلانی ہے تو وہ بھی چلاؤ کہ سرائیکی قوم حملہ آوروں کا مقابلہ کرتی آ رہی ہے ، سرائیکی قوم کو کسی نقصان کا خطرہ اس لئے نہیں کہ سرائیکی سے جب اس کا وطن چھین لیا گیا تو باقی کس بات کا خطرہ ؟ اب سرائیکی قوم کا فلسفہ صوبائی آزادی یا موت ہے۔ میں اپنی بات بھی کرتا چلوں کہ میں غلامی کی سو سالہ زندگی سے آزادی کے ایک پل کو مقدم سمجھتا ہوں۔

Short URL: http://tinyurl.com/y9w54cfe
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *