رات کامسافر

Print Friendly, PDF & Email

رات کے گہرے سائے ہر طرف اپنی چادر پھیلائے ہوئے تھے۔میں خراماں خراماں سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔خاموشی کا عالم تھا ۔خاموشی کے اِس لمحے تابندہ کی چیخیں مجھے واضع سنائی دے رہی تھیں۔ابھی ابھی تو میں بچوں کو کمرے میں سُلا کر نیچے استقبالہ کی طرف لوٹ رہا تھا۔۔۔۔تابندہ واش روم میں فریش ہونے چلی گئی تھی ۔اتنے میں، میں نیچے جا کر کمرے کا کرایہ طے کرنا چاہتا تھا۔ابھی چند سیڑھیاں اُترا ہی تھا کہ تابندہ کی زور دار چیخوں نے مجھے واپس پلٹنے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔۔
میں پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہوں اوراپنے کلینک پہ صبح و شام مریضوں کا علاج کر تا رہتا ہوں ۔میرے دو بچے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے نعمتوں سے نواز رکھا ہے اور رحمت کا اُمید وار ہوں ۔۔۔تابندہ !میری شریک سفر ہے اور آج سے پندرہ سال پہلے میری زندگی میں آئی۔۔۔ماں باپ کی راضی مندی سے ہم شریک سفر بن گئے اوراب زندگی بڑی خوشگوار گزررہی تھی۔۔۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے گرمیاں زروں پر تھیں ۔۔۔سورج آگ برسا رہا تھا۔ہم کئی دِنوں سے ٹھنڈے علاقے کی سیر کا پروگرا م بنا رہے تھے۔۔۔
کب سے تمھیں کہہ رہی ہوں کہ سیر کو چلیں مگر آپ ہیں کہ ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔۔۔ابھی بچوں کو چھٹیاں بھی ہو گئیں ہیں اور موسم بھی قدرے اچھا ہے ۔۔۔
جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا تو بیگم صاحبہ کا پارا گرم پایا۔اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا اُس نے الٹی میٹم دے دیا ۔۔۔وہ مسلسل چھ ماہ سے کہہ رہی تھی اور میں مصروفیات کے جال میں ایسا جکڑا ہوا تھا کہ کیا بتاؤ۔۔۔۔کلینک پہ مریضوں کا رش ہی اتنا ہوتا تھا۔۔۔مریضو ں کو چیک کرتے کرتے شام ہو جاتی اور کلینک دو چار دن کے لئے بند بھی نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔اُدھر بیگم صاحبہ روز بروز کہیں جانے کو کہہ رہی تھی ۔آج تو اُن کا پارا آسمان کو چھورہا تھا تو بالآخر غنیمت یہی جانی کہ ہفتہ کی شام کو چلتے بنے۔۔۔
میرے دونوں بیٹے سلطان اور علی شان تیار تھے اور اُن کی مما بھی تقریبا ریڈی تھی۔۔۔میں ابھی تک کلینک پر تھا ،بار بار بیگم صاحبہ کی کالز آرہی تھیں۔بڑی مشکل سے مریضوں سے فارغ ہوا اور بھاگم بھاگ گھر کی طرف گاڑی دوڑا دی۔۔بیگم صاحبہ کی آخری کال اُس وقت آئی جب میں گھر سے تین کلو میٹر کی دوری پر تھا۔
گھر پہنچا تو تابندہ کا پارا آسمان کو چھورہا تھا۔،تیور بدلے ہوئے تھے ،مجھے دیکھتے ہی فورابولی کبھی تو وقت پہ گھر آجایا کرو۔۔۔۔دیکھو تو کتنا ٹائم ہو گیا ہے ،بچے کب کے تیار ہیں ۔اب تو سارے پلان کا ستیاناس ہو گیا ناں ۔۔۔۔اب کہا ں جا پائیں گے۔۔۔؟
ابھی کچھ نہیں ہوا ،بہت وقت پڑا ہے ۔میں شارٹ کٹ راستہ جانتا ہوں ،ہم مری جلدی پہنچ جائیں گے ۔۔۔۔بس تم سامان اُٹھاؤ۔۔۔
جلدی سے گاڑی میں سامان رکھو اور ہم نکلتے ہیں ۔۔میں کہتے ہوئے ڈریس بدلنے چلا گیا۔۔۔بچے اور تابندہ گاڑی میں سامان رکھنے لگے۔۔۔
جس راستے کا میں نے انتخاب کیا تھا۔مشکل ضرور تھا مگر شارٹ کٹ تھا۔ہم بہت جلد مری پہنچ جاتے ۔۔۔۔کئی بار دوستوں کے ساتھ اِسی راستے سے آیا ،گیا تھا۔
جب ہم گھر سے نکلنے لگے تو شا م کے سات بج رہے تھے ۔اندھیرا پھیلنے کو تھا۔برقی بتیاں روشن ہو چکی تھیں۔جس راستے سے میں جا رہا تھا ایک طرف گہری کھائیاں تھیں تو دوسری طرف آسمان کو چُھوتے پہاڑ۔گہرائی کی طرف دیکھتے تو خوف سا آتا اور پہاڑ وں کی طرف نظر جاتی تو رب تعالیٰ کا ذکر کرنے لگتے ۔
شام کو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں ہمارا استقبال کر رہی تھیں۔قد آور پہاڑوں پہ چھوٹے چھوٹے سر سبز پودے بہت پیارے لگ رہے تھے۔خوبصورت مناظر دیکھنے کو مل رہے تھے۔میں بچوں کو انجوائے کرا رہا تھا۔جب خطرناک موڑ آتے تو بچے سہم سے جاتے۔۔
ہماری کل مسافت چھ گھنٹے کی تھی ۔میرا پلان یہ تھا اگر زیادہ لیٹ ہو گئے تو راستے میں کسی ہوٹل میں رُک جائیں گے ۔۔۔رات کا بقیہ پہر وہاں گزار کر تازہ دَم ہو کر صبح سویرے مری پہنچ جائیں گے ۔۔۔اِسی راستے پہ میں نے چند ایک ہوٹل دیکھ رکھے تھے۔مگر وہاں رُکنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔۔۔
ہوٹل تک پہنچتے پہنچتے چار گھنٹے بیت گئے تھے۔میں بھی ڈرائیو کرتے ہوئے تھک گیا تھا۔مجھے نیند کی خماری ہو رہی تھی اور ایسی حالت میں ڈرائیو کرنا خطرناک ہو سکتا تھا۔۔۔بچے بھی جمائیاں لینے لگے تھے ۔۔۔۔تابندہ جو چلتے وقت جوش و خروش میں تھی ۔اب اُس کی حالت بھی دیدنی تھی۔آنکھیں پھٹی پھٹی تھیں اور جیسے سیٹ پہ کسی مجسمہ کو سلیقے سے رکھ دیا ہو۔۔۔۔۔نہ کوئی حرکت ورکت۔۔لب سلے تھے ۔۔۔۔سو میں نے ہوٹل کی تلاش میں گاڑی کی سپیڈ آہستہ کر دی ۔۔تاکہ پہلے آنے والے ہوٹل ہی میں رُک سکیں ۔۔تھوڑی سی مسافت کے بعد مجھے ایک ہوٹل نظر آیا تو میں نے گاڑی ہوٹل کی طرف موڑ دی۔۔
رات کے گیارہ بج رہے تھے ۔بچے سونے کے لئے بے تاب تھے۔تابندہ بھی ڈھیلی پڑ چکی تھی۔ہم جلد ہی کمرے تک پہنچنا چاہتے تھے ۔۔میں نے گاڑی پارک کی اور ہوٹل کے اندر داخل ہو کر استقبالہ پر پہنچا۔وہاں سترہ سالہ بزرگ کُرسی پہ بیٹھا اُونگھ رہا تھا۔بزرگ کے علاوہ مجھے وہاں اور کوئی نظر نہ آیا۔۔۔کہاں آگئے ہیں ہم ؟میں نے دِل ہی د ل میں کہا۔۔۔ہر طرف خاموشی کے پہرے ہیں ۔ابھی اتنی رات بھی نہیں گزری ۔۔۔۔اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہوٹل آبادی میں نہیں ہے ۔۔۔میں نے اندازہ لگایا۔۔۔اردگر د کوئی شہر ،یا آبادی نظر نہیں آئی تھی ۔ایسے ہوٹل مسافروں کے لئے بنائے جاتے ہیں ۔۔۔جو رات گزارنے کے لئے یہاں رُکتے ہیں ۔۔۔
ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ بزرگ جمائی لیتے ہوئے اُٹھ بیٹھا۔۔۔کیا کمرا چاہیے۔۔۔؟
جی بابا جی۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔
لیکن ،ولیکن کچھ نہیں ۔۔۔بیٹے کمرے صاف ستھرے ہیں ۔۔۔۔اُس نے کہتے ہی بیل دی تو دُوسرے لمحے دُبلا پتلا سا نوجوان وارد ہوا۔۔۔
سلیمان ۔۔۔صاحب کو کمرے دیکھاؤ۔۔۔یہ لو چابیاں ۔۔۔بچے تھکے تھکے سے لگتے ہیں ۔۔۔جلدی کرو۔۔۔
بزرگ نے نوجوان کو چابیاں پکڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔
بہت شکریہ ۔۔۔بابا جی ۔۔۔لیکن کرایہ کتنا ہوگا۔۔۔۔؟
وہ بھی طے کر لیتے ہیں ۔پہلے بچوں کو کمرے تک تو چھوڑ آؤ ۔۔۔کمرے دیکھ لو ۔۔۔پسند آجائیں تو کرایہ بھی طے ہو جائے گا۔۔۔ابھی بچوں کو سُلاآؤ۔۔۔جاؤ۔
جی اچھا۔۔۔
بابا جی !بہت رحمد ل اور بااخلاق لگتے تھے ۔۔۔نوجوان نے ہمارا سامان اُٹھایا اور آگے آگے چل پڑا۔۔۔کمرے دوسری منزل پہ تھے۔ہم سیڑھیاں چڑھنے لگے۔۔یہ کیا؟ ۔۔۔ہم سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے تھک سے گئے ہیں مگر سیڑھیاں ختم ہی نہیں ہو رہی ۔
بھائی !دوسری منزل کیا آسمان پر ہے جو سیڑھیاں ختم ہی نہیں ہو رہی ۔
بس دو چار اور ۔۔۔سلیمان نے جواب دیا۔
خیر چند سیڑھیاں اور چڑھے تو راہداری آگئی ۔کمروں کی لمبی قطارلگی تھی۔میں نے سیڑھیاں ختم ہوتے ہی لمبے لمبے سانس لئے اور نوجوان نے ایک کمرے کا دروازہ کھول دیا۔۔۔
یہ رہا آپ کا کمرہ۔۔۔
بزرگ ٹھیک ہی کہہ رہا تھا ۔کمرا صاف سُتھرا تھا ۔بچے صوفے پہ چڑھتے ہی لمبی تان کر سو گئے اور بیگم واش روم چلی گئی ۔۔۔میں نے تابندہ سے کہا ۔آپ ایزی ہو لو ۔۔میں کرایہ طے کرکے آتا ہوں ۔۔
نوجوان کو میں نے رُکنے کا کہا تھاا ور وہ دروازے کے باہر میرے انتظا ر میں کھڑا تھا۔۔میں سامان رکھ کر ،بیگم کو واپس آنے کا کہہ کر کرایہ طے کرنے بزرگ کی طرف چل پڑا۔۔چلیں بھائی۔۔۔میں نے سلیمان کو کہا ۔۔
شاید ابھی میں چند سیڑھیاں اُترا ہی ہو ں گا کہ مجھے تابندہ کی چیخیں سنائی دی۔۔۔۔نوجوان میرے پیچھے تھا ۔۔۔۔میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو حیران رہ گیا۔نوجوان غائب تھا۔۔۔یہ کہاں گیا ۔۔؟سلیمان ۔۔۔۔سلیمان ۔۔۔میں اُسے پکارنے لگا۔۔۔سیڑھیوں پہ اچانک اندھیرا چھا گیا۔۔۔شاید بجلی چلی گئی ہے ۔۔۔۔میں واپس کمرے کی طرف سیڑھیاں چڑھنے لگا۔اندھیرے میں گِرتے پڑتے بمشکل کمرے تک پہنچا تو اند ر کا منظر بڑ بھیانک تھا۔۔۔واش روم کا دوازہ کُھلا تھا۔۔۔میری بیوی کی شکل خوفناک ہو چکی تھی۔۔۔زندگی میں ،ایسی بدصورت عورت میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔۔۔
تابندہ !
میں نے بیگم کو مخاطب کیاتو تابندہ نے کن اکھیوں سے میری طرف دیکھاتو میرے ہوش اُڑ گئے۔۔۔میرے حواس قابو نہیں رہے تھے۔۔۔یہ تابندہ تو نہیں ہے ۔۔۔میری تابندہ تو حُسن کی شہزادی ہے ۔۔اُس کے خوبصورت نین نقش پہ میں مر مٹا تھااور بالآخر اُسے حاصل بھی کر لیا تھا۔۔۔میری تابندہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ نیک سیر ت بھی ہے۔۔لیکن یہ تابندہ نہیں ۔۔۔۔۔تو اور کون ہے ۔۔۔۔؟لباس وہی جو تابندہ نے پہن رکھا تھااور جسامت بھی تو وہی ہے ۔۔۔۔لیکن یہ صورت۔۔۔۔۔۔
سامنے بیٹھی وہ بد صورت عورت نما چڑیل میری طرف دیکھ رہی تھی ۔اُس کی آنکھیں سُر خ لال تھی جیسے ابھی خون کے فوارے پھوٹ پڑیں گے ۔۔۔بال بکھرے ہوئے اور ہاتھ نوک دار خنجر کی طرح ،لمبے لمبے کالے چٹے بالوں سے اٹے ہوئے ۔۔۔میرے رگ وپا میں کپکپی طاری ہو گئی ۔۔۔پہلے لمحے تو میں ڈر گیا۔۔۔۔لیکن ۔۔
لیکن۔۔۔
دوسرے لمحے نادید ہستی نے مجھے حوصلہ دیا ۔۔۔۔گھبراؤ نہیں ۔۔۔۔تم تو بہادر ہو۔۔۔۔مقابلہ کرو۔۔۔۔تمھارے پاس تو اِن بلاؤں کو قابو کرنے کے بہت وظیفے ہیں ۔۔۔۔کیا تمھیں یاد نہیں ۔۔۔؟
تب مجھے یاد آیا کہ میں تو اکثر اپنے کلینک پہ لوگوں کے روحانی اور جسمانی علاج کرتا ہوں۔۔۔دوا کے ساتھ ساتھ دُعا دیتا ہوں تو شفا یابی ہوتی ہے اور لوگ مجھے دُعائیں دیتے رخصت ہوتے ہیں ۔۔غیر مرئی مخلوق سے میرا ٹاکرا ہوتا رہتا ہے ۔۔۔غیر مرئی مخلوق میں سبھی ایک جیسے نہیں ہوتے ۔۔۔یہ شریر بھی ہوتے اور شریف بھی۔۔۔جو اپنی برادری سے بھٹک جاتا ہے وہ انسانوں کو تنگ کرنے چلا آتا ہے ۔۔۔یا کچھ کو عامل اپنے تابع کر لیتے ہیں اور اُن سے غلط صیحح کام کرواتے رہتے ہیں ۔۔۔اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے اِن کو تکلیف دیتے رہتے ہیں ۔۔۔۔یہ مجبور ہوتے ہیں ۔۔۔۔اور مجبوریاں تو ناکوں چنے چبواتی ہیں ۔۔
جنات زیادہ تر بچوں اور عورتوں پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔۔۔اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ اِن کا کوئی وجودبھی نہیں ہوتا۔۔۔یہ کسی جانور یا انسانی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں ۔۔۔جانوروں میں بلی،اُلو کی شکل میں زیادہ آتے ہیں اور کتے سے دُور بھاگتے ہیں ۔۔۔جب بھی کتے آسمان کی طرف ،منہ کرکے بھونکنے لگیں تو سمجھیں وہ غیر مرئی مخلوق کو دیکھ رہے ہیں ۔۔۔کتوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت عطا کی ہے کہ وہ غیر مرئی مخلوق(جنات)کو دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔اور ان کے خاص بھونکنے سے انسان جان سکتے ہیں کہ اب جنات اردگرد موجود ہیں ۔۔۔جیسے گدھا ہانکے تو ہم کہتے ہیں شیطان کو دیکھ رہا ہے ۔۔۔
تابندہ کے روپ میں وہ چڑیل میری طرف بڑھی ۔اِس سے پہلے کہ وہ مجھے نقصان پہنچاتی ،میں نے پہلا وظیفہ پڑھ کر اپنے اردگرد حصار قائم کر لیا۔۔۔وہ چیختی چلاتی رہی ۔۔۔۔اُس نے مجھے ڈبوچنے کے لئے ہاتھ ،میری گردن کی طرف بڑھائے لیکن اُس کے ہاتھ ہوا میں معلق رہ گئے۔۔۔وہ بڑی بے تاب لگ رہی تھی۔۔۔اُس کی بے قراری دیدنی تھی۔۔۔
میں اس کو وصلِ جہنم کرنا چاہتا تھاکہ مجھے بچوں اور تابندہ کا خیال آیا۔۔۔۔بچے کمرے میں موجود نہیں تھے۔۔۔اور کمرے کی کھڑکی کھلی تھی۔۔۔میرے بچے کہاں گئے۔۔۔۔؟تابندہ ۔۔۔۔تاب۔۔۔۔ندہ۔۔۔میں نے تابندہ کو آواز دی۔۔۔میرے الفاظ میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔۔۔۔میں اپنے حواس کھو دیتامگر میں نے اپنے رب کو پکارا۔۔۔
یا اللہ !مدد۔۔۔کہیں اِس خیبث نے میرے بچوں اور تابندہ کو۔۔۔۔۔۔آگے میں کچھ سوچ نہ پایا۔بچوں کا خیال آتے ہی کھلی کھڑکی کی طرف لپکا۔۔۔کہیں میرے بچوں کو یہاں سے باہر نہ پھینک دیا ہو۔۔۔۔کھڑکی سے روشنی کی لمبی لکیر دُور تک جا رہی تھی۔۔۔۔میں کھڑکی کے قریب پہنچا ہی تھا۔۔۔سامنے قبرستان نظر آیا۔۔۔بہت بڑا قبرستان۔۔۔کہیں کہیں گھنے درخت بھی تھے۔۔روشنی کی لکیر ہی میں ،ایک درخت کی شاخوں پہ مجھے اپنے دونوں بچے اور تابندہ کی شکل نظر آئی ۔۔جو شاخوں سے اُلٹے لٹکے ہوئے تھے ۔۔۔میں بے چین ہو گیا ۔۔۔میں جذبہ محبت میں چھلانگ لگا کرا پنے خاندان کے پاس جانا چاہتا تھا۔۔۔۔شاید میں کود ہی گیا ہوتا لیکن ۔۔۔ابھی میں نے ارادہ ہی کیا تھا کہ میرے رہبر نے مجھے جھنجوڑا ۔۔۔کیا پاگل پن ہے ؟بچوں کو بچانے کی خاطر اپنی جان گنوانے پہ تُلے ہو۔۔۔۔یہ اُن کی چال ہے ۔۔۔؟زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھوں گے۔۔۔
پھر کیا کروں ۔۔۔؟
میری آنکھوں کے سامنے میری اولاد اور میری پیاری بیوی تابندہ لٹکی ہے اور آپ تو جانتے ہیں انسان کی کل کائنات یہی اولاد ہی تو ہوتی ہے۔آپ کے بیٹے کمرے میں ہی ہیں لیکن آپ کو نظر نہیں آرہے ۔اس چڑیل نے اُن کا عکس وہاں دیکھایا ہے ۔وہ تجھے مارنے پہ تُلی ہے ۔۔۔پھر تم نے غور نہیں کیا۔۔۔وہاں قبروں پہ بھی ایک لڑکا بیٹھا ہے ۔۔۔دیکھو تو،،
میری نظریں قبرستان کی طرف اُٹھ گئیں ۔۔واقعی جہاں میرے بیٹے اُلٹے لٹکے تھے ۔اُن کے نیچے ایک کم سن بچہ قبر پہ بیٹھا مسکرا رہا تھا۔۔اُس کی آنکھیں وحشیانہ تھیں۔ہونٹ نیچے کو ڈھلکے ہوئے اور بازؤں بہت لمبے تھے ۔۔۔مجھے اُس بچے سے خوف آنے لگا ۔۔۔وہ جہاں ہاتھ کرتا ، دھواں سے اُٹھتا ۔وحشی چہرے مسکراتے تھے۔۔۔اُن کی لمبی لمبی زبانیں تھیں ۔ہر ایک کے منہ میں دو دو زبانیں ۔۔۔یا اللہ !مدد۔۔
اب میں کیا کروں بابا جی ۔۔۔۔میں نے بچے کو دیکھتے ہوئے خیالوں میں نادیدہ ہستی سے بات کی ۔۔۔۔
تم اِس چڑیل کو اپنے قابو میں کروں اور اِس کو یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفع کرو۔۔۔۔ظالم کے بچے اِس عمارت کے نیچے دب کر مر گئے ہیں ۔۔۔اور یہ بھی اپنی اولاد کے لئے تڑپ رہی ہے ۔۔۔اگر یہ راہ راست پہ آجائیں تو معاف کر دینا ۔
تب میں نے جنات کو قابو کرنے کا وظیفہ پڑھا اور وہ خبیث چڑیل میری قید میں آگئی۔۔۔۔وظیفہ پڑھتے ہوئے اُس نے بڑی تگ و د کی تھی ،حملہ کرنے ۔مجھے نقصان پہنچانے کی ۔لیکن ایک تو میں حصار میں تھا اور دوسرا طاقتور وظیفہ کیا تھا۔۔۔
مجھے چھوڑ دو۔۔۔جو کہوگے وہی کروں گی۔۔۔۔
اچھا اتنی جلدی ،مان گئی ۔۔۔ابھی تو بڑے تیور دکھارہی تھی۔۔۔میرے بیوی بچے کہاں ہیں ،اُن کو میرے سامنے لاؤ۔۔۔اور یہ کیا ڈرامہ ہے کہ لباس میری بیوی کا اور جسامت بھی اُسی کی ۔۔۔لیکن میری بیوی کہاں ہے ۔۔۔؟تم کسی اور روپ میں آؤ۔۔۔
پل جھپکتے ہی دھواں سا ہوا اور بدبو سی پھیلی ۔و ہ جو سامنے تھی دھوئیں میں تحلیل ہو گئی اور بلی کے روپ میں کھلی کھڑکی میں بیٹھی میاؤں میاؤں کرنے لگی۔۔۔۔۔
واش روم کے دروازے کی چڑ چڑاہٹ سنائی دی ،دروازے ہلنے لگے اور میری بیوی نمودار ہوئی۔ ۔اُس کو اُصلی روپ میں دیکھ کر میری جان میں جان آئی ۔اُس کے حواس اُڑے ہوئے تھے۔۔چند لمحوں بعد ہوش آیا تو بھاگ کر میرے سینے سے لگ گئی ۔اُس کا جسم تپ رہا تھا۔۔اور پسینے سے شرابور تھی۔حالانکہ موسم قدرے ٹھنڈا تھا اور وہ نہانے گئی تھی۔۔۔میں نے اُسے تسلی دی ۔تب اُسے بچوں کا خیال آیا۔۔۔بچے کہاں ہیں ۔۔۔۔وہ تو سو رہے تھے۔۔۔۔
اُسے اِس کہانی کا کوئی پتا نہیں تھا۔۔۔۔تب میں نے کھڑکی میں بیٹھی بلی کی طرف اشارہ کیاجو میاؤں میاؤں کر رہی تھی۔۔۔تابندہ بلی کو دیکھنے لگی اور میں نے پوچھا۔۔میرے بچے کہاں ہیں ۔۔۔؟
آپ کے بچے کمرے میں ہی ہیں لیکن پہلے مجھے آزاد کرو۔۔۔۔بلی کو انسانی آواز میں بولتے دیکھ کر تابندہ کے حواس اُڑ گئے ۔۔۔
آزاد تو میں کر دوں گا ۔پہلے یہ بتاؤ کہ ہمیں تنگ کرنے کا تمھارا مقصد کیا تھا۔۔۔۔؟
میری بیوی نیم بے ہوشی میں مجھے تکے جا رہی تھی۔۔میں نے اُسے اشاروں میں خاموش رہنے کا کہہ دیا تھا۔۔۔
میں گیارہ سال سے اِس ہوٹل میں مقیم ہوں جو بھی یہاں آتا ہے زندہ سلامت واپس نہیں جاتا۔۔۔اِسی طرح یہ ہوٹل ویران ہو گیا تھا مگر آج کئی سالوں بعد تم یہاں آئے ہو۔۔۔استقبالیہ میں جو تمھیں بزرگ ملا ہے ناں ۔وہ بھی انسانی روپ میں جن ہی ہے ۔۔۔وہ میرے ابو ہیں اور سلیمان جو سامان رکھنے آیا تھا میرا شوہر ہے ۔۔۔ہم تینوں کا یہی کام ہے ۔انسانوں کا خون پینا اور اُن کو اذیت دے دے کر مار دینا۔۔۔پہلے ہم اذیت دیتے ہیں ،ڈراتے ہیں ۔۔۔پھر خون پیتے ہیں اور مار دیتے ہیں ۔۔۔۔
مگر کیوں۔۔۔۔؟میں نے پوچھا۔
یہ لمبی کہانی ہے۔۔
مجھے کچھ تو بتاؤ۔۔۔۔میں نے اصرار کیا۔۔۔
تو سنو ۔۔۔۔وہ بولنے لگی۔۔۔
بہت عرصہ پہلے کی با ت ہے ۔اس ہوٹل کی جگہ میرا خاندان آباد تھا۔۔۔یہاں بہت بڑی آباد ی مقیم تھی لیکن قیامت خیز زلزلہ آیا اور سب ملیا میٹ ہو گیا۔۔۔سب آبادی ختم ہو گئی اور سامنے جو قبرستان ہے ،اِنہی لوگوں سے آباد ہے ۔۔۔۔اِسی جگہ بیری کا درخت بھی تھاجس پہ ہم آباد تھے۔۔۔یہ بیری کا درخت بہت بڑا اور پرانا تھا۔جس پہ ہمارے آباؤ اجداد ایک عرصہ سے آباد تھے۔۔۔
یہ جگہ کھنڈرات کی شکل اختیار کر چکی تھی لیکن بیری کا درخت سلامت رہا تھا۔۔۔پھر کافی عرصہ بعد اِس ہوٹل کے مالک نے اِس جگہ ہوٹل بنایا۔۔
ہمیں کوئی اعتراض نہیں تھالیکن جب اُ س کا کام چل نکلا تو اُس نے ہوٹل کو وسعت دی اور کمروں کی تعداد بڑھا دی۔۔دوسری عمارت جو بننی تھی اُس میں بیری کا درخت آتا تھا۔۔۔۔ظالموں نے بیری کا درخت کٹوادیا۔۔ہم نے بڑی مذمت کی۔کئی مزدورں کے ہاتھ پاؤں ٹوٹے،کئی مر بھی گئے۔لیکن وہ بیری کا درخت اُکھاڑنے میں کامیاب ہو گئے۔۔۔ہم ناکام ہوگئے ۔۔۔
ہمارا خاندان بکھر گیا۔۔۔جس کا ہمیں بہت دُکھ تھا۔۔۔پھر ہم نے اِس ہوٹل مالک سمیت انسانوں سے بدلہ لینا شروع کر دیا۔۔۔اب کی بار ہم نے ایک ایک کرکے انسان کو نشانہ بنایا۔۔پہلے اُس عامل کو موت کے گھاٹ اتارا،جو پہلے سیدھے راستے پر تھااِس لئے ہم پہ غالب آگیا تھا لیکن جونہی اُس کے پاس دولت آنے لگی وہ خبیث بن گیا۔۔۔بہت سی بُرائیاں اُس میں پیدا ہوگئی تھیں ۔یہی وقت تھا بدلہ لینے کا ۔۔۔اور ہم نے اُس کے لوتھڑے بکھیرے دئیے۔۔۔
اس حادثہ میں بابا اور میں بچ گئے تھے ۔باقی سارے مارے گئے تھے۔۔میرے بابا نے میرا رشتہ دور پار کے رشتے داروں میں کردیا۔۔۔میرا شوہر(سلیمان)ہمارے پاس آگیا۔۔۔اُن کے رشتے دار،خاندان اور میرے تایا ،چچا سبھی قبرستان کے درختوں پر آکر رہنے لگے۔۔۔اِس قبرستان میں بیری کے درخت بہت زیادہ ہیں ۔۔۔اُس دن سے ہم نے ہوٹل کو اپنا نشانہ بنایااور اپنے مرنے والوں کا بدلہ چن چن کر لیا۔۔ہماری انتقام کی آگ ابھی تک ٹھنڈی نہیں ہوئی۔۔۔
تب سے آج تک ہم یہاں رہتے ہیں اور جو بھی یہاں آتا ہے اُسے مار دیتے ہیں ۔۔۔ہم انسانی روپ میں ،آنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اپنی دُشمنی کا بدلہ لیتے ہیں۔۔۔یہ قبرستان روز بروز بڑھتا چلا جاتا ہے ۔جن سے ہم انتقام لیتے ہیں ان کی بقایات،یہاں دفن کرواتے ہیں ۔۔۔ہوٹل مالک کا تمام خاندان بھی یہاں دفن ہے جن کو ہم نے ایک ایک کر کے مار دیا ہے ۔۔۔بس یہی کہانی ہے ۔۔۔۔تم واحد انسان ہو جس پہ ہمارا داؤ نہیں چلا اور تم نے مجھے غلام بنالیا۔۔۔بڑے نیک لگتے ہو۔۔۔۔کب تک نیکیاں کروگے۔۔آخر تم بھی اُس عامل کی طرح بن جاؤگے۔۔۔۔اور پھر۔۔۔
اب تو مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔؟
نہیں ۔۔۔آپ کو یہ سلسلہ ختم کرنا ہوگا۔۔۔
نہیں ۔۔ہم نے قسم کھائی ہے جب تک زندہ ہیں ۔۔۔انسانوں سے بدلہ لیتے رہیں گے۔۔۔
تم زندہ رہوگے تو بدلہ لوگے ۔۔میں تمھیں ختم کر دیتا ہوں ۔۔۔میں نے رُعب دار لہجے میں کہا۔۔میں تمھیں اور تمھارے خاندان کو ختم کر دوں گا۔۔۔نہیں تو یہاں سے چُپ چاپ ہمیشہ کے لئے چلے جاؤ اور وعدہ کروں آئندہ کسی انسان کو تنگ نہیں کروگے۔۔۔
یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔نہیں ہو سکتا۔۔۔
اچھا ۔۔۔تو پھر مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔۔۔تمھارے ساتھ ساتھ سب کو ختم کر تا ہوں۔۔مجھے تو میرے راہبر نے منع کیا تھا ،مگر تم نہیں مانوگے ۔۔تمھیں ختم کر نا ہی ہوگا۔۔
یہ کہتے ہی میں وظیفہ شروع کرنے لگا۔۔۔و ہ چیخنے لگی۔۔۔
نہیں ۔۔۔جس اللہ کو مانتے ہو ۔اُسی کا واسطہ میرے خاندان کو کچھ نہ کہنا۔۔۔اُس نے فوراًہار مان لی۔۔
تم بھی تو اُسی اللہ کی مخلوق ہو۔۔۔اُسی کو مانتے ہو۔۔پھر اُس کی مخلوق کو کیوں اذیت دیتے ہو۔۔۔کیوں مارتے ہو۔۔۔بند کردو یہ سلسلہ۔۔۔
اُس نے میری بات مان لی۔۔۔اب میرے بچے میرے حوالے کرو۔۔۔میں تمھیں آزاد کرتا ہوں۔۔۔
اُس نے اگلی ٹانگ کو حرکت دی اور دھواں سا ہر طرف پھیل گیا۔۔۔بیڈ کے نیچے سے بلی کے دو بچے نمودار ہوئے اور بیڈ پہ چڑھے ۔دوسرے لمحے مجھے دھوائیں میں کوئی چیز نظر آئی ۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے دو انسانی ہیولے نظر آئے ۔دھواں ختم ہوا تو میرے بچے بیڈ پہ پڑے سو رہے تھے۔۔۔تابند ہ مدہوشی کے عالم میں مجھ سے جدا ہوئی اور بیڈ پہ جا کر بچوں کو دیوانہ وار چومنے لگی۔۔۔میں نے اپنے بچوں کو دیکھ کر رب کا شکر ادا کیا۔۔۔۔۔
یا اللہ تیرا شکر ہے ۔۔۔میں دل ہی دل میں اپنے رب کا شکریہ ادا کر رہا تھا۔۔۔اتنے میں کھڑکی سے آواز آئی ۔۔۔اب مجھے تو آزاد کر دو۔۔۔
پھر کسی انسان کو تنگ تو نہیں کروگے۔۔۔؟
نہیں ۔۔۔
چڑیل نے وعدہ کیا ۔۔۔میں نے وظیفہ پڑھنا شروع کیا اور وظیفہ پڑھتا گیا پھونک بلی پہ مارتا گیا۔۔۔وظیفہ مکمل ہوتے ہی ایک طوفان سے اُٹھا۔زور دار طوفان آیا۔۔۔تیز آندھی اور بارش۔۔۔۔ہر طرف جل تھل ہو گئی تھی۔۔۔کھڑکی سے بلی غائب ہو چکی تھی۔۔
طوفان تھما تو قریبی گاؤ ں سے موذن اذان فجر دے رہا تھا۔۔۔رات کا اندھیر ا جھٹ گیا اور سحر ہونے لگی تھی۔۔میں کمرے کے دروازے کے ساتھ کھڑا تھا ۔ تابندہ اور بچے بیڈ پہ سو رہے تھے۔۔۔۔جنات جا چکے تھے ۔۔۔میں خود کوٹٹول رہا تھا۔۔۔میں نے وضو کیا اور نماز فجر ادا کی ۔۔بچوں کو جگایا اور سفر پہ روانہ ہو گئے ۔سورج اپنی کی کرنوں سے روح زمین پہ روشنی بکھیررہاتھااور ہم ہنستے ہنساتے مری پہنچ گئے تھے۔خوب سیر سپاتے ہوئے اور شام تک ہم واپس گھر بھی لوٹ آئے ۔
آج بھی میں جب کبھی اُس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے لگتا ہوں ۔۔وہی تو ہے جس نے ہمیں ہر بلا سے محفوظ رکھا ہوا ہے ۔۔۔۔ اور اشرف المخلوقات بنا کر سبھی مخلوق سے افضل بنادیا ہے۔۔۔یہ کسی نعمت سے کم ہے کہ انسان ہر مخلوق کو اپنے تابع کر سکتا ہے ۔۔۔

(ڈاکٹر خادم حسین کھیڑا، ملتان)

Short URL: http://tinyurl.com/zhmh432
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *