زندگی۔۔۔۔ تحریر: صباحت رفیق، گوجرانوالہ
آج صبح سے ہی نجانے طبیعت پہ نجانے کیسا بوجھل پن چھایا تھا کہ کسی کام میں بھی دل نہیں لگ رہا تھا عصر کے بعد کا وقت تھا کہ میں دوسری منزل کی سیڑھیاں چڑھ کے سب سے اوپر والی سیڑھی پہ بیٹھ گئی اور چہرے کے نیچے ہاتھ ٹکا کر خالی آسمان پہ نظریں دوڑانے لگی اور سوچنے لگی کہ کیا زندگی ہے یہ ؟؟ صبح اٹھو ، یونیورسٹی جاؤ ، اگر یونیورسٹی میں دن اچھا گزرے تو فریش موڈ کے ساتھ واپس آؤ، اگر دن اچھا نہ گزرے کسی سے نوک جھونک ہو جائے ، بات بات پہ گھر والوں سے بدتمیزی کر کے ان پہ غصہ نکالو ، گانے سنو ، کھانا کھاؤ، فیس بک استعمال کرو اور پھر سو جاؤ ۔ کافی سالوں سے یہی روٹین چلی آ رہی تھی ۔ً کیا فضول زندگی ہے یہ؟ اس زندگی سے بہتر تھا میں اس دنیا میں ہی نہ آتی ۔ً میں نے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر اس کا مکا بنا کے غصہ سے دوسرے ہاتھ پہ مارا۔ اور ادھر سے اٹھنے ہی لگی تھی کہ مجھے لگا کہ مجھے کوئی بلا رہا ہے کوئی کچھ کہہ ریا ہے میں نے غور سے سنا تو وہ میرا ضمیر تھا جو مجھے ملامت کر رہا تھا کہ اے بنت آدم میں اس دنیا میں ہی نہ آتی یہ کہنے سے بہتر تھا کہ کبھی خود سے یہ سوال کیا ہوتا کہ تجھے تیرے پیدا کرنے والے نے دنیا میں کیوں بھیجا ہے؟ گانے سننے؟ فیس بک استعمال کرنے ؟ نہیں یہ بے مقصد زندگی گزارنے تو ہر گز نہیں بھیجا ۔ اے بنت آدم تیرے مالک نے تو تجھے اس لیے پیدا کیا کہ تو اس کی عبادت کرے اس نے تجھے جو رزق دیا اس پہ اس کا شکر ادا کرے ، اور اپنی آخرت کا سامان تیار کرے۔ لیکن کیا تو نے اپنی آخرت کی تیاری کر لی؟؟؟ نہیں ۔۔۔۔!!! زندگی کے اٹھارہ سال تو یوں ہی بے مقصد گزار لیے اور ان اٹھارہ سالوں میں بس ایک یا دو نیک کام کیے ہوں گے ایک یا دو نمازیں پڑھی ہوں گی۔ موت تو تلوار کی طرح سر پہ لٹکی ہے ۔ کب تلوار چل جائے کوئی پتہ نہیں ۔ اس زندگی کا کب کوئی بھروسہ ہے یہ تک نہیں پتہ کہ اگلا سانس بھی آئے گا نہیں ، میں نے خوف سے ایک جھرجھری لی کیوں کہ مجھے موت سے بہت ڈر آتا تھا میرا تو اندھیرے میں سانس بند ہوتا تو منوں مٹی تلے میرا کیا حال ہو گا؟؟؟ جب کہ میں تو ہوں بھی گنہگار۔ نہیں نہیں ۔۔۔!!!! میں موت کے خیال سے فوراً ہوش میں آئی تو میں نے اپنی گود میں رکھے اپنے ہاتھوں کو دیکھا جن پہ نجانے کب سے میری آنکھوں سے بہنے والے آنسو گر رہے تھے میں نے جلدی سے اپنی دونوں آنکھوں کو رگڑا اور ایک بار پھر آسمان کی طرف دیکھا جدھر سورج غروب ہو رہا تھا میں فوراً اٹھی اور جلدی سے سیڑھیاں پھلانگ کے وضو کرنے چل دی کیونکہ اس سے پہلے کہ میری زندگی کا سورج بھی ہمیشہ کے لیے غروب ہوتا مجھے اپنے رب کو منا نا تھا ۔
مجھے اس طرح مصروف کر دے اپنی محبت میں اے اللہ
کہ مجھے سانس تک نہ آئے تیرے ذکرکے بغیر
Leave a Reply