داستانِ محبت یا عزت کا جنازہ

Zia Ullah Usmani
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ضیاء اللہ عثمانی، کراچی
عربی کا مقولہ ہے: الحیاۃ بدونِ المحبۃ کالطعامِ بدونِ الملح” زندگی محبت کے بغیر ایسی ہے جیسے کھانا نمک کے بغیر۔ اس کائنات کا ظہور اس کی تمام تر رونقیں، ہمہ ہمی، رنگینی اور رعنائی محبت ہی کے دم سے ہے۔ محبت زندگی کی اساس ہے۔ سرور کی کنجی ہے۔ انسانیت کا تقاضا ہے۔ محبت دو دلوں کو جوڑ دیتی ہے۔ دو خاندانوں کو یکجا کردیتی ہے۔ ایک پْل کا کام دیتی ہے۔ جس سے بہت سے نفرتوں سے بھرے دل والے گزر کر محبتوں کی داستانیں رقم کر دیتے ہیں۔ آپس کی محبت نہ ہو تو حیاتِ مستعار کی رونقیں پھیکی لگتی ہیں۔ لطف و سرور کی محفلیں ناپید ہو جاتی ہیں۔ انسانیت کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔ دلوں کی دھڑکنیں محسوس نہیں ہوتیں۔ محبت ایک طویل داستان ہے جسے سمجھنے کے لیے سوزشِ جگر، دل میں درد اور احساس کی ضرورت ہے۔
ہر قوم اپنی محبت کا اظہار اپنے اپنے طور طریقوں سے کرتی رہی ہیں، اور کررہی ہیں۔ سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ محبت کے کئی اقسام ہیں ، مثلاً ماں کی اپنے بیٹے سے محبت ، بیٹے کی ماں سے محبت ، باپ کا اپنی اولاد سے محبت ، میاں بیوی کے آپس کی محبت ، خاندان کے افراد کا آپس میں تعلق اور محبت ، دوستوں کی محبت ،اس قسم کی محبتوں پر نہ تو شریعت نے پابندی لگائی ہے اور نہ یہ معیوب سمجھے جاتے ہیں ، بلکہ شریعت اس کی بھرپور حمایت کرتی ہے ، اور ترغیب دیتی ہے۔ دوسری طرف عشقِ مجازی سے منسوب کء داستانوں کا تذکرہ کر کے لوگوں نے ان کو مستقل تہوار بنادیے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کئی قسم کے بے ہودہ اور بے بنیاد تہواریں منائے جارہے ہیں ،جن کی ابتداء یہود و نصارٰی نے کر کے مسلم معاشرے میں داخل کر دیے ، غیر محسوس طریقے سے ہمارے داخلی ماحول کو گدلا کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب ہو گئے ، اگر دیکھا جائے تو وہ لوگ خود ان تہواروں کو اتنے اہتمام سے نہیں مناتے جیسا غیر معمولی اہتمام ہمارے ہاں رائج ہے۔ ایک ایسا تہوار جس کی ابتداء ایک راہب کا اپنی معشوقہ سے زنا کر کے ہوئی ، جس کے پاداش میں اس راہب کو 14 فروری کو پھانسی دی گئی ، اس کے چاہنے والوں نے ان کی یاد میں اس دن کو محبت سے موسوم کردیا۔ جس کے بعد سے یہ دن “ویلنٹائن ڈے” سے جانا جاتا ہے۔ 
آج اسی تہوار نے ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ کوئی اس کو محبت کا دن قرار دیتا ہے تو کوئی عاشقوں کا دن ، لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کو لال گلاب دیتے ہیں ، گلے ملتے ہیں، رنگارنگ تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے ، ان محفلوں میں بد اخلاقی اور بدتہذیبی پروان چڑھ رہی ہے ، سیر و تفریح کے نام پر ٹورز منعقد کیے جاتے ہیں جس میں عزتوں کے جنازے نکالے جاتے ہیں ، کالج اور یونیورسٹیوں میں ڈانس پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ، جن میں سرعام تہذیب و تمدن کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔ شریعت کے احکامات کو پامال کیا جاتا ہے ، نکاحِ حلال کے تقدس کو پاؤں تلے روندنے کی کوشش کی جاتی ہے، یہ تہوار منانے والے کو نہ اپنی عزت کی کوئی فکر ہوتی ہے اور نہ کسی اور کی عزت کا خیال ، بس اپنی خواہشاتِ نفسانی اور اپنی آرزوؤں کی تکمیل مقصود ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔ ایک نیا کلچر متعارف ہونے جارہا ہے ، اگر ہم نے اپنے آپ نہ سنبھالا تو بعد میں یہ تہواریں ہمارے لیے درد سر بن سکتے ہیں۔ 
ہمیں اپنی دینی روایات کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہود و نصارٰی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے ایمان اور معاشرتی اطوار کو گدلا نہیں کرنا چاہیے ، دینِ اسلام ہی ہماری زندگی کا مقصد اور اساس ہونی چاہیے، تمام تر خواہشات اس دین کے لیے قربان کرنے ہوں گے، پھر دیکھنا اس حیاتِ مستعار کو اللہ جل جلالہ کیسے خوشیوں سے بھردیتے ہیں۔

Short URL: http://tinyurl.com/y2ox4xzh
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *