تعلیم کیو ں ضروری ہے(قسط نمبر 2) ۔

Print Friendly, PDF & Email

افسانہ نگار:جمشید علی


لہذا عارف اپنے بیٹے حسن کے ہمراہ اگلے دن شہر پہنچ گئیں۔شہر پہنچتے ہی وہ رنگ بررنگی دنیا دیکھنے لگے۔ انہوں نے اس سے پہلے اتنا بڑا لوگوں کا سیلاب نہیں دیکھا تھا۔ ہر کوئی اپنے کام میں مصروف تھاکوئی کسی کو نہیں دیکھا رہا تھا کہ کون اس کے پاس کھڑا ہے اور کیوں کھڑاہے۔خیر انہوں نے ایک ٹیکسی کروائی اور منزل مقصود کی جانب بڑنے لگے ۔حسن رستے میں بڑی بڑی عمارتیں ،خوبصورت روڈ اور لمبی لمبی دکانیں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس میں تو ہمارے گاؤں کے سارے لوگ آرام سے رہ سکتے ہیں بابا یہ ہم کہاں آگئے ہیں۔ اتنے میں ڈرائیور نے آواز دی سر آپ کی منزل آگئی ہے اور حسن کا سوال اس کی زبان میں ہی رہ گیا۔ خیر ایک دن کے آرام کے بعد وہ اگلے دن اپنے بیٹے کے ہمراہ کام پر چلا جاتاہے جہاں اس کی ملاقات نئے لوگوں سے ہوتی ہے ۔وہ ان سے مل کر بہت خوش ہوتاہے اور کام میں مصروف ہو جاتاہے۔ حسن بھی اپنے باپ کی طرح اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ کام میں مصروف ہو جاتا ہے۔
کام کرتے کرتے حسن کی نظر ایک بہت بڑی اور خوبصورت عمارت پر پڑتی ہے جو کہ انتہائی دلکش روشنیوں سے جگمگاتی ہوئی ہوتی ہے۔وہ اپنے والد سے اس کے بارے میں پوچھتاہے کہ بابا وہ عمارت کیا ہے ،اس میں کیاہے،وہ کسی چیز کی عمارت ہے۔عارف بیٹے کو بتاتاہے کہ بیٹا مجھے نہیں پتا کہ وہ عمارت کسی چیز کی ہے اور اس میں کیا ہے اور ویسے بھی ہمیں اس کے بارے میں جان کر کیا کرنا ہے ہم کام کرنے آئے ہیں اور وہ کام ختم کر چلے جائے گے تو تم بیٹا عمارت کی بجائے کام پر دھیان دو۔ لہذا وہ بیٹے کے بار بار اسرار کرنے پر وہ پر کام کرنے والے ایک مزدور سے پوچھتاہے کہ بھائی کیا تم بتا سکتے ہو کے وہ عمارت کسی چیز کی ہے۔تو وہ مزدور بتاتا ہے کر عارف بھائی وہ عمارت ایک بہت بڑا مال ہے۔
عارف! مال یہ مال کیا ہوتاہے۔مزدور قہقا لگاکر کہتا ہے کہ عارف صاحب آپ کو مال کا پتہ نہیں کیا۔مال مطلب کہ یہ ایک بہت بڑا شاپنگ مال ہے جہاں آپ کو ضروریات زندگی کی سبھی چیزیں ملے گی اور کھانے پینے کے لیے بھی ہر چیز موجودہوتی ہے۔آپ ایک دفعہ اپنے بیٹے کے ہمراہ وہاں جائیں تو آپ دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔عارف ٹھیک ہے شکریہ اب آپ اپنا کام کریں ہمیں جانا ہے کہ نہیں وہ ہم بعد میں دیکھے گے۔حسن بیٹا اب آپ بھی کام کریں آپ کو جاننا تھا تو آپ جان چکے اور ہم بھی کام کرتے ہیں ہمیں وہاں نہیں جانا اور ویسے بھی ہمارا وہاں کوئی کام نہیں جو چیزیں وہاں سے ملتی ہیں وہ ہمارے گاؤں سے اس سے بھی اچھی ملتی ہیں۔
حسن اب کام میں مصروف تھا مگر وہ بار بار اسی عمارت کو دیکھ رہا تھا اس کے دل میں اس کو بس دیکھنے کی چاہت تھی کہ کیا چیزیں اس میں ہو سکتی ہیں کیوں وہ اتنی بڑی ہے ۔ وہ کام چھوڑ کر پھر اپنے والد عارف کے پاس گیا اور بولا بابا مجھے وہ عمارت دیکھنی ہے۔اب بیٹے کے بار بار ضد پر باپ نے کہا ٹھیک ہے ہم شام کو چلے گے مگر ایک شرت پر کہ اگر کام ختم ہو گا۔ حسن نے کام کو رات ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا کیونکہ اس کے دل میں اس عمارت کو دیکھنے کا جنون تھا جو رات ہونے کے ساتھ ساتھ بڑتا ہی جارہا تھا۔
اب رات ہو چکی تھی اور وہ گھڑی آ گی تھی جس کا حسن کو بڑی بے صبری سے انتظار تھا۔ حسن نے باپ سے کہا ابو جان اب چلے ۔ عارف نے کہا پہلے منہ ہاتھ تو دھولیں ۔ وہ منہ ہاتھ دھو کر نکلنے ہی لگے تھے کہ مزدور آگیا اور بولا جی عارف صاحب کہاں جا رہے ہیں۔ عارف بولا جی بیٹے کی ضد پوری کرنے جا رہا ہوں اس کو وہی مال دیکھنا ہے جو آپ نے بتایا۔مزدور مال اور ان گندے کپڑوں سے عارف صاحب کپڑے تو تبدیل کر لیں آپ شاپنگ مال دیکھنے جا رہے ہیں۔ عارف ! ہمارے گاؤں میں تو ہم ویسے ہی چلے جاتے ہیں دوکان پر خریدنے کھبی کسی نے کچھ نہیں کہا یہ کیسا شہر ہے۔
مزدور! عارف صاحب یہ آپ کا گاؤں نہیں ہے یہ شہر ہے اور جو آپ مال دیکھنے جا رہے ہیں وہ اس شہر کا سب سے بڑا اور خوبصورت شاپنگ مال ہے اور وہاں بہت امیر امیر لوگ گاڑیوں میں آتے ہیں تو آپ بھی پلیز کپڑے تبدیل کر جائیں اور حسن کو بھی نیو کپڑے پہن کر ساتھ لے کر جائیں۔
ٹھیک ہے بھائی جیسا آپ کہو ۔ اب دونوں باپ بیٹے کپڑے پہن کر شاپنگ مال کی طرف چل پڑتے ہیں ۔

Short URL: http://tinyurl.com/gtcrm2n
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *