بکھرے موتی ہوئے یکجا مرنے کے بعد

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: دعا عظیمی ، لاہور 
‘میرا دل چاہتا ہے مزمل احمد، میں ایسے لفظ تخلیق کروں جو بے حرکت نہ ہوں۔” ہلتے ہوئے جالی کے پردوں کو دیکھتے ہوئے، جھپکتی ہوئی پلکوں کی نوک سے اس نے اپنی انوکھی خواہش کا اظہار کیا۔’’دعا! تم جو چاہو کر سکتی ہو، تمھارے خیال میں ایک عجیب طاقت ہے، اور میں اس طاقت کاگرویدہ ہوں۔” مزمل احمد نے محبت سے اپنی رفیقہ کو دیکھا۔
”سنو! مجھے حیرت ہے کہ ہمارے بیچ کیا ہے، تم تو بالکل پہاڑ جیسے ہو اور میں پانیوں کی طرح۔” تم جیسی بھی ہو، مجھے بہت عزیز ہو۔” دعا جب بھی بولتی کچھ عجیب ہی بولتی، اکثر باتیں مزمل احمد کی عقل کو چھوئے بغیر ہوا میں جذب ہو جاتیں۔ ایسا کیسے؟ کیسے ممکن ہے؟ مزمل نے حیرت بھری نگاہوں سے پوچھا۔ کیوں، ایسا کیوں ممکن نہیں، لفظ رنگین کیوں نہیں ہو سکتے؟ چپ چپ کیوں رہتے ہیں، خاموش سے صابر سے، بالکل ایسے جیسے ہمارے محلے کی عورتیں ہوتی ہیں۔ کیسی چنچل سی ہوتیں اپنی جوانی میں، لیکن جڑیں جوں جوں پھیلتی جاتیں، زمین میں چپ کا پانی پی کر خشک ہو جاتی ہیں، لفظوں کی طرح۔” نہیں دعا! میں نے بہت سی ایسی عورتیں بھی دیکھی ہیں جو جوانی سے چڑھتے بڑھاپے تک لہکتی ہیں۔”
”مجھے تو لگتا ہے، ان کے لچھن ٹھیک نہیں ہوتے۔” ‘خیر ایسا بھی نہیں۔” مزمل احمد نے نادیدہ کرداروں پر تہمت لگانے سے پرہیز کیا۔ کافی کے مگ سے لہراتی بھاپ اوپر کو اٹھتی اور کچھ دور جاکر ٹھنڈی ہوا میں جذب ہوتے ہوتے تحلیل ہوتی جا رہی تھی۔ دعا کی کالی آنکھوں میں ہمیشہ کی طرح شرارت معصوم بچوں کی طرح کھیلتی نظر آئی۔ دعا کا مزاج پانی تھا، جس برتن میں ڈالو ویسی صورت میں ڈھل جائے، جو دیکھے اسے اپنا عکس نظر آئے۔ لچک بھی تھی اور جذب ہو جانے کی بے پناہ صلاحیت بھی، بچے بزرگ مرد اور عورتیں سب ہی عزت کرتے۔ اسے پہلی بار ملنے والے کو بھی نہیں لگتا تھا کہ پہلی بار ملی ہے، لگتا تھا برسوں سے یہ قبول صورت کتابی سا چہرہ شناسا ہے۔ مزمل احمد قدرے خشک مزاج اور اپنے کام سے کام رکھنے والے سیدھے سادے بندے تھے۔ دعا کے مزاج میں خلوص سادگی رومانیت اور روحانیت تھی، وہ مزمل احمد سے زیادہ ان کے کشادہ صحن کے ہر فرد سے زیادہ قریب تھی۔ کچھ دیر وہ مزمل احمد کی صحبت میں رکتی، بے نیازی کی شدید لہر اسے بہانے سے وہاں سے اٹھنے پہ مجبور کر دیتی۔ ویسے کوئی کمی نہیں تھی، رب نے اچھی اولاد سے نواز رکھا تھا، عزت بھری روزی روٹی بھی مل جاتی، رکھ رکھاؤ اور بھرم قائم تھا، دعا جو بھی الٹا سیدھا لکھتی، اس کا دل چاہتا مزمل احمد اسے پڑھیں، مگر مزمل احمد کی طبیعت میں ایسا کوئی خانہ تھا ہی نہیں، عجب لکیر کے فقیر قسم کے انسان تھے، ٹس سے مس نہ ہونے والے۔ پہاڑ سے سر ٹکرانے کی ہمت تھی نہ ضرورت، دعا نے اپنی خوبصورت سی دنیا بسا رکھی تھی، نیلاآسمان، گلابی خواب، جلتے دیے، چمکتے جگنو، اب اس کا دل چاہتا تھا کہ لفظ رنگین ہوں اور متحرک دعا بہت سی بے عنوان نظموں اور بے حرکت کہانیوں کی خالق تھی۔بات اتنی سی تھی کہ مزمل احمد کی شخصیت کے دبدبے کے آگے وہ اپنی ذات کی ڈگڈگی بجا نہیں سکی، جوں جوں بے نیازی بڑھتی گئی توں توں وہ اپنے من میں ڈوبتی گئی، اور جیسے جیسے ڈوبی، روشن ہوتی گئی، جڑیں پھیلتی گئیں اور سایہ بڑھتا رہا، اس کی توجہ ارد گرد پورے ماحول کی جانب تھی، کام پہ آنے والوں سے لے کے ہر ملنے والے کے ساتھ اس کا سلوک خدمتانہ تھا۔ محبت کے سفر میں کب وہ خدمت کی سیڑھی چڑھی اور چڑھتی چلی گئی۔ بہت کم عمری سے وہ سیکھ گئی کہ رہنے کا ایک ہی سلیقہ ہے، دو اور معاف کر دو ہی بیج ہے اور ثمر بھی، کائنات کا راز بھی ہے اور جینے کا سلیقہ بھی۔ انسانوں کو انسان بننے کے لیے صرف اصول خلوص پر ہی چلنا چاہیے، روح کی بڑھوتری کے لیے اس سے بڑی کوئی شے نہیں۔ مسکرانا، دعا دینا، حرف بانٹنا، تسلی دینا امید کے دیے جلائے رکھنا، درد سننا شاید انسانی معاشرے کی پہلی ضرورت ہے۔مزمل احمد جانے کیسے مکمل ہوئے؟مگر دعا دعا دیتے دیتے متحرک ہوتی گئی، بظاہر لاپرواہ اور بے نیاز، خلوص کے کھلونے بانٹتی وہ ایک دن کمرہ امتحان سے نکل گئی۔ دعا کمرہ امتحان سے کچھ اس ادا سے فارغ ہوئی کہ ہرآنکھ پرنم ہوئی۔’’اچانک چل بسی‘‘مزمل احمد کوئی شاعر تو تھے نہیں کہ شب فرقت کے نوحے لکھتے، مگر لگا پہاڑ ریت کا بھر بھرا ٹیلہ بھی نہ رہا، سب خالی خالی دیوارودر سے اداسی بال کھولے لپٹ گئی تھی۔ اٹھے، اس کی ادھوری نظموں والی کاپی کھولی، کچھ سمجھ نہیں آیا، بس دو آنسوتھے، صفحہ قرطاس کو رنگین کرگئے۔ وہاں سے نکلے، سفید مر مر کی قبر کے کتبے پہ نگاہ پڑی، دیے میں تیل ڈالا، لو روشن ہوئی، فاتحہ پڑھی، نظر اس کے نام پہ جا ٹکی، دعااحمد زوجہ مزمل احمد۔لگا دیے کی روشنی سے حرف متحرک ہوگئے ہوں، اور رنگین بھی، قبر پہ پھول ہلے، دعا قبول ہوئی، کبھی کبھی قبولیت اتنا وقت لے لیتی ہے، کوہ گراں کے دل سے محبت کی آبشار پھوٹی تو کب؟ جیسے دعا قبر سے بولی، واہ، اور آسمان کی جانب پرواز کر گئی۔مزمل احمد نے سوچا کیوں نہ اس کی الٹی سیدھی تحاریر کو کتابی صورت دے دی جائے، شاید اس کے لفظ زمانے کا سفر کرنے لگیں اور فالتو کاغذ بھی ٹھکانے لگیں۔ ٹی وی پہ پرانے دیکھے ہوئے شو کو تیسری بار دیکھتے ہوئے انھوں نے سوچا۔

Short URL: http://tinyurl.com/y8x54bvw
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *