انٹرنیٹ کی شادیاں اور خادمِ اعلیٰ پنجاب۔۔۔۔ تحریر: سید صادق حسین شاہ

Syed Sadiq Hussain Shah
Print Friendly, PDF & Email

موبائل فون اور انٹر نیٹ کی بدولت جہاں لوگوں کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا ہوئی ہیں، وہاں کثرت استعمال اور مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان طبقہ بالخصوص اخلاقی پستی کی طرف گامزن دکھائی دیتاہے۔
عام طبقے کے اکثر والدین دن بھر روزی روٹی کے چکر میں سرگرداں رہتے ہیں، لہٰذا ان کے پاس اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ وہ اپنی اولاد کی مکمل نگرانی کر سکیں۔
وہ اس بات سے قطعی ناواقف ہوتے ہیں کہ ان کے بچے تعلیمی اداروں میں کس طرح کی تعلیم و تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ موبائل انٹرنیٹ کی سہولت کا منفی یا مثبت استعمال کرتے ہیں۔ ان کے لائف سٹائل اور سرگرمیوں میں گیر معمولی تبدیلی کیونکر رونما ہوئی ہے؟
کشیدگی سے بچنے کے لیے اکثر مائیں اولاد کی لغزشوں پر پردہ ڈالتی ہیں۔ جن کا ناسمجھ بچے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے ابتدائی مرحلے پر اولاد کی مناسب کانٹ چھانٹ کردی جائے توآنے والی خرابی کو خاصی حد تک روکا جاسکتاہے۔
جو بچے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہے ہوتے ہیں، ان کے پاس تمام بنیادی سہولیات یعنی سواری، جیب خرچ، موبائل موجود ہوں اور اوپر سے والدین کا اندھا اعتماد بھی شامل حال رہے تو پٹڑی سے اترتے ہوئے زیادہ دیر نہیں لگتی۔
نوجوان جذبات میں آکر ایسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں جس کے اثرات خاندان کی مجموعی ساکھ کو بری طرح مسخ کرکے رکھ دیتے ہیں۔ ان کو اس بات کا قطعی احساس نہیں ہوتا کہ ہمارے اباؤ اجداد نے برسوں کی ریاضت کے بعد سماج میں جو مقام حاصل کیاہے، وہ تو پل دو پل میں غارت ہو جائے گا۔
انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بچوں کی نگرانی نہ کی جائے تو یہ تو آتشیں اسلحہ سے بھی زیادہ خطرناک ہتھیار ثابت ہوتاہے۔ یعنی چوبیس گھنٹے ہاتھ کے لمس کامنتظر رہتاہے، اسلحہ تو الماری میں رہتا ہے ، یہ تو بستر میں بھی ہرکسی کے ساتھ ہوتاہے۔
انٹرنیٹ کے ذریعے روابط ، محبت، فرار اور پھر شادی ۔ اس طرح کے واقعات آج کل کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ کثرت سے وقوع پذیر ہورہے ہیں۔
ضلع میانوالی جو کہ ایک قبائلی معاشرہ تصور کیا جاتاہے۔ یہاں اس قسم کی خود سری کو بغاوت کہا جاتاہے اور اس کی سزا موت ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود انٹرنیٹ کے ذریعے رابطے کے بعد گھروں سے فرار ہونے کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں۔
سماجی ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اجتماعیت کے بجائے انفرادیت کی بنیاد پر سبقت لے جانے کی دوڑ عروج پر ہے۔ اس لیے کسی کے پاس معاشرے کی بھلائی کے متعلق وسوچنے کا وقت ہی نہیں ہے۔
انٹر نیٹ کی خرابیوں کا ایک تازہ واقعہ جو گزشتہ چند ماہ سے زبانِ زدِ خاص و عام ہے کا تذکرہ کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ باقی والدین اس سے سبق سیکھیں اور اپنی عزتوں کو رسوا ہونے سے بچائیں۔
29 دسمبر 2014 ء کو تھانہ سچل میں سید محبوب علی شاہ نے ایک ایف آئی آر درج کرائی کہ میری بیٹی نادیہ جس کی عمر تقریباََ پندرہ سولہ سال ہے ، سات دسمبر کو اپنی بہن کو ملنے کے لیے عبداللہ شاہ گوٹھ آئی اور شام کو گھر واپس نہیں پہنچی۔ اس کے زیرِاستعمال دونوں نمبروں پر رابطہ کرنے کے باوجود جواب موصول نہیں ہو رہا، ہمیں خدشہ ہے کہ اسے اغوا کر لیاگیاہے۔
چند دن بعد مذکورہ لڑکی نے نذر عباس سکنہ ماڑی ضلع میانوالی کے نام رجسٹر موبائل سم سے اپنے اہلِ خانہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے ہوم ڈیپارٹمنٹ سندھ سے رجوع کیا۔
سات جنوری دوہزار پندرہ کو ہوم ڈیپارٹمنٹ سندھ نے سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب کو ایک خط لکھا جس میں پنجاب پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے مدد طلب کی گئی۔ موبائل سم سے حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں سندھ پولیس تھانہ کالاباغ پہنچ گئی۔ اور نذر عباس کو گرفتار کرلیا۔
دورانِ تفتیش نذر عباس نے بتایاکہ میری غیر موجودگی میں میرا بھانجا وسیم عباس جو کہ ایک نجی کمپنی میں بطور مزدور کام کرتاہے، استعمال کرتا رہاہے۔ مذکورہ سم کے ذریعے وسیم عباس نے لڑکی کو لاہور بلایا اور پھر اسے اپنے آبائی گاؤں ماڑی انڈس لے آیا۔ یہاں خلیل الرحمن ایڈووکیٹ ، قلب عباس نے دونوں کا عدلاتی نکاح کرا دیا۔ کالاباغ کے ایک گھر میں لڑکی کی اپنے والدین سے ملاقات کرائی گئی اور اسی رات میاں بیوی وہاں قیام پذیر رہے۔ کچھ روز کے لیے میرا شریف بھی گئے۔ والدین سے ملاقات کے بعد لڑکی واپس جانے پر رضامند ہوگئی۔ والدین اسے پانے ساتھ لے کر جارہے تھے کہ پولیس نے دوبارہ درہ تنگ چیک پوسٹ سے حراست میں لے لیا۔
گلاب چن اے ایس آئی نے 27 جنوری 2015ء کو رانا عبدالجبار مجسٹریٹ دفعہ 30 کی عدالت میں لڑکی کو بیان دینے کے لیے پیش کیا۔ لڑکی والدین کے پاس جانے کی خواہش مند تھی لیکن کوئی آدمی اسے زندگی کی ضمانت دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔
لڑکی ماڑی انڈس آئی تو اس پر بہت سے حقائق آشکارا ہوئے۔ جیساکہ لڑکے کا والد ریلوے میں ادنیٰ درجے کا ملازم ہے۔ لڑکا واجبی تعلیم کا حامل اور کمپنی میں مزدوری کرتاہے۔لڑکے نے اپنا حسب نسب بھی غلط بیان کررکھا تھا۔ لڑکی ایک معزز سید خاندان سے تعلق رکھتی ہے جبکہ لڑکے کا حسب نسب علاقے میں بہت نچلے درجے کا شمار ہوتاہے۔ لڑکے نے اپنا مذہبی نقطہ نظر بھی غلط بیان رکھاتھا۔ دونوں خاندانوں کے سماجی مرتبے میں بہت زیادہ تفاوت پایا گیا۔
یہ بات درست ہے کہ اسلام شادی کے معاملے میں لڑکی کی رائے کو اہمیت دیتاہے لیکن ساتھ ساتھ ایسی بے جوڑ شادیوں کی بھی حوصلہ شکنی کرتاہے جس کے باعث معاشرے میں فساد پھیلنے کا خدشہ ہو۔
لڑکی کے ورثا چار ماہ سے ضلع میانوالی کے تقریباََ تمام بااثر لوگوں کے دروازے پر جاکر اپنی عزت کی بھیک مانگ چکے ہیں لیکن تاحال ان کے زخموں پرکہیں سے مرہم نہیں رکھی گئی۔ البتہ ایک طبقہ شدو مد کے ساتھ ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہاہے ۔ گویا ایک طرح سے تماشا لگا ہواہے۔ ہر روز نئی پارٹی مسئلے کا حل نکالنے کے لیے میدان میں آتی ہے۔
ذرا غور کریں کوئی بھی عزت دار آدمی جس کی اپنے علاقے میں اچھی خاصی شہرت ہو، دیارِ غیر میں بیٹھ کر اپنے سامنے عزت کو رسوا ہوتے دیکھے اور اس قدر بے بس ہوجائے کہ ہر ایرا غیرا اسے اپنا مسیحا نظر آئے۔
لڑکے کے حمایتیوں سے ایک سوال ہے کہ اگر ناسمجھی میں آکر ان کی بیٹی اس طرح کی حرکت کر بیٹھے تو وہ خود کیا کچھ کر گزریں گے۔ بے جوڑ شادیوں کو اپنی فتح قرار دینے والے لاچار والدین کو بند گلی میں لے جانے کے بجائے ان کے دکھوں کا کوئی مناسب حل تلاش کریں۔ یہ مصیبت تو کسی کے دروازے پر بھی دستک دے سکتی ہے۔ والدین کے لاڈ پیار کا ناجائز فائدہ اُٹھانے والی ناسمجھ اولاد تو کسی کو بھی دھوکہ دے سکتی ہے۔ غلط فہمی میں نہ رہیں، اس مسئلے کو اب منطقی انجام تک پہنچ جانا چاہیے۔ لڑکے کی غلط بیانی اور دھوکہ دہی کی جواب طلبی بھی ضرور ہونی چاہیے۔
کچھ عرصہ قبل کچھ تندرخیل کا رہائشی ایک نوجوان جو کہ الہور گڈز اڈا پر مزدوری کرتا تھا، ایک مقامی امام مسجد کی بیٹی کو ورغلا کر گاؤں لے آیا۔ امام مسجد نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے اپنی عزت کی بھیک مانگی، چوبیس گھنٹوں کے اندر لڑکی کچھ تندر خیل سے لاہور پہنچا دی گئی۔ مثال تو موجود ہے۔ میاں شہباز شریف خادم اعلیٰ پنجاب سے توقع ہے کہ وہ اس بار بھی ایک دکھی والدین کی فریاد سن کر سندھ کی بیٹی کو اپنی سرزمین پر واپس بھیجنے کا فوراََ انتظام کریں گے ورنہ ایک عزت دار کی عزت کا تماشا سرِبازار لگایا جاتا رہے گا۔

Short URL: http://tinyurl.com/z6d76ob
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *