آخر کب تک؟۔۔۔۔ تحریر: فرحین ریاض ، کراچی

Farheen Riaz
Print Friendly, PDF & Email

دورِ حاضر کی طرزِ زندگی نے جہاں انسان کے لئے بے شمار آسائشیں اور آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں پر لا تعداد امراض کو بھی انسانیت پر مسلط کیا ہے جوں جوں انسان فطرت سے رو گردانی کرتا جا رہا ہے اسکی مصنوعی زندگی میں نت نئے جسمانی وذہنی عوارض اپنی خطرناک اور خوفناک علامت کے ساتھ حملہ آور ہو رہے ہیں بہت مشہور کہاوت ہے کہ صحت دولت ہے اور یہ سچ بھی ہے کسی شخص کی اگر صحت چلی جاتی ہے تو اُسکا سب کچھ کھو جاتا ہے انسان کی مادی ترقی کے ساتھ ساتھ جہاں نئی نئی ایجادات اور سائنس و ٹیکنا لوجی کی نئی راہیں وا ہوئی ہیں وہاں گھمبیر مسائل اور امراض نے بھی جنم لیا ہے جن میں ہوا ،پانی و غذا میں آلودگی اور طرز رہائش میں تبدیلی سر فہرست ہیں اور یہ کئی امراض کا پیش خیمہ ثابت ہورہے ہیں؟آج کل تو فائرنگ اور بم دھماکوں نے انسانی جان کو بے مول کردیا ہے مگر اس کے علاوہ بھی ان کے مرنے کا سبب کیا ہے… ؟بعض امراض ایسے ایسے مشکل و پیچیدہ ہیں کہ باوجود یہ کہ انسان سائنس کی مدد سے طبی مسائل کو بہت حد تک سُلجھا چکا ہے مگربہت سے امراض کے بارے میں ابھی تک تحقیق جاری ہے ،لیکن اب دنیا میں تحقیق نے ایک نیا رُخ اختیار کیا ہے کہ یہ وجہ معلوم کی جائیں کہ سب سے زیادہ اموات کس وجہ سے ہو رہی ہیں ؟ تاکہ باقی انسان اُس تحقیق سے فائدہ اُٹھائیں۔دنیا بھر میں ساڑھے5کروڑ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ، ترقی پذیر ملک میں بھی اکثر موت کی وجہ معلوم نہیں ہوپاتیں ، سائنسدان یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر انسان کی اموات کے زیادہ اسباب کیا ہیں ؟ اس کے علاوہ ان سب کے ذمہ دار یہ حکمران بھی ہیں جو صرف اپنی غرض سے عوام کو الو بنا کر ان کو صرف لوٹتے رہتے ہیں ،ہمارے حکمران بے شک ان سب میں کان نہ دھریں اور ان رپورٹس کو بھی دھرنوں کے کھاتے میں ڈال کر خود بری الزمہ ہوجائیں مگر ان روحوں کو کیا جواب دیں گے جو ان سے قیامت کے دن گریبان پکڑ کر اپناجرم پوچھیں گی ، حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو صاف پانی ،اچھی غذا، مناسب ماحول اور صحت کی تمام سہولتیں فراہم کریں ۔ مگر ان حکمرانوں کو کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،اسپتالوں میں نامناسب سہولتیں ان کی حالتِ زار بیاں کرتی نظر آتی ہیں ، گنتی کہ افراد میں ہی خلقِ خدا ہے باقی سب بے حس ہوگئے ہیں ،یہاں تو یہ حال ہے کہ کوئی بچہ بھی اگرآخری سانسیں لے رہا ہوتاہے، تب بھی یہ بے حسی کی چادر میں لپٹ جاتے ہیں ماں باپ کی دہائیاں ، التجا ئیں ،فریاد سب بے کار ہوجاتی ہیں اور وہ کلی کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتی ہے،
حکماء کا قول ہے کہ ہماری صحت ویسی ہی ہو گی جیسی ہماری غذا ہو گی ، اس مقولے کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ ہم اپنے لئے جس قسم کی غذا کا انتخاب کریں گے صحت بھی اُسی مناسبت سے ہوگی غذا کا مطلب ہے کہ ہمارے پورے جسم کو ضروری غذائیت ملنی چاہیے ،آج اچھی غذا کی تعریف غذائیت سے زیادہ لذت نے لے لی ہے، اب لوگ زیادہ تر گھروں میں کھانے کے بجائے ہوٹلوں میں کھانا ،کھانا پسند کرتے ہیں اسی لیے آج کل جگہ جگہ فوڈ اسٹریٹ کی بھرمار نظر آتی ہے، یہ لوگ انسان کی نفسیات کو بہت اچھی طرح سے سمجھتے ہیں ، جبھی چٹپٹاکھانا لوگوں کے ذائقوں کو مدنظر رکھ کر تیار کیا جاتا ہے ، ظاہر ہے کہ اس میں ان کا منافع سب سے زیادہ ہوتا ہے یہ لوگ سستی اور غیرمعیاری اشیاء کا استعمال کرتے ہیں جس سے مختلف بیماریاں جنم لے رہی ہیں ہماری کارکردگی کا دارو مدار ہمارے جسم کے نظامِ مدافعت پر ہے اس کا بہتر ہونا ہماری جسمانی صحت و تندرستی کا سبب ہے سخت محنت اور بیرونی اور اندرونی ماحول کی وجہ سے جسم بیمار ہوجاتا ہے جس طرح جسم اور روح کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے متوازن خوراک کی ضرورت ہے بالکل اُسی طرح جسم کی صحت کو بر قرار رکھنے کے لیے ادویات کا تعلق بھی بہت گہرا اور اہم ہے ، آج کل کے اس دور میں جہاں زندگی بے مول ہوگئی ہے وہاں انسان اپنی زندگی کی حفاظت کے لیے ان ادویات کا مرہوںِ منت ہے ، ادویات کی فراہمی حکومتِ وقت کی بہت بڑی ذمہ داری ہے جو وہ باقی ضرورتوں کی طرح پورا نہیں کررہی، ملٹی نیشنل کمپنوں کے ساتھ مل کر دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کے مجرم بن گئے ہیں ، ہر حکومت کے بنیادی فرائض میں دو فرائض لازمی شامل ہیں
۱۔ عوام کو سستی تعلیم، ۲۔ عام سہولیتں کی فراہمی جو صحت کے نظام کو بہتر بنا سکیں جس سے ریاست کا ہر فرد مستفید ہوسکے قومی بجٹ میں صحت اور تعلیم کے لیے ایک بڑا بجٹ وقف کر دیا جاتا ہے مگر اس کا استعمال کہیں نظر نہیں آتا جو بھی حکومت آتی ہے وہ اپنا ذاتی مفاد دیکھ کے کام کرتی ہیں باقی تمام ممالک میں تعلیم اور صحت کی مفت سہولیات عوام کو ملتی ہیں مگر ہمارے ملک میں ان دونوں چیزوں کا بہت فقدان ہے ان بنیادی ضرورتوں سے عوام کو یکسر فراموش کر دیا ہے ایک غریب انسان کے کھانے کو نہیں ہوتا اس کے بچے بھوک سے بے حال ہوتے ہیں ایسے میں عام آدمی کتنا بے بس اور لاچار ہے پھر اگر بیمار ہوجائے یا تو وہ بیماری نظر انداز کر دیتا ہے یا کسی گندے ا سرکاری سپتال میں سسک سسک کے مر جاتا ہے غریبوں کے لیے سرکاری ہسپتال اور امیروں کے لیے پرائیویٹ ہاسپٹل ، سرکاری ہسپتال کی حالتِ زار کسی سے چھپی نہیں مگر یہاں پوچھنے والا کون ہے کوئی مرے یا جئے ؟ دواؤں کی ہوش افزاوں قیمتیں اس وقت عام شہری اور خواتین کے لیے کتنی بڑی پریشانی ہیں اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جومحنت سے کماتا ہے آج کل کھانا کم کھاؤ مگر دوائیں ضرور کھاؤ کیونکہ انسان کو نت نئی بیماریوں نے ایسے جکڑ لیا ہے کہ اب خداناخواستہ موت ہی اس کو چھڑوا سکتی ہے ،ہے تو تلخ مگر حقیقت اب یہی ہیکتنے بچے اسپتال کی مناسب سہولتیں نہ ملنے کے سبب موت کے منہ میں چلے گئے ،خبر نشر ہوتی ہے کہ وینٹیلیٹر خراب، بجلی کی فراہمی معطل جس کی وجہ سے بچے زندگی سے ہی ناطہ توڑ لیتے ہیں کتنے ماؤں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیا ہوگا ، کتنے باپ نے اپنے بازو ڈھلتے دیکھے ہوں گے مگر یہاں اب کوئی انسان ایسا نہیں جو دردِ دل رکھ سکے جب کسی انسان کو منا سب سہولتیں نہیں ملیں گی تو وہ بیماریوں میں ہی مبتلا ہوگا ، کم سے کم عوام کو سہولتیں تو دو صرف ووٹ لینے کے وقت عوام کی یاد ستاتی تڑپاتی ہے یہ حکمران ہمیں میٹرو بس، لیپ ٹاپ پکڑا کر سمجھتے ہیں کہ عوام اندھی ہے کالی پیلی ٹیکسی کی کہانی سب کے سامنے ہے عوام کو صحت ، تعلیم اور مناسب سہولتیں ہی دے دو تاکہ وہ صحت مند سانس تو لیں سکیں ، پڑھ لکھ کرخود ہی کما لیں گے ، انھیں ان کی وہ معمولی ضرورتیں تو پوری کرو جو ان کا حق ہے انہیں کالی پیلی ٹیکسی نہیں سرکاری اسپتال چاہیں ، صحت مراکز میں مفت دوائیں چاہیں ، سرکاری اسپتال میں سہولتیں چاہیں ، سرکاری تعلیم اداروں میں کچھ دو نہ دو کم سے کم تعلیم ہی دے دو جو ان غریبوں کا حق ہے ، اخبارات اور میڈیا میں بڑے بڑے اشتہارات آجاتے ہیں کہ حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے یہ کررہی ہے، وہ کر رہی ہے نظر کچھ نہیں آتا اس کی قیمت کم کر دی ، عوام مطمئن نظر نہیںآتی ۔ سندھ میں صحت کی صورتحال سب سے زیادہ خراب ہے جب کوئی شخص مہنگائی سے پریشان ، ذہنی کشمکش اور محرومی کا شکار ہوجاتا ہے تو اُسکی قوت مزاحمت کمزور پڑجاتی ہے،اور وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے تھرکے وہ معصوم بچے وہ ننھے تارے غذائی قلت کا شکار پانی سے محروم، ، گزشتہ سال قحط کے بعد ہلاکتوں نے کم از کم یہ ضرور ثابت کر دیا کہ سندھ حکومت کی نظر میں انسانی جانوں کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ، یہاں جس لاپروائی اور غفلت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے تھر کے عوام کے رہن سہن کا جائزہ لیا جائے تو ایسے حقائق سامنے آئیں جو مجرمانہ حکومتی غفلت کی طرف اشارہ کرتے ہیں اس سے واضح ہوچکا ہے کہ تھر سمیت سندھ کے دوردراز علاقوں میں صرف سیاست ہورہی ہے اور قحط کا معاملہ بھی سیاست کی نظر ہوچکا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تھر کو علم کی روشنی سے محروم رکھنا حکومت کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے یہاں محرومیاں اُن خبروں سے کہیں بڑھ کر ہیں جو میڈیا پر دکھائی دیتی ہیں۔
بچوں کی پرورش میں یہ امر لازم ہے کہ وہ بیمار ضرور ہوتے ہیں مگر بہت سے والدین بچوں کا مکمل علاج کر وانے سے معذور ہیں ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ ان ادویات کا خرچا اُٹھا سکیں یا مہنگے ترین ٹیسٹ کرواسکیں جو کسی بھی علاج کو شروع کرنے سے پہلے اور آخر میں لازمی کروائے جاتے ہیں جس میں ڈاکٹر حضرات بھی فائدے اُٹھاتے ہیں ایسے ایسے ٹیسٹ دے دیئے جاتے ہیں جس کا ان کی بیماری سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا مگر اُس غریب کو کیا پتہ وہ تو مجبور ہوجاتا ہے ان تمام معملات میں اتنے روپے خرچ ہوجاتے ہیں جو ایک غریب آدمی کے پاس ہو نہیں سکتے مگر ہماری حکومت اس پر ان غریب عوام کو اپنے مقصد کے استعمال کے بعد فراموش کر دیتی ہیں آج کل ہر طبقہ ان ہوشروبا مہنگائی سے متا ثرہے دواؤں کی قیمتیں بڑھانے کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کا ایک اور ہتھیار فائیو اسٹار ہوٹلوں میں منعقد ہوتے میڈیکل سمپوزیم ہیں پاکستانی ڈاکٹرز کو بھی یہی غیر ملکی کمپنیاں ہی بیرونی ممالک بھیجتی ہیں پھر ان کے تمام اخراجات دواؤں کی قیمتوں میں شامل کر کے عوام کو زیربار کیا جاتا ہے. میڈیکل اسٹور ز، ڈاکٹر ز، ان کی دوائیں فروخت کر کے اپنا کمیشن بناتے ہیں اب تو اس ملک میں بنے والی دواؤں کی قیمیتیں بھی انسان کی پہنچ سے باہر ہیں ، ایک لوکل دوا کسی غریب کا ایک وقت کا کھانا ہے جو بہت مشکل سے کماتا ہے ایک طرف حکومت لوگوں کو سہولتیں دینے کی بات کرتی ہے تو دوسری طرف ان کو نت نئے انداز سے لوٹنا جاری ہے ہر ہر انداز اور ہر طریقے سے کہیں کوئی بچ کے نہ چلا جائے پاکستان میں مریضوں کو سہولتیں دینے اور ان کے مسائل حل کرنے میں حکومت کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہی ہے ، ملٹی نیشنل کمپنیوںں کو ایک چھوٹ دے دی گئی ہے جس کا مقابلہ کسی کے بس میں نہیں حکومت کا سارا زور غیر ملکی سرمایہ کاری پر ہے خود انحصاری کی سوچ یکسر ختم ہو گئی ہے کیونکہ اس سے زیادہ منافع کمایا جاسکتا ہے اب تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ آگے اچھا وقت ضرور آئے گا کیونکہ جس ملک میں ہر روز خون کہ ہولی کھیلی جاتی ہو جہاں روٹی کسی کی جان سے مہنگی ہو ، جہاں لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑکے مرتے ہوں وہاں یہ سب معمولی باتیں ہیں ۔ کاش کوئی ایسا آئے جو ان ہزاروں سسکتے ہوئے لوگوں ان غریب لوگوں کے بارے میں سوچے اور غریب لوگ ادویات سے محروم لوگ آہستہ آہستہ موت کو گلے لگانے پر مجبور ہیں آخر کب تک…….!!!!
؂ دل یہ کعبہ ہے یا گھر موت کا ہے
کچھ بھی نہیں اُسے ڈر موت کا ہے
جسے سفرِ زیست جان کر طے کیا ہم نے
طے کر کے پھر کھلا یہ سفر موت کاہے

Short URL: http://tinyurl.com/haug6u8
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *