ثقا فتی یلغار!۔۔۔۔ تحریر: طاہرہ زہرہ

Tahira Zahra
Print Friendly, PDF & Email

ثقافت کیا ہے ؟
ثقافت کی تعریف کچھ یوں ہے، انسان کے فکری و جذباتی رویے ، اس کی پیدائش سے موت اور اس کے بعد تک کی تمام سر گر میاں تہذیب و ثقافت کہلاتی ہیں ۔ہر معاثرہ اپنی ثقافت کے لیے بہت حساس ہوتا ہے ، وہ نہ صرف اپنی ثقافت کی حفاظت کے لیے حساسیت دکھاتا ہے ، بلکہ اس کو دوسرے معاشروں پر نا فذ کرنے کے لیے کوششیں بھی کرتا ہے ۔ مو جودہ دور میں اس کی مثال چین سے دی جا سکتی ہے ۔چینوں پر بیرونی ثقافت اثر انداز نہیں ہو سکتی ،ان لوگوں نے ،ثقافت کے نام پر ان خرافات کو آج تک محفوظ رکھاہے، جو کہ ان کے ثقافتی ورثے ہیں۔
جب کسی جب کسی قوم کی شناخت ،اظہارِ وجود کو اس سے چھیننا ہو تو سب سے پہلے دشمن اس کی اقدار چھینتا ہے،اور اس نا محسوس طریقے سے کہ پتہ بھی نہیں چلتا۔
ثقافتی یلغار کی مثال دلدل سے دی جا سکتی ہے۔لیکن اس سے پہلے ہمیں دلدل کے معنی سمجھنے ہوں گے۔دلدل در حقیقت کہتے کسے ہیں ؟؟دلدل ایسی سرزمین کو کہتے ہیں جو سطح سے پانی سے تر ہو مگر پانی اس کی سطح سے ظاہرنہ ہو۔دلدل ہر زمین پر پیدا نہیں ہوتی ۔اس کے لیے ایک خاص زمین کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاََ دلدل کے لیے پست اور گٹھیا زمین کی ضرورت ہوتی ہے۔دلدل اس زمین میں بنتی ہے جس میں پانی داخل ہو لیکن نعکاسی کا کوئی راستہ نہ ہو۔ یہی حال ثقا فتی یلغار انسان کوایک دلدل کے اندار گری دیتی ہے۔ ذہنی طور پر انسان اس دلدل میں اترتا چلا جاتا ہے۔ جب مزید کچھ عرصے تک وہ اس دلدل میں رہتا ہے تو نا محسوس طریقے اس کے افعال اور اعمال اس ثقافت کے تابع ہو جاتے ہیں جو اس پر مسلط کی جا تی ہے۔
ہماری بد قسمتی ہے کہ ہر طر ح ثقا فت کو ہم پر لا گو کرنے کی کو شش کی گئی تھی ۔پاکستان کی زمین بہت زرخیز ہے ۔ یہا ں کوئی بھی بیج بویا جائے نتیجہ ،بہت خوش کن حاصل ہوتا ہے ۔یہاں دہشت گردی کے جو بیج بوئے گئے تھے ،نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔پاکستانی قوم پر غیر اسلامی ثقافت نافذکرنے کی سعئی مسلسل کی گئی ہے ۔ انڈین چینل کی شکل میں ،انڈین ڈراموں کی شکل میں قوم کے ذہنوں کو جکڑا جا رہا ہے ۔ ایک وہ دور تھا جب ہر طرف انڈین ڈراموں کا دور دورہ تھا ۔ ہر گھر میں ساس بہو کی لڑائی بہت شوق سے دیکھی جاتی تھی ۔شادی بیاہ کے موقع پر لڑکیاں اپنا میک اپ اور ملبوسات سٹار پلس کے کرداروں کے جیسا بناتی تھیں۔باتوں میں ہندی الفاظ روز مرہ کے طور پر بولے جاتے تھے۔چنانچہ یہ ایک دلدل تھی جس میں معصوم ذہنیتیں اس دلدل میں دھنس رہی تھیں ۔یہ دراصل بے بصیرتی ،اور غفلت کی دلدل تھی جس کے اندر ساری اسلامی اقدار دھنس رہی تھیں ۔ہر وہ وسیلہ جو قوم کو اس دلدل سے نکال سکتا تھا ،خود دلدل بن جاتی تھی ۔لیکن اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے ۔ اب ہمارے اوپر ترکی کی ثقافت لاگو کی گئی ہے ترکی کے ڈراموں کی صورت میں ۔
زمانہ قدیم میں جنگیں ہتھیاروں سے لڑی جاتی تھیں ۔لیکن دورِجدید میں جنگ جیتنے کے لیے ہتھیا روں کا فرسودہ طریقہ نہیں استعمال میں نہیں لایا جاتا ہے۔ اب جو ملک دوسرے ملک کو اپنا محکو م بنانا چاہتا ہے ،وہ اپنا کلچر حر یف ملک پر مسلط کرنا شروع کر دیتا ہے ۔اپنی زبان،اپنا کلچر نا محسوس طریقے سے اس ملک میں ، اس ملک کے عوام پر نافظ کیا جاتا ہے ۔پاکستان میں ہندی اور مغربی تہذیب نے مل کر یہ ماحول بنایا ہوا ہے ۔دلدلی زمین کی یہ خوبی ہے کہ اس کے اوپر بہت دلکش سبزہ اگ آتا ہے ۔انسان ہو یا حیوان ، نظر کے دھوکے سے اس زمین پر پاؤں رکھتا ہے تو اس میں دھنس جاتا ہے ۔ دلدلی کلچر ظاہر کو حسین بنایا جاتا ہے ۔عریا نیت اور فحاشی کو اس قدر خوبصورتی سے پیش کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کے فریب میں آ جاتے ہیں ۔ ایسی ذہنیتیں جو زیادہ گہری نہیں ہوتیں ،جو کسی معاملے کا تجزیہ و تحلیل نہیں کر سکتیں،وہ اس دلدلی کلچر کی زد میں جلد آ جا تی ہیں ۔
اس وقت اسلامی ثقافت کو درپیش سب سے بڑا درپیش خطرہ گلوبلائزیشن ہے۔عالمگیر یت کا مسلہ ساری دنیا کو درپیش ہے،نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا اس خطرے سے گزر رہی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لو کل جتنی چیزیں ہیں ان کو ختم کیا جائے،ان سب چیزوں کو ایک ہی سسٹم میں ضم کرنا ۔یعنی تمام تہذ یبیں، تمام اقتصا دیا ت،تمام دنیا کی تجارت ،ان سب کو مٹائیں اور ایک ہی عالمگیر سسٹم،ایک عالمگیر تجارت،ایک عالمگیر تہذیب قائم ہو ،یعنی ساری دنیا پر ایک ہی سسٹم لاگو ہو۔ پوری دنیا پر حکومت اسلحے کے زور پر نہ ہو بلکہ عالمگیریت کے بل بوتے پر ۔غیر اسلامی نظام ،غیر اسلامی ثقافت کو اس قدر پرکشش بنا کر پیش کیا جائے کہ اسلامی ممالک کے عوام اس سسٹم کو بغیر کسی مزاحمت کے قبو ل کر لیں ۔ایسے اقدامات کیے جائیں کہ ساری دنیا گلو بلائزیشن کے زیر اثر آ جائے۔ تمام دنی ایک ہی کنٹرول روم سے کنٹرول کی جائے۔اس کے لیے عالمی استعمار نے کوششیں کیں اور مسلسل کر رہے ہیں ۔ جہاں طاقت کی ضرورت پیش آئی وہاں کا استعمال کیا ۔ یہ جنگ جو عالمِ اسلام پر ٹھونسی گئی ہے ،کہیں دہشت گردی کے نام پر تو کہیں جمہوریت کے نام پر ،کہیں آزادی کے نام پر یہ انہی کوششوں کا حصہ ہے ۔
اہلِ مغرب نے اپنے تشخص کی ہمیشہ حفا ظت کی ہے۔ برطانیہ آج تک یورو کا حصہ نہیں بنا ،اس لیے کہ یورو کا حصہ بننے سے برطانیہ والوں کا تشخص ختم ہو جائے گا۔ مصر پر مختلف اقوام کی حکومت رہی ۔ اسلام بھی آیا ، لیکن اہرامِ مصر آج تک موجود ہیں۔ اہرامِ مصر کیا ہیں؟؟ فرعونوں کے قبرستان ۔ لیکن اہلِ مصر نے ان اہرام کو آج تک قائم رکھا ہوا ہے ، اپنا ثقافتی سرمایہ سمجھ کر ۔زندہ قومیں اپنا تشخص قائم رکھتی ہیں ،جو کوئی ان کے تشخص پر حملہ آور ہوتا ہے وہ مزاحمت دکھاتی ہیں ۔ لیکن جس قوم کے اندر سے زندگی چھین لی گئی ہو ، وہ قومیں مزاحم نہیں ہوتیں، خواہ ان کی ثقافت چھین لی جائے ، خواہ ان کی روایات چھین لی جائیں ،وہ مزاحم نہیں ہوتیں ۔آج ہمارے اسکولوں میں شاہین بچوں کو درس دیا جا رہا ہے خاکبازی کا ۔ لیکن ہم مزاہم نہیں ہوتے ۔ کیوں ؟؟؟ اس کیوں کا جواب خود احتسابی سے ملے گا ۔

Short URL: http://tinyurl.com/zjks7px
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *