انتخابات قریب ہیں۔۔؟۔۔۔۔ علی رضا شاف

Ali Raza Shaaf
Print Friendly, PDF & Email

موجودہ سیاسی صورتحال جس میں پورا ملک سیاسی جلسوں اور دھرنوں کی لپیٹ میں ہے جس کی زد میں حکومت دکھائی دیتی ہے سیاسی صورتحال نے اس قدر کروٹیں بدلیں ہیں کہ اب مخالف سیاسی پارٹی پہلے سے زیادہ فکر مند ہو چکی ہے ۔۔جب دھرنا لاہور سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوا تھا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ایک ماہ سے زائد مدت تک براجمان رہے گا ،حکومتی اراکین سمیت بہت سے دانشور یہی کہتے رہے کہ بمشکل بیس سے اکیس دن ،اس کے بعد یا تو حکومت کی ہوا نکل جائے گی یا پھر عمران خان تھک کر ہار مان لیں گے ،مگر صورتحال ان تمام پشین گوئیوں اور توقعات کے برعکس پیش آرہی ہے نا تو حکومت کی ہوا نکلی اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف نے واپسی کا رخ کیا۔ ۔عمران خان نے انتخابات کے بعد جب احتجاجی جلسوں اور دھرنوں کا آغاز کیا تو اس وقت مطالبہ صرف چند ایک حلقوں میں ووٹوں کی شفاف گنتی کا تھا جسے شاید حکومت کی جانب سے غیر سنجیدگی سے لیا گیا اور یہی مو قف اختیا ر کیا جاتارہا کہ یہ حکومتی اختیار میں نہیں ،عدالت میں جائیں ،جس پر عدالتی ٹریبیونلز بھی تشکیل دئیے گئے مگر مطلوبہ حلقوں میں گنتی کا مطالبہ پورا نہ ہو سکا ،اس کے بعد عمران خان کا پارہ مزید بڑھا اور حکومتی غیر سنجیدگی کی بدولت پاکستان تحریک انصاف کی کو ر کمیٹی کی پالیسی کے مطابق جو جلسے اور دھرنے انہوں نے دسمبر میں ترتیب دیے تھے وہ اگست میں تشکیل دے دیے گئے ،کیونکہ چند ایک حلقوں میں ووٹوں کی گنتی کوئی بڑی بات نہیں تھی ہاں مگر حکومتی رویے نے نہ صرف ان حلقوں میں پولنگ مشکوک کر دی بلکہ پورا الیکشن مشکوک قرار دے دیا گیا ۔۔۔یہ حکومتی رویہ ہی تھا جس کی بدولت عام عوام میں بھی عام انتخابات کے متعلق تشویش کی لہر دوڑ اٹھی،یہی وجہ ہے کہ اس وقت سینکڑوں عوام پاکستان تحریک انصاف کے موقف کی تائید کررہے ہیں ،اور یہ حکومتی رویہ ہی تھا جس نے ماڈل ٹاؤن میں بے گناہ نہتے معصوم لوگوں پر گولیا ں چلا کر ڈاکٹر طاہرالقادری کی کریڈبلٹی زیرہ سے ہائی کردی ،اور عوام کی ہمدردیاں ڈاکٹر قادری کے حصے میں آ گئیں ،یہ حکومتی رویہ ہی تھا کہ جس کی بدولت آپریشن ضرب عضب تاخیر کا شکار ہوا جبکہ عوام کو پاکستانی فوج پر پورا اعتماد ہے ۔ ۔ ۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے کی صورتحال اور حکومتی رویے پر طائرانہ نظر دہرائی جائے تو اس وقت چند حلقوں میں ووٹوں کی گنتی حکومتی اختیار میں نہ تھی آج دس سے بھی زائد حلقوں میں تحقیقات کروانے کو تیار ہیں جس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ حکومت نے دانستہ طور پر پاکستان تحریک انصاف کے آئینی حق کو غیر سنجیدگی سے لیا اور پھر جب وہ عوام کے ساتھ سڑکوں پر آئے اور جب عوامی پریشر بڑھا اس وقت پھر ان مطالبات سے ہٹ کر وزیراعظم کے استعفیٰ کی بات کی گئی تب یہ سب کیسے ممکن ہو گیا ؟یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں ہمیشہ عوامی و قومی مفادات پرذاتی مفادات کو ترجیح دی گئی ہے جو کہ اس وقت ہماری ملکی سیاست میں رواج پا گیا ہے اور یہی امر موجودہ سیاسی صورتحال کا ہے اور جس دن یہ تبدیل ہو گیا وہی دن حقیقی تبدیلی اور انقلاب کا دن ہو گا ،اس وقت عمران خان ہویا نواز شریف اس وقت سب کو ذاتی انا سے نکل کر ملکی مفادات کی خاطر سو چنا ہو گا اور اہم فیصلے کرنا ہونگے ایسے فیصلے جو ملک کو موجودہ درپیش بحرانوں اور متوقع معاشی تباہی سے بچا سکیں ۔ ۔ ۔
دوسری طرف پاکستان جس طرح پاکستان تحریک انصاف اسلام آباد کیساتھ ساتھ دوسرے بڑے شہروں میں بڑے بڑے جلسوں کے چھکے مار رہی ہے پی ٹی آئی کا ایسا پلان بالکل نظر نہیں آ رہا تھا مگر اس وقت بدلتی ،کر وٹیں لیتی موجودہ سیاسی صورتحال بہت سی سیاسی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کررہی ہے ۔اگر دیکھا جائے تو اس طرح کے جلسے انتخابات سے پہلے کیے جا تے ہیں ۔ اور انتخابی کمپین چلائی جا تی ہے جبکہ دوسری جانب ڈاکٹر قادری نے بھی موقع کو غنیمت جانتے ہو ئے اپنا مو قف بدل لیا اور آئندہ انتخابات میں حصہ لیکر اسمبلی میں بیٹھنے کا اعلان کر ڈالا،یہ تبدیلی کو ئی سادہ نہیں لگتی ضرور اس سے ڈاکٹر قادری کو بھی مڈ ٹرم انتخابات کی بو آ ئی ہو گی جس کی بدولت وہ بھی یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئے ،اور ممکن ہے کہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے ساتھ ملکر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہو؟ جبکہ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ بھی میاں نواز شریف کو مڈ ٹرم انتخابات کی دھمکی آمیز نصیحت یا مشورہ دے چکے ہیں جس سے حکومتی رویہ میں لچک آئی اس کے بعد بلاول بھٹو زرداری کی تقریروں سے یوں محسوس ہوا جیسے اب یہ پیپلز پارٹی کی پالیسی بن چکی ہے بلاول نے خود کو شاگرد ماہر سیاسیات ثابت کرتے ہوئے ایسے تیر چلائے کہ سب سیاسی حریف دنگ رہ گئے اور ان کے تیر چلانے کا انداز بھی اسی امر کا غماز ہے کہ جیسے انتخابات قریب ہوں،بلاول بھٹو زرداری نے یہ کہا کہ اگلا وزیر اعظم بھٹو ہی ہوگا،مطلب وہ اگلے وزیراعظم نہیں ہونگے کیونکہ و ہ تو بھٹو نہیں زرداری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں بھٹو تو سیاسی طور پر ان کے نام کے ساتھ لگایا گیا۔۔ ۔ !

Short URL: http://tinyurl.com/hh5bv8s
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *