شناخت

Print Friendly, PDF & Email

وہ کون تھی ؟
یہ سوال کئی دنوں سے ہم سب کے ذہنوں پر دستک دے رہا تھا۔ایک الجھن سی تھیباوجود اس کے کہ اس کے محلے میں آنے سے ہم سب کو ایک موضوع مل گیا تھا بات کرنے کے لئے۔۔۔۔ ورنہ اس سے پہلے کیا ہوتا تھا جب گھر کے سب مرد کام پر چلے جاتے عورتیں اپنے من پسند مشغلہ تانکا جھانکی اور عیب جوئی میں مصرف ہو جاتیں تھیں۔ہر علاقے اور ہر محلے کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے جو وہاں کے رہنے والوں کی زبان اور رہن سہن کی نمائندگی کرتا ہے۔
ہم اندرون شہر کے رہنے والے برسوں سے آباد اپنے خیالات اور تہذیب کو نسل در نسل منتقل کرنے والے اس امر سے کیسے پیچھے رہ جاتے کہ محلے کے ہر گھر میں رہنے والے آپس میں شدید اختلاف کے باوجود دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔
بات ہو رہی تھی کہ1
وہ کون تھی ؟
تین ہفتے قبل ہمارے سامنے دو گھر چھوڑ کر کارنر والے گھر کے سامنے سامان اتارا جا رہا تھا۔۔ڑاکر صاحب نے کب سے خالی گھر کرائے پر اٹھا دیا تھا۔جانے کوں تھی ؟ کہاں سے آئی تھی ؟ ایک تجسس نے سر ٹھایا تھا۔ہمیشہ حجاب میں رہتی تھی۔پورے سراپے میں صرف آنکھیں نمایاں تھین جانے کیا اسرار چھپائے ہوئے۔۔۔اداس۔۔۔گہری آنکھیں۔۔۔
یہ ہم لوگوں کی خاصیت ہوتی ہے کچھ دن کسی انہونی بات کو ذہن پر سوار کیے اس کے بخیے ادھیڑتے رہتے ہیں اور بعد میں ایسے بھول جاتے ہیں جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔۔
کتنے دن موضوع گفتگو رہی اس کی ذات۔۔۔۔۔ کچھ دن تک تو محلے میں سکون کا دور دورہ رہا۔آہستہ آہستہ سب اپنی روزمرہ زندگی کے معمولات پر واپس آگئے۔روز کسی نہ کسی کا’
کسی نہ کسی سے کسی نہ کسی بات پر الفاظ کی گھن گھرج کے ساتھ زور آزمائی ہونے لگی۔
ساتھ والی رشیدہ باجی کے بیٹے نے سامنے والے اسلم صاحب کے بیٹے کو بلا مار دیا،سب اپنے گھروں کے دروازوں پر کھڑے ان کا قضیہ دیکھ رہے ہیں۔ہمارے سامنے والے گھر کے دائیں جانب والے گھر کی سکینہ خالہ محلے کے موززین کو اکٹھا کر کے شکایت کر رہیں تھیں کہ نہ جانے کون ان کے گھر کے آگے کوڑوں کے ڈھیر لگا دیتا ہے۔انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ سب مل کر اس بات پر غوروخوض کیوں نہیں کررہے اور ایسے اقدامات نہیں کرتے کہ محلے کی صفائی اس کا ماحول بدلنے کے لئے ضروری ہے۔
وہ جو کوئی بھی ہے ہم اس کی شناخت سے ناواقف ہیں اسے یہاں رہنے کی اجازت نہ دی جائے۔ہماری بھی بیٹیاں ہیں کل کو ان پر کوئی برے اثرات ہو سکتے ہیں جبکہ شاید وہ ان برے اثرات سے ناواقف تھیں کہ محلے کے ہر گھر میں ایک دوسرے سے رکھا جانے والا عناد ان بچیوں کے ذہن پر کیا اثرات ڈال رہا تھا
خیر ہمیں کیا ہم بات کر رہے تھے
وہ کون تھی ؟
ایک حیران کن بات یہ تھی کہ اہستہ آہستہ غیر محسوس انداذ میں وہ ہماری زندگیوں کا حصہ بنتی گئی۔ نماز فجر کے بعد وہ اپنی بہتریں خوش الحان آواز میں تلاوت قرٰن ہماری سماعت میں اترنے لگا۔نہایت فرحت انگیز احساس ہوتا ایسی کشش تھی کہ دل بے اختیار کھنچا چلا جاتا۔۔ تبھی سب لوگوں نے اس بات پر اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کیا کے وہ بچیوں کو قرآن پڑھائے گی جسے اس نے بخوشی قبول کر لیا۔
وہ گھر گھر جا کر بچیوں کو قراں پاک کی تعلیم دینے لگی۔سبھی اس سے اپنے مسئلوں پر بات کرنے لگے۔
سوایے اس ایک بات کے جسے میں نے نوٹ کیا وہ اپنا ایک مقام بنا چکی تھی۔
روز شام ڈھلے حجاب پہنے مقررہ وقت پر گھر سے نکلتی۔تنگ گلیوں سے گذرتی سرکلر روڈ پر آتی اور ایک مخصوس جگہ کھڑی ہو کر انتظار کرتی۔۔اپنے تجسس سے مجبور ہو کر
کئی بار تعاقب کیا مگر ہر بار جیسے قسمت ہمیں حالات کے گھن چکروں میں مات دے جاتی ہے وہ بھی چکمہ دے کر انسانوں کے ہجوم میں گم ہوجاتی۔
نہ جانے کیسی بے چینی اور الجھن تھی جو سلجھنے میں نہ آتی تھی۔
کبھی کبھی موسم سرما کی سرد شاموں میں مغرب سے ذرا پہلے فضا میں ایک سوگواریت کا احساس ہوتا ہے۔۔
وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا۔۔!
گلی میں ایمبولینس کی چیختتی چنگھاڑتی آواز نے ارتعاش سا برپا کر دیا تھا۔سب عورتیں مکانوں کی کھڑکیوں اور دروازوں کی درزوں سے جھانکنے لگیں تمام مرد اکٹھے ہو گئے۔
ایمبولینس کارنر والے گھر کے سامنے رکی۔دو کارکن سٹریچر پر سفید چادر سے ڈھکے وجود کو زمیں پر رکھ رہے تھے۔ ایک نہایت فیشن ایبل خاتوں نے وجود کو مکان میں منتقل کیا۔تمام عورتیں افسوس کے ساتھ آہستہ آہستہ مکان کی طرف بڑھنے لگیں۔
آج پہلی بار اس کا اثاثہ اس کی کل کائینات سب کے سامنے کھلی پڑی تھی جسے اس نے اتنے عرصے سے چھپائے رکھا تھا۔
جگہ جگہ دیوار پر مشہور مذہبی سکا لر ڈاکٹر معیز عابد کی تصاویر لگی تھیں۔لکڑی کی الماری میں سجے بیشمار سرٹیفیکیٹ اور شیلڈز اس کی قابلیت کا اظہار کر رہے تھے۔
نفاست سے سجی ہر چیز گندگی میں لپٹے اس کے وجود کی پاکیزگی کا اعلان کر رہے تھے۔
اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ ” محبت ” میں ٹھوکر کھانے کے بعد جہاں وہ ماں باپ اور معاشرے کی نگاہ میں معتوب ٹھہری تھی بلکہ اس غلاظت کے ڈھیر کا حصہ بن گئی تھی
جسے معاشرہ نفرت زدہ نظروں سے دیکھتا ہے۔
اپنے معزز والدین کو بدنامی سے بچانے کے لئے اس نے بے شناخت رہنا قبول کیا تھا مگر
اس کی موت اس کی شناخت کا سبب بن گئی تھی۔

(اِرم فاطمہ)

Short URL: http://tinyurl.com/gouko7q
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *