آئی مس یو یار(قسط اوّل) ۔۔۔۔۔ تحریر: زید عمران
please
یار مجھے جانے دو نہ پلیز! میں آپ سب دوستوں کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ سب سے رابطہ رکھوں گا ۔آپ سب ہمیشہ میرے دل میں رہوں گئے آپ سب کی تصاویر بھی میرے پاس موجود ہیں اورآپ سب کے نام بھی میں نے پیچھے لکھ لیے ہیں کہیں بھول نہ جاؤں ایسا ممکن تو نہیں لیکن پھر بھی احتیاطََ بل آخر انسان غلطیوں کا پتلا ہے ! دھرکتے دل اور اشک بار آنکھوں سے میں گلے ملتے ہوئے ہوسٹل سے دوستوں کے پیار اور ڈھیروں دعاؤں میں ،واپسی کا رخت سفر باندھا۔۔۔
وصل کا دن تھا اور وہ بھی اتنا مختصر کہ دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے !
میں ابھی کل ہی تو سیالکوٹ سے گریجویشن کر کے 128اعلی تعلیم کے حصول کی خاطرا یڈمیشن لینے آیا تھا۔28ستمبر2012کو میرا یونیورسٹی مین پہلا دن تھا جب میں ڈاکیومنیٹس سب مٹ کروانے آیا تھا اور پھر واپس لوٹ گیا ۔۔۔ دو دن کے وقفے کے بعد مجھے پی ٹی سی ایل کے نمبر سے ایک فون کال ریسو ہوئی۔۔۔ ہیلو مسٹر عمران طاہر یو آر سلیکٹیڈ فار ماس کمیونیکیشن۔۔۔۔۔۔ میرا داخلہ ہو گیا تھا اور میں میڈیا کو اپنا کیرئیر بنانا چاہتا تھا کیونکہ مجھے نیوزاینکر بننے کا شوق تھا۔۔۔۔اب میں بالکل اک انجان سے دنیا کا مہمان بننے والا تھا اس سے پہلے میں کبھی گھر سے باہر نہیں نکلا تھا اور نہ ہی میرا بورڈنگ اسکول یا کالج کا کوئی تجربہ تھا ۔۔۔۔8اکتوبرکو میری کلاس تھی اورمیں ایک دن پہلے ہی لاہور شفٹ ہوگیا تھا۔۔8تاریخ کو صبح میں صبح سویرے اُٹھا اور تیار ہونا شروع ہو گیا 8:30کلاس تھی ۔۔۔ میں نے شاور لینے کے لیے غسل خانہ کا رخ کیا تو میرے طوطے ہی اُڑ گئے ہر غسل خانے کے سامنے تولیہ گلے میں ڈالے لڑکے ڈائیں بائیں کھجاتے نظر آ رہے تھے اور دس، دس لڑکے ہر باتھ روم کا محاصرہ کیے کھڑئے تھے ۔۔۔۔ میں بھی لین میں لگا گیا مگر سمعے بیتا جا رہا تھا میری باری بالکل نہ آئی میں نے منہ ہاتھ دھوکر کلاس میں جانا عافیت جانی ۔۔۔۔۔کلاس میں جب پہنچا تو ایک طالبعلم بیٹھا تھااور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ڈائس پر کھڑی خوبرو جوان لڑکی ، تھوری چپٹی سی ناک ،چمکتی آنکھیں، اور ٹھہر ٹھہر کر موصوفہ کا بولنا اور وہ اسمیں بھی شگفتگی اور شہد سی میٹھی تاثیر ۔۔۔۔۔ میں اجازت لے کر اندر داخل ہوا مجھے لگا کہ یہ اسٹوڈنٹ ہو گی مگر وہ لکچرار تھیں ۔۔۔ انہوں نے اپنا تعارف کروایا اور بیٹھنے کو کہا میں بھی بیٹھ گیا اور سنتا رہا میر اپہلا دن تھا سب کچھ میرے اوپر سے گزر گیا ۔۔ کچھ دنوں کے بعد ہوسٹل میں ابھی کافی نیو قمرز نظر آنا شروع ہوگئے تھے اور۔۔۔۔جسطرح ڈراموں اور فلموں میں دیکھا اُسی طرح ہمارے ساتھ بھی ریگینگ کا پلان بنایا گیا یہ بات میں نے کچھ دوستوں کو کرتے ہوئے سن لی وہ بات کر رہے تھے کہ یار نیو ہوسٹلائز بچے آئے ہیں شام کو ذرا ان پے رعب جما کر دل پشوری کریں گے (لطف اندوز ہونا)۔ رات آ گئی اور ایک لڑکا تمام رومز میں یہ پیغام دے رہا تھا سب نیو سٹوڈنٹس روم نمبر20میں پہنچ جائیں ۔ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پہنچ گئے ۔ سب لو گ آ گئے دروازے کو لاک لگا دیا گیا ۔ کسی کو مرغا بنایا گیا تو کسی کو مجرے پر ڈانس کروایا کسی کو کہا کہ یہ لائٹ بنا بٹن دبائے آف کرئے جو کہ ناممکن تھا اس پر گرمی سردی ہوئی اور بے چارے کو بے دردری سے پیٹا بھی گیا وہ کمیسٹری کا طالبعلم تھا ان کے بعد میری باری آ گئی مجھے گانے کی فرمائش کی گئی میں نے کانپتے ہوئے نہ سر نہ تال ” میں تینوں سمجھاواں کی ” راحت فتح علیخان کا گانا سنا یا ایک
senior
جنکا نام نواب تھا وہ ساتھ تھا جسکی بدولت بچت ہوگئی۔ نہیں تو جو راحت کی مٹی میں نے پلیت کی وہ خدا جانتاہے یا ہوسٹل والے ۔۔۔۔ یہ گانا اُن دنوں کافی زبان زد عام تھا ون بائی ون نیو قمرز سے تعارف ہوا۔ یوں دن گزرتے گئے اور کلاس میں سٹوڈنٹس پورے ہوگئے اب پڑھائی زور شور سے جاری تھی
Assignment+presentaion
کا بوجھ بھی بڑھ گیا اب واقع معلوم ہو رہا تھا کہ ہم ایم ایس سی اسٹوڈنٹس ہیں۔نئے دوست کلاس میں آئے انسے دوستی ہوئی وقت اچھا گزر نے لگا نئے نئے خیالات کے حامل دوست اور نئی نئی ترجیحات تھی سب کی ، دن بھر میں دو لکچر ہوتے تھے باقی سارا دن کیفے میں سگریٹ سلگاتے کش لگاتے دوستوں کے ساتھ گزر جاتے۔۔۔۔۔۔
وقت کا پہیہ بہت تیزی سے سفر کرتا ہوئے ہمیں منزل مقصود سے قریب کر رہا تھا۔۔۔ مڈ ہوا اور پھر فائنل کی ڈیٹ شیٹ بھی آ گئی یونیورسٹی میں سمسٹر سسٹم تھا اور سمسٹر سسٹم نظام مجھے بہت پسند آیا تھوڑا سا پڑھو اور پیپر دے دو اسطرح زیادہ بوجھ بھی نہیں پڑتا اور نالایق ترین بچے بھی پاس ہو سکتا ہے ۔۔۔ خیر ایک سمسٹر گزرنے کے بعد ۔۔۔ ایک ویک کی بریک تھی میں فیملی کے ساتھ ٹائم گزرا ور پھر واپس لاہور آگیا دو دن بعد جونئیر ملا اُس نے اپنے کلاس فیلوز سے اپنا تعارف کروایا سب ہشاش بشاش ، دھلے دھلے سے چہرئے مسکراتے ہونٹ اور چمکتی آنکھیں۔۔۔۔ مگر ان میں ایک ایسی بھی شخصیت تھی جو بظاہر تو وہ مسکرا کر بات کر رہی تھی مگراسکے فیشل امپریشن اور باتوں کی کمیسٹری بالکل بھی میچ نہیں کر رہی تھی ۔۔۔۔۔خیر معصوم سی ،شرمیلی سی نازک جیسے گلاب کی کوئی کلی ، سرخ لباس میں ملبوس وہ سامنے کھڑی تھی۔۔۔ ڈوپٹہ ماشااللہ ایسے لیا تھا جیسے پی ٹی وی کی نیوز اینکر ہو۔۔۔۔۔ آدھا سر ننگا ایک اور سامنے ڈوپٹے کی کافی ساری سلوٹیں ۔۔۔۔ اللہ نظر بد سے بچائے۔۔۔ میں مزید جج کرنے کے لیے بات برھائی تو معلوم پڑا کہ اسکا آج یونیورسٹی میں پہلا دن ہے اور وہ صبح سے کلاس ڈھونڈ رہی اور اس وقت قریب دوپہر کے 12بجے تھے اس سے بات نہیں ہو رہی تھی وہ رو کے آئی تھی ۔ ۔۔ اسکی تسلی دلاسا دیا تاکہ حوصلہ ہو بچاری کو ۔۔۔۔ میرے کند ذہین میں جو کبھی کچھ بیٹھا ہی نہیں تھا ۔۔۔ وہ آکربیٹھ گئی۔۔۔ اسکے نقوش میرے دل ودماغ میں گھر کر گئے۔۔۔ اور وہ سامنے گھومنا شروع ہوگئے ۔۔۔وہ پہلی ہی ملاقات میں دل میں اتر گئی۔۔۔۔۔۔ یہ بالکل فلمی مناظر تھے مگر حقیقت پر مبنی۔۔۔۔۔ وہ میری طرف دیکھ رہی تھی کہ اسکے کلاس فیلو نے کہا چلو کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے ۔۔۔ اور دل بہلاتے اسکو اپنے ہمراہ لے گئے۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے ۔۔۔۔)
Leave a Reply