ایمان کی دولت ملنے پر اللہ تعالیٰ ملتا ہے۔

حافظ محمد صدیق مدنی
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: مولانا محمدصدیق مدنی، چمن
ایمان کی دولت نصیب ہوجانے پرانسان پر دو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں، ایک یہ ہے کہ انسان کا تعلق اپنے خالق حقیقی کے ساتھ اتنا مخلصانہ ہو کہ اس کا ہر عمل اسی کیلیے ہو،خواہ نماز ہویا روزہ،زکوٰۃہو یا حج وغیرہ۔ اگر ان اعمال میں اخلاص ہوگا تو پھر یہ اعمال صالحہ بن جائیں گے جو آدمی صالح اعمال اللہ رب العزت کی رضاء کیلیے کرتا ہے تو وہ صالح مسلمان ہے اور پھر وہ اللہ رب العزت کا محبوب بھی بن جاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : بے شک جو بندے ایمان لائیں اور عمل صالح والی زندگی گزاریں،بڑی رحمت والا پروردگار انہیں ضرور محبت سے نوازے گا۔ (سورۃ مریم) نہ صرف یہ کہ دنیا کی زندگی میں انہیں اللہ رب العزت کی محبت و محبوبیت کا مقام نصیب ہوگا،بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کے دلوں میں بھی ان کی محبت پیدا فرمائے گا۔ کسی بندے کیلیے اس دنیا میں اس سے بڑی نعمت اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس کے دل کو اللہ رب العزت کے محبت وتعلق کی دولت نصیب ہوجائے اور اللہ رب العزت اسے اپنی محبت کیلیے چن لے اور عام مخلوقات کے دلوں میں بھی اس کی محبت ومقبولیت پیدا کردی جائے۔
صرف مادی لذتوں اور برائیوں سے دل چسپی رکھنے والا انسان جو اپنی انسانیت کو کھو کر حیوانیت کی سطح پر آچکے ہیں، غالباً ان کے نزدیک تو دنیا کی بڑی نعمتیں صرف روپوں کے ڈھیراینٹوں اور پتھروں سے بنے ہوئے عالی شان محلات، طرح طرح کے مرغن کھانے بیش قیمت کپڑے اور قیمتی سواریاں ہوں گی،لیکن جو واقعی انسان ہیں، ان کے نزدیک ان عارضی چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں،ان کے ہاں تو سب سے بڑی دولت اللہ رب العزت کی محبت اور محبوبیت ہے۔
دنیا میں بہت سے ایسے نام سنے ہوں گے جنہیں دنیا والے محبت اور عظمت سے یاد کرتے ہیں اور تاریخ کے اوراق ایسی شخصیات کے اسمائے گرامی سے بھرے پڑیہیں۔ جن کانا م سنتے ہی انسان کے دل میں محبت اور احترام کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، آخر وہ کون سا عمل یا فعل تھا جن کے کرنے سے وہ شخصیات آج بھی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: جو بندہ صالح عمل والی زندگی گزارے خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان بھی ہو تو ہم ضرور اسے حیات طیبہ دیں گے اورآخرت میں اعمال حسنہ کا ان کے استحقاق سے بہت زیادہ اچھا صلہ عطا فرمائیں گے۔(سورۃ النحل)اس آیت میں عمل صالح والی زندگی پر حیات طیبہ کا وعدہ کیا گیا ہے، اس کا تعلق اس دنیا سے ہے اور وہ اللہ رب العزت کی محبت ومحبوبیت اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں مقبولیت کی وہی زندگی ہے جو اہل اللہ کو حاصل ہوتی ہے اور سروروکیف وہی جانتے ہیں جو اس محبت کی وادی میں قدم رکھ چکے ہیں۔
آج کل لوگ دنیا کی عارضی اور ناپائیدار زندگی پر انحصار کربیٹھے ہیں،دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں مبتلا کررکھا ہے۔ حالاں کہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں وضاحت فرمائی ہے کہ دنیا کی زندگی سے آخرت کی زندگی بہتر ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: لیکن تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، آخرت بہت بہتر اور بہت بقاء والی ہے۔ (سورۃ الاعلیٰ)
حضرت شفیق بلخی ؒ بہت بڑے ولی اللہ گزرے ہیں،ان کے ایک شاگرد حضرت حاتم اصم ؒ بھی بہت اللہ والے گزرے ہیں۔ ایک روز استاد نے شاگرد سے پوچھا کہ تم نے کتنا عرصہ میرے پاس گزارا ہے اور میرے ساتھ رہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا،کئی برس سے، حضرت شفیق بلخیؒ نے فرمایا، اتنے عرصے میں تم نے مجھ سے کیا سیکھا ہے؟ شاگرد حضرت حاتم اصم ؒ نے جواب دیا۔
آٹھ مسئلے سیکھے ہیں۔ انہوں نے کہا،اناللہ واناالیہ راجعون۔ اتنی طویل مدت میں صرف آٹھ مسئلے،یہ تو، تونے میرا اور اپنا وقت ضائع کیا ہے، حضرت حاتم اصم ؒ نے فرمایا: استاد محترم، میں جھوٹ نہیں بولتا۔اس سے زیادہ میں نے کچھ نہیں سیکھا۔ انہوں نے فرمایا، اچھا بتاوٰ،کون سے آٹھ مسئلے ہیں؟ حضرت حاتم اصم ؒ نے فرمایا: پہلا مسئلہ یہ کہ میں نے مخلوق خدا کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہر ایک شخص کا ایک محبوب ہے،جس سے وہ محبت رکھتا ہے اور وہ محبوب قبر تک اس کے ساتھ رہتا ہے۔ قبر میں جانے کے بعد اس سے جدا ہوجاتا ہے۔ میں نے ادھر آپ سے یہ سیکھا کہ محبوب صرف ایسی چیز کو بنانا چاہئے جس کی وفا صرف دنیا تک نہ ہو، بلکہ غیر محدود ہو، جس شئے کی وفا غیر محدود ہے،وہ نیکی اور عمل صالح ہیں۔
میں نے سارے محبوبوں کو چھوڑ کر صرف ایک محبوب بنالیا ہے اور وہ ہے اچھا عمل، قرآن کریم کی یہ آیت اس پر دلیل ہے، جو بندہ صالح عمل والی زندگی گزارے، خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان بھی ہو تو ہم ضرور اسے حیات طیبہ دیں گے اورآخرت میں اعمال حسنہ کا ان کے استحقاق سے بہت زیادہ اچھا صلہ عطاء فرمائیں گے۔(سورۃ النحل)حضرت شفیق بلخی ؒ نے کہا،بہت خوب اور کون سے مسئلے ہیں؟ پھر شاگرد حضرت حاتم اصم ؒ نے فرمایا: دوسرا مسئلہ یہ کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ جنت کی خواہش رکھتے ہیں اور جنت والے عمل نہیں کرتے، نفس اور خواہشات کی اتباع کرتے ہیں، میں نے آپ سے یہ سیکھا کہ جس کے دل میں خوفِ خدا ہو اور وہ نفس کی خواہشات سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہو، وہ جنتی ہے، تو میں نے نفس پر خواہشات ترک کرنے کی محنت کی تو اب میرا نفس خواہشات کے تابع نہیں، بلکہ حکم الٰہی کے تابع ہے۔ اس پر قرآن کریم میں یہ آیت دلیل ہے: اور جو آدمی اللہ کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے اور نفس کو خواہشات سے بچائے بس جنت اسی کا ٹھکانہ ہے۔(سورۃ النازعات)تیسرا مسئلہ یہ کہ میں نے اس جہاں میں دیکھا کہ جو چیز بھی ہے، وہ فانی ہے اور لوگ ان فانی چیزوں کیلیے محنت کرتے ہیں،مشقت برداشت کرتے ہیں،تکلیفیں اٹھاتے ہیں،مال جمع کرتے ہیں،اس کی حفاظت کرتے ہیں اور پھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، مجھے جو چیز میسر آئی،وہ میں نے اپنے پروردگار کیلیے چھوڑدی۔
کیو ں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: جو چیزیں تمہارے پاس ہیں،وہ فانی ہیں اور جو اللہ کے پاس ہیں وہ باقی ہیں (سورۃ النحل) تو میں نے فانی چیزوں پر باقی چیزوں کو ترجیح دی۔چوتھا مسئلہ یہ کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ ہر ایک کا میلان حسب ونسب اور شرافت کی طرف ہے، کوئی خاندان پر فخر کرتا ہے، کوئی قبیلے اور قوم پر، کوئی زبان ورنگ پر فخر کرتا ہے تو کوئی وطن اور دولت پر، میں نے ادھر یہ پڑھا کہ یہ چیزیں عزت وفخر کے قابل نہیں، کیوں کہ عزت وفخر کی چیز تو تقویٰ ہے، جو جتنا زیادہ متقی ہے، وہ اتنا زیادہ عزت مند ہے۔
میں نے اس پر عمل کرتے ہوئے دیگرچیزوں کو چھوڑدیا اور اب تقوٰی اختیار کرلیا،تاکہ اپنے رب کے ہاں عزت مند بن جاؤں۔ پانچواں مسئلہ یہ کہ میں نے خلقِ خدا کو دیکھا کہ وہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں، ایک دوسرے کو برا کہتے ہیں، بدگمانی کرتے ہیں، کوئی کسی کو برداشت نہیں کرتا، سب کے دل حسد سے بھرے ہوئے ہیں تو میں نیاللہ رب العزت کا یہ فرمان پڑھا: کیا آپ رب کی رحمت کو تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے ہی ان کی زندگانی،دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے۔ (سورۃ الزخرف)تو یہ سمجھا کہ یہ تقسیم اللہ پاک کے قبضہ قدرت میں ہے، تقسیم خداوندی پر ناراض ہونا اللہ پاک کے معاملات میں مداخلت اور اس پر اعتراض کرنا ہے، تقسیم خداوندی پرناراض ہونا خود خدا پر ناراض ہونا ہے، اس لئے میں نے حسد کی بیماری کو دل سے نکال دیا اور خلق خدا کے ساتھ عداوت اور ان سے نفرت ترک کردی۔
اب میرے دل میں اپنے ہرمسلمان بھائی کے لیے محبت ہے۔ چھٹا مسئلہ یہ کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ ایک دوسرے کیساتھ جھگڑتے ہیں، لڑائی کرتے ہیں، دشمنی کرتے ہیں،سرکشی اور خون بہاتے ہیں۔ میں نے آپ سے پوچھا کہ ہمارا دشمن کون ہے؟ جو ہمیں آپس میں لڑاتا ہے تو آپ نے بتایا کہ یہ ساری کاروائیاں شیطان کی ہیں جو ہمارا ابدی دشمن ہے۔ اس پر دلیل قرآنی یہ ہے، شیطان تمہارا دشمن ہے،پس تم بھی اسیاپنا دشمن جانو۔ (سورۃ الفاطر)تو میں نے اب انسانوں سے دشمنی ترک کردی۔ شیطان کو اپنا دشمن بنالیا۔ اب شیطان کے سوا میرا کوئی دشمن نہیں۔
ساتواں مسئلہ یہ ہے کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ روٹی کے ٹکڑے کیلیے اور روزی کیلیے مارے مارے پھرتے ہیں اور اپنے نفس کو ذلیل کرتے ہیں،وہ کام کر گزرتے ہیں جو ان کیلییجائز نہیں ہوتا۔ میں نے آپ سے پوچھا کہ جب اللہ پاک نے مخلوق پیدا کی ہے تو اس کے رزق کا ذمہ نہیں اٹھایا؟ آپ نے بتایا،اللہ پاک نے جتنی مخلوق پیدا کی ہے، سب کے رزق کا بندوبست کیا ہے اور اس پر دلیل قرآنی یہ ہے: اور زمین پرچلنے پھرنے والے جتنے جان دار ہیں، سب کی روزیاں اللہ پر ہیں۔ (سورہ? ھود) تو میں نے یہ یقین کرلیا کہ میں بھی ان حیوانات میں سے ہوں،جن کے رزق کا ذمہ اللہ پاک نے اٹھا یا ہے، میں نے اب رزق کیلیے دوڑدھوپ ترک کردی اور اللہ پاک کی یاد اور حقوق ادا کرنے کی طرف متوجہ ہوگیا۔
آٹھواں مسئلہ یہ ہے کہ میں نے مخلوق خدا کو دیکھا تو ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی چیز پر اعتماد اور بھروسا کیے بیٹھا ہے،کوئی نوکری اور ملازمت پر، کوئی کاروبار اور تجارت پر،اور کوئی مال و دولت پر، غرض یہ ہے کہ ہر فانی چیز پر اعتماد کئے ہوئے ہیں، میں نے ادھر یہ سیکھا کہ اعتماد کے قابل صرف اور صرف ایک ذات ہے اور وہ ہے خالق کائنات اور اس پر دلیل اللہ پاک کا یہ ارشاد ہے :جو اللہ پر توکل کرتا ہے،اللہ اس کیلیے کافی ہے۔ (سورۃ الطلاق)
حضرت شفیق بلخیؒ نے جب یہ مسائل اپنے شاگرد سے سنے تو فرمایا تو کہا کہ یہ مسائل قرآن مجید کا نچوڑ ہیں، بس ان مسائل پر عمل کیجئے۔دونوں جہانوں میں کامیاب ہوجائیں گے۔ قارئین کرام، اپنا اپنا امتحان لیجئے،جانچ کر دیکھ لیجئے کہ مال ودولت اور دنیوی مشاغل میں آپ سے آخرت ترک ہوتی ہے یا نہیں؟اگر ترک ہوتی ہے توایسی دنیا سے بچنا چاہئے، اگر ترک نہیں ہوتی تو وہ حال ہے،جیساکہ شیخ شیرازی ؒ فرماتے ہیں: اگر مال وزر اور تجارت کے مشاغل ہیں اور دل خدا کے ساتھ ہیں تو یہ خلوت نشینی ہے۔ غرض دنیا کو دل سے نکالئے۔
ایک اچھی مثال دی ہے۔ پانی اگر کشتی کے نیچے ہو تو اس کے جاری ہونے کا سبب ہے، اگر وہ نہ ہو تو چل نہیں سکتی اور جو کشتی کے اندر پہنچ جائے تو کشتی غرق ہوجائے گی مال کی مثال پانی کی سی ہے، اگر دل سے باہر رہے تو دین میں معاون و مدگار ہے اوراگر دل میں گھس جائے توباعث ہلاکت ہے

Short URL: http://tinyurl.com/ya7q45cr
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *