بلدیاتی انتخابات سے احتراز کیوں ؟؟۔۔۔۔ تحریر: عمران طاہر

Imran Tahir
Print Friendly, PDF & Email

خبر یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے شیڈول برائے بلدیاتی انتخابات کی منظوری دیدی ہے جس کے مطابق وفاق میں 25جولائی جبکہ پنجاب اور سندھ میں20ستمبر، اور کے پی کے میں 30مئی کو بلدیاتی انتخابات منعقد ہو ں گے جب گزشتہ سال بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوا تو سیاسی حلقوں اورامیدواروں میں گہما گہمی کا ماحول پیدا ہو گیا امیدواروں نے اپنی سوچ اور نظریے کی حامی جماعتوں کے پینل سے کاغذات جمع کروائے اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشارہو کر میدان میں اُترے۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ قواعدو ضوابط کے مطابق انتخابات پر ایک خاص حد تک بجٹ کا استعمال تشہیرمہم کے لیے میٹریل کا سائز کو بھی قواعد و ضوابط میں خاص مقام دیا گیامعذرت کے ساتھ یہاں کوئی اپنے مائی باپ کی نہیں سنتا تو الیکشن کمیشن تو پھر دور کی بات ہے ۔بات الیکشن کی ہو رہی تھی ہر طرف اشتہارات، اسٹیکر،وال چاکنگ، اور فلیکسوں کی بھر مار تھی کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں کسی اُمیدوار کا پوسٹر چسپاں نہ ہوں، سرکاری عمارتوں، مساجد کی دیواریں بھی ان اشتہارات سے بچ نہ پائی ۔ گلی محلوں میں الیکشن ہال بن گئے اور برادریوں کے کٹھ اور کارنر میٹنگ شروع ہو گئی ۔ 30جنوری 2013کو الیکشن تھا دن قریب آتے گئے اورپھر حلقہ بندیاں نہ ہونے کے باعث الیکشن وقت سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ اور سارے کیے کرائے پر پانی پھر گیا !جمہوریت وہ ہوتی ہے جس میں عوام کو اُنکے مسائل،اور حقوق اُنکی دہلیز پر مہیا کر دیئے جاتے ہوں۔ جمہوریت وہ ہوتی ہے جس کے اندراقتدار کو نچلی سطح تک منتقل کیا جاتا ہے تاکہ عوام اپنے حلقے اپنی یوسی اور اپنی ٹاون کمیٹی میں رہتے ہوئے اپنے مسائل کو مقامی نمائندوں سے حل کروا سکے۔ یہ سب کچھ جس نظام کے تحت ہوتا ہے اُس نظام کو ہم بلدیاتی انتخابات کا نام دیتے ہیں۔ پی ایم ایل(ن) کو اقتدار میں آئے دو سال ہونے کو ہیں مگر ابھی تک بلدیاتی انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ چلو پی ایم ایل (ن) کو چھوڑ دیتے ہیں پی پی کی بات کر تے ہیں ۔ زرداری صاحب نے بھی کامیاب جمہوریت کے 5سال مکمل کیے مگر بلدیاتی انتخابات نہ کروائے؟آخر کیوں پی پی کے پاس کاکوئی جواب نہیں۔جبکہ جنرل ایوب خان کے دور 1959ضیاء الحق 1979اور مشرف نے 2000میں بلدیاتی انتخابات کروائے۔ اور اقتدار کو عام آدمی کی دہلیز پر پہنچا یا۔ میرے نزدیک ان تینوں ڈکٹیڑوں نے جمہوریت قائم کی۔ اور جمہوریت کے ان علمبردار سیاستدانوں نے جمہوریت کی بجائے ڈکیٹٹرشپ قائم کی ہوئی جس کا نام انہوں نے جمہوریت رکھ دیا ہوا ہے ۔ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے ۔بلدیاتی انتخابات سے جہاں گراس روٹ لیول پر سیاسی شعور کی فضاء پیدا ہوتی ہے تو وہاں نئی نسل کو ملکی سیاست میں آگئے بڑھنے اور پڑھے لکھے طبقے کو آگے آنا کا پلیٹ فارم بھی میسر آتا ہے ۔لیکن یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کے بلدیاتی انتخابات کے لیے مقررہ تعلیمی حد میٹرک ہے جو کے بہت تھوڑی ہے ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ اس تعلیم کو میٹرک سے بڑھا کر بی اے کیا جائے کیونکہ 5سال کے بعد ناظم اور نائب نا ظم صوبائی اسمبلیوں میں براجمان ہونے کے خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اورجائز اور ناجائز طریقوں سے اسمبلیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ ان 5سالوں میں عوام کو دھوکہ دہی، لین دین کے معاملات،بات سنانا سیکھ جاتے ہیں! مشرف کے دور میں ایم پی اے اور ایم ین اے کے لیے کم ازکم بی اے تعلیم لازمی قرار دی گئی مگر بعد ازاں وڈیروں اور جاگیر داروں نے اُسے ختم کروا دیا یہ ہی وجہ کے آج جعلی ڈگریوں والے اسمبلی میں اور پڑھے لکھے سڑکوں پر کھجل خراب ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد کو 1983میں ضلع کا درجہ ملا مگر تب سے وہاں الیکشن نہیں ہوئے اسکے علاوہ ملک میں گزشتہ9سال سے بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے جو کہ سیاستدانوں اور ملکی اداروں کی نہ اہلی کا ثبوت ہے اور آئین پاکستان کے ساتھ بھی ایک گھناؤنا مذاق!! بلدیاتی انتخابات کا بیڑہ تو اعلیٰ عدلیہ نے اُٹھا لیا ہے دیکھتے ہیں اب کی بار اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے !

Short URL: http://tinyurl.com/jxpye2o
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *