واردات قلبی۔۔۔ اس حمام میں

تحریر: گوہررحمٰن گہر مردانوی
بقول حضرت شاعر” دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے? ہم جیسے ادیب و شاعر بدنصیب کہتے ہیں کہ دل سے جو بات نکلتی ہے تو ہر دفعہ بے اثر جاتی ہے کیونکہ ایک تو فی زمانہ کوئی تحریر پڑھنے کا روا دار نہیں اور مزید یہ کہ غلط کو درست کہنے میں دیدوں کا پانی نہیں مرتا جبکہ اکتسابی عمل زوال کا شکار ہے اور لوگ خرافات میں پڑے رہتے ہیں اس لیے مفتیان عہدِ نو رسان سے فتویٰ ٹھونک دیتے ہیں کہ جائز حق کے لیے اگر نقد رقم دینی پڑے تو انسان والمرتشی کے زمرے میں نہیں آتا یعنی کار عصیاں کو بڑھاوا دینا گویا عوام الناس کو مزید گمراہ کرنے کے مترادف ہے گویا اس حمام میں سب ننگے ہیں تب ہی ہم جیسے سادہ لوح جھانسے میں آجاتے کہ چلو سہولت ہوگئی اور گھی انگلی ٹیڑھی کرکے نہیں نکالا جائے گا بلکہ بٹوہ نکال کام نکال سے بگڑی سنور جائے گی جبکہ فی زمانہ ہر کسی کو ادراک ہے کہ اداروں میں رشوت ستانی کا دور دورہ ہے جبکہ حد تو یہ ہے کہ اس گناہ یعنی رشوت خوری کی روک تھام کے لیے بھی جو ادارہ قائم کیا گیا ہے وہ بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا کیونکہ شائد وہاں بھی یہ پھوڑا ہر بدنِ غلیظ پر نکل آیا ہے اور ناپاک روح کی بیایمانی سجدوں سے بھی نہیں جانی کجا دیگر ادارے خصوصاً محکمہ خزانہ و محکمہ تعلیم میں طبقہ ء مجبور اس کا زیادہ شکار رہتا ہے بلکہ ہمیشہ توپوں کے سامنے رہتا ہے۔اس لیے تو ہم جیسے ہر وقت شکوہ کناں نظر آتے ہیں کہ ہمارا معمولی سا کام بھی کرارے نوٹ دیے بغیر نہیں ہونے والا کیونکہ راشی تو اس گناہ میں گوٹے گوٹے دھنسا ہے لیکن ہم والمرتشی کے زمرے میں بلاوجہ کیوں آئیں اور گناہ عظیم کے مرتکب ٹھہریں جبکہ حق گوئی و بیباکی شعار گوہر ہے۔
ڈھٹائی تو دیکھیے کہ کھلے عام یہ کار بد جاری و ساری ہے اور جانتے ہوئے بھی لوگ چوں تک نہیں کرتے کیونکہ ہر عام و خاص کو پتہ ہے کہ کسی بھی دفتر میں پیسے دیے بغیر اپنے جائز کام کا الو سیدھا نہیں کیا سکتا۔ایک کلمہ گو معاشرہ کو بھلا اس طرح کیاعمال زیب دیتے ہیں بھلا جبکہ کھلی طور پر ارشاد ربانی { الراشی و المرتشی کلا ھما فی النار } کی خلاف ورزی کی جاری ہے کیونکہ ویسے بھی جہنم کی آگ کس نے دیکھی ہے کہ ڈر محسوس ہو اور دنیا کو جنت بنانے میں سارے لگے جائز و ناجائز مال ڈکار رہے ہیں بلکہ ایسوں کو تو دنیاوی آسائشوں کے لیے حصول زر کا ہر غلط طریقہ درست معلوم ہوتا ہے۔
استغفر اللہ بعض دفعہ ہم جیسے ناشکرے رب سے شکوہ تک کربیٹھتے ہیں کہ یا علیم ذات ایسوں کی پکڑ دنیا ہی میں کیوں نہیں لیکن ہم اکثر عبث رو بہ فریاد ہوتے ہیں کیونکہ ایسوں کا محاسبہ دنیا ہی میں مختلف عارضوں وآزمائشوں سے ہوتا رہتا ہے لیکن وہ اس قہر خداوندی کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔ہم چونکہ نظام تعلیم کے سب سے بے بس و لاچار طبقہ مجبور استادیہ سے تعلق رکھتے ہیں تو جو ادارہ ہم جیسوں کے جائز مطالبات کو بھی ناجائز طریقہ سے نمٹاتے ہیں تب دل ناہنجار کڑھتا رہتا ہے کہ ناجائز کرنے والوں کے صف میں تو ہم کھڑے نہیں رہ سکتے اور جائز طریقہ سے کوئی بھی درخواست قبول نہیں کی جاسکتی۔ایسا ہمارے ساتھ بار بار ہوچکا ہے اسلیے اس نظام سے نالاں و کبیدہ خاطر رہتے ہیں بلکہ سوائے کُڑھنے کے اور کربھی کیا سکتے ہیں۔کل پرسوں کی بات ہے جب ہم مرگی زدہ نے ایک درخواست دفتر تعلیمات میں جمع کی تو کچھ مخلص دوستوں نے بڑھک ماروں پر اعتبار کرکے ہمیں یقین دہانی کروائی کہ آپ کا کام یعنی تبادلہ بس سمجھو آج یا کل ہوا چاہتا ہے جبکہ دستخط شدہ درخواست کے ساتھ مستقل عارضے کی سند مستند معالج کی حاصل کی ہوئی بھی جمع کرائی تو آج یہ جانکاہ تصدیق شدہ خبر ملی کہ جس جگہ تمہارا تبادلہ ہونا تھا وہاں والمرتشی فلاں نامی کا تبادلہ راشی افسران و ضلعی انتظامیہ تعلیمات مردان فلاں ابن فلان جبکہ سہولت کاران رشوت خور دفتر کے بابؤوں کی ملی بھگت سے ہوچکا ہے یا یہ اقربہ پروری کا معاندانہ رویہ ہے یا ایک بے کس کے ساتھ نازیبا رویہ حالانکہ ہمیں کہا گیا تھا کہ آپ کے تبادلے کا حکم نامہ ابھی کے ابھی جاری کیا جائے گا لیکن راتوں رات گمان اغلب ہے کہ ایسوں کی جیبیں کرارے نوٹوں سے بھر دی گئی تھی جبکہ ہمیں صرف بڑھک ماروں کی مار ایک بار پھر لے ڈوبی جبکہ موجودہ جگہ ایک ایک پل گزارنا گویا عذابِ عظیم سے کم نہیں کیونکہ یہ غریب و کمزور ہر دفعہ بلاوجہ کی خود ساختہ سزاؤں سے دق اور ہر دفعہ جرمانوں سے نالاں ہیں جبکہ رستوں کی طوالت سے برگشتہ اگر نوکری جاتی ہے تو بھاڑ میں جائے لیکن ہم ببانگ دہل باقاعدہ نام لیکر ایسیوں کی قلعی کھول سکتے ہیں لیکن مصلحتاً خاموش ہیں لیکن اگر کرنے پہ آئے تو ساروں کی شلوار اتروائی میں کوئی دقیقہ فرگزاشت نہیں کریں گے جبکہ ہر ایک ننگے کا لباس اٹک پل پر آویزاں نظر آئے گا
جس رازق نے رزق کا وعدہ کیا ہے وہ کوئی سبیل اور بہترین نعم البدل بھی پیدا کرسکتا ہے ورنہ کفیل کا کنبہ بھوک سے مر تو سکتا ہے نا اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہے لیکن پہلے کفیل مرے گا بعد میں متعلقین جئے یا مرے جس کا ایک لاش کو احساس نہیں ہوسکتا۔ جبکہ جو روزی روٹی میں رکاوٹ بنے تو شائد یہ مرگی زدہ دماغ پہلے اس کا نرخرہ دبا کر جان لینے میں پہل کرے یا خود سوزی کا مرتکب ہو تب ممکن ہے دو تین کنبے روٹی کو ترس ترس کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے کیونکہ دماغ کا پیچ جب ڈھیلا ہوجاتا ہے تو نتائج کی پرواہ کیے بنا ہر حرامی پلے کو لڑھکانے کا من کرتا ہے۔یہاں آکر طاقتور و کمزور یکساں ہوجاتے ہیں کیونکہ جب خود پر تھو کر دی تو سامنے چاہے پہاڑ ہو پارچہ پارچہ ہو سکتا ہے پشتو میں کہتے ہیں نا «چ? پہ?ان د? اوتوکل نو بیا مخامخ باتور د زمان? ہم کونہ ن? شی?ن?ول?».خود پہ تھو کردی تو پہلوانِ زمانہ بھی سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔
Leave a Reply