امریکی فوج کے انخلاء کے بعد ؟

asif-khurshid-rana
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: آصف خورشید رانا، اسلام آباد
طالبان اور امریکہ کا کسی امن معاہدے پر متفق ہونا جنوبی ایشیا کے خطے کے لیے نہایت اہم ہے ۔ رواں سال کی شاید یہ سب سے خوشخبری بن سکتی ہے اگر دونوں فریقین کسی واقعی ایک ایسے معاہدے پر متفق ہوجاتے ہوں جس میں امن کی بحالی اور افغانستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے کوئی ٹھوس اور قابل عمل منصوبہ موجود ہو۔ فی الحال راوی اس سلسلہ میں مثبت پیش رفت لکھ رہا ہے لیکن شاید اس سارے عمل میں ابھی بہت سی پیچیدہ رکاوٹیں موجود ہیں ۔امریکہ کی جانب سے ڈیڑھ سال میں اپنی فوجوں کی باعزت واپسی پر رضامندہونا طالبان کی ایک بڑی فتح ہے جبکہ دوسری طرف امریکہ بھی یہی دعویٰ کرتا نظر آرہا ہے کہ طالبان کی جانب سے افغان سرزمین کو بیرونی حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے کی ضمانت دینا ان کی بڑی کامیابی ہے اور یہی ان کا مقصد تھا ۔ سترہ سال کی جنگ کے بعد اگر امریکہ کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ وہ بزور قوت اور ٹیکنالوجی یہ جنگ جیتنے کی بجائے ہار چکا ہے اور اس جنگ کی وجہ سے جہاں اس کی معیشت کو بڑا دھچکہ لگا وہاں اس کے فوج اور عوام کا مورال بھی مسلسل گر رہا ہے تو یہ طالبان کی واقعی بڑی کامیابی ہے۔ اس سارے منظرنامے میں جہاں علاقائی طاقتوں مثلاً چین ، روس کا کردار خاصا اہم رہا ہے وہاں پاکستان اورایران کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان نے جوکردار ادا کیا ہے اس کی بدولت شاید امریکہ پاکستان کے تعلقات میں خاصی حد تک بہتری آ سکتی ہے جبکہ فی الحال اس میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کے اس کردار کو ماضی کے برعکس خاصی اہمیت دی جارہی ہے ۔ سعودی عرب ، قطر اور یو اے ای کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات میں ان ممالک نے جو مثبت کردار ادا کیا ہے اس سے بھی یقینی طور پر یاد رکھا جائے گا ۔ تاہم ان سب کے باوجودطالبان کی شدید مخالفت کے باعث کابل انتظامیہ کو امن مذاکرات سے دور رکھا جارہا ہے جس کی وجہ سے امن مذاکرات کے قابل عمل ہونے میں کئی قسم کے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں ۔
کابل انتظامیہ اگرچہ مذاکرات کی مخالفت نہیں کر رہی تاہم اس کے باوجود گاہے بگاہے اپنے تحفظات کا اظہار ضرور کرتی رہتی ہے ۔امریکی کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد جو مسلسل افغان امن عمل میں متحرک نظر آرہے ہیں دوحہ میں چھ روزہ مذاکرات کے بعدکابل پہنچ کرکابل انتظامیہ کو اعتماد میں لے چکے ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ حتمی مرحلہ میں طالبان کو اشرف غنی حکومت کے ساتھ بیٹھنے پر راضی کیا جا سکے گا ۔ اتوار کو اشرف غنی کے ویڈیو پیغام سے محسوس یہ ہو رہا ہے کہ کابل انتظامیہ طالبان کے براہ راست مذاکرات پر کافی نالاں نظر آتی ہے ۔طالبان کی طرف سے جنگ بندی کی شرط ماننے پر ابھی تک کوئی متفقہ فیصلہ نہیں ہو سکا ۔ طالبان کے نمائندے جہاں پرامید ہیں کہ امریکہ اپنی فوجیں نکالنے کے لیے سنجیدہ ہو چکا ہے وہاں وہ جنگ بندی کے لیے تمام بیرونی فوجوں کے انخلاء کی کڑی شرائط عاید کرتے ہیں۔طالبان اور امریکہ کے متفقہ معاہدے کے باوجو د ابھی تک امریکی فوج کے انخلاء کا منظرنامہ کافی دھندلا نظر آرہا ہے ۔ امریکہ نمائندہ کا کہنا ہے کہ بنیادی معاملات طے پا چکے ہیں تاہم جزئیات باقی ہیں جبکہ حقیقت ہے کہ ابھی تک بنیادی معاملات پر بھی کسی قسم کیپیش رفت نظر نہیں آئی ۔ یہی وجہ ہے کہ تجزیہ نگار امریکی فوج کے انخلاء کے بعد ایک بار پھر خانہ جنگی کے بڑے محاذ کی پیشین گوئی کررہے ہیں ۔ اس وقت دو محاذوں پر مختلف چیلنجز کا سامنا ہے ۔ سیاسی محاذ پر عبوری حکومت کے قیام کا چیلنج ہے کیونکہ اس کے بغیر سیاسی تشکیل ناممکن نظر آتی ہے۔ طالبان عبور ی حکومت میں نہ صرف شمولیت چاہتے ہیں بلکہ کسی اعلیٰ عہدے پر بھی نمائندگی چاہتے ہیں تاکہ مشکل فیصلوں میں وہ اپنا اختیار استعمال کر سکیں دوسری جانب کابل انتظامیہ کا کسی بھی عبوری حکومت کے لیے تیار ہونا مشکل نظر آرہا ہے ۔ اس موقع پر کابل انتظامیہ ایک مشکل دوراہے پر کھڑی نظر آتی ہے ۔عبوری حکومت میں اشرف غنی کا کردار کیا ہو گا اس کے لیے بھی دونوں فریقین کا متفق ہونا مشکل نظر آرہا ہے کیونکہ طالبان اشرف غنی کو ایک ’’کٹھ پتلی ‘‘ صدر قرار دے چکے ہیں ۔ سیاسی تشکیل کیا ہو گی اس کے لیے طالبان کو اشرف غنی سے بات کرنا پڑے گی ۔ دونوں فریقین کے اس عمل پر متفق نہ ہونے کی صورت میں پھر سے بڑے پیمانے پر خانہ جنگی کا آغاز ہو سکتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کابل انتظامیہ کی عملداری کابل سے باہر بہت کم حصوں پر موجود ہے جبکہ طالبان تقریبا نصف افغانستان پر کنٹرول رکھتے ہیں ۔ اسی طرح سابق جنگجو اور افغان رہنما حکمت یار بھی اس وقت کابل انتظامیہ کا حصہ ہیں ۔ وہ اس سارے منظرنامہ سے غائب ہیں تاہم عبوری حکومت کی تشکیل کے موقع پر وہ کسی صورت بھی اس عمل سے دور نہیں رہ سکیں گے ۔ اس لیے عالمی تجزیہ نگار یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیاکابل انتظامیہ کی مذاکرات میں عدم شمولیت کسی نئے سیاسی بحران کو جنم دے سکتی ہے جس کا لازمی نتیجہ فساد کی شکل میں نکل سکتا ہے ۔
امن مذاکرات کے لیے دوسرا بڑا چیلنج امن و امان کے برقرار رکھنے کا ہے ۔امریکہ کا یہ دعویٰ ہے کہ طالبان انہیں یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ القاعدہ یا داعش کو امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف حملوں کے لیے افغان سرزمین کو استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا ۔القاعدہ کا وجود شاید اب افغانستان میں موجود نہیں اس کے اکثر اراکین یا تو مارے جا چکے ہیں یا پھر وہ داعش میں جا چکے ہیں ۔ البتہ داعش کی موجودگی صرف کابل انتظامیہ کے لیے ہی نہیں بلکہ پاکستان سمیت دیگر ملکوں کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ طالبان سیاسی یا نظریاتی لحاظ سے داعش پر اثر ورسوخ نہیں رکھتے جبکہ کئی مقامات پر داعش اور طالبان بھی ایک دوسرے سے برسر پیکار رہ چکے ہیں ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فی الحال طالبان داعش کی جانب سے گارنٹی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ دوسری جانب افغان نیشنل پولیس بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھ سکے ۔ افغان صدر اشرف غنی یہ اقرار کر چکے ہیں کہ 2014سے اب تک 45ہزار سے زائد افغان نیشل آرمی یا پولیس کے لوگ مارے جا چکے ہیں ۔یہ اعدادوشمار اس وقت کے ہیں جب امریکہ اور نیٹو کی فورسز افغانستان میں موجود ہیں لیکن ان کے انخلاء کے بعد صورتحال کی سنگینی ان اعدادو شمار سے کی جا سکتی ہے ۔18ماہ کے عرصہ میں اگر واقعی امریکہ سمیت تمام غیر ملکی افواج کا انخلاء ہو جاتا ہے تو کیاملکی سیکورٹی فورسز افغانستان میں موجود وار لارڈز کے ساتھ ساتھ داعش کے حملوں کو روک سکیں گے ؟ اس سوال کا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں ہے ۔ اس کا واحد حل جو نظر آتا ہے جس پر کابل انتظامیہ اور طالبان کو بھی راضی ہونا چاہیے وہ علاقائی امن فورس کا قیام ہے ۔روس ، چین ، پاکستان اور ایران سمیت گلف ریاستیں اور وسطی ایشیائی ریاستیں اس سارے عمل میں مثبت کردار ادا کرنے کی خواہاں ہیں ۔ اس لیے اگر متفقہ طور پرروس ، چین ، پاکستان اور دیگر علاقائی ممالک کی امن فورس کچھ عرصہ کے لیے افغانستان میں قیام کر لے تو یہ خطہ کے لیے انتہائی مثبت اقدام ہو گا ۔
امید کی جارہی ہے کہ آئندہ فروری کے آخری ہفتہ میں دوحہ مذاکرات کا اگلا راؤنڈ شروع ہو جائے گا۔ اگر کابل انتظامیہ اس مذاکرات کا حصہ بن جاتی ہیں تو شاید کوئی سیاسی تشکیل کا فارمولا بھی طے پائے جائے تاہم فی الحال اس کا انتظار ہی کیا جا سکتا ہے ۔اسی طرح پانچ فروری کو ایک اور بیٹھک ہونے جارہی ہے جس کی میزبانی روس کر رہا ہے ۔ اس بیٹھک میں روس ، چین ، پاکستان سمیت دیگر علاقائی ممالک افغانستان میں امن عمل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں گے ۔ جس طرح جنوبی ایشیا میں گزشتہ صدی کا بڑا واقعہ افغانستان سے روس کا انخلاء اور امریکہ کی افغانستان آمد قرار پایا تھا اس صدی کا بڑاسبق یہ ہو گا کہ سترہ سال کی اس جنگ میں افغان قوم نے ایک اور سپر پاور کو باہر نکلنے پر مجبور کر دیا ۔ 

Short URL: http://tinyurl.com/y3f4ajo6
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *