غمِ زیست

Print Friendly, PDF & Email

کالج کے وسیع لان میں لڑکیوں کا گروپ بیٹھا خوش گپیوں میں مشغول تھا ۔باتیں ،قہقہے،نمکو اور چپس کی چھینا جھپٹی ۔وہ سب بے حد مسرور دکھائی دیتی تھیں ۔ہانیہ نے کھڑے ہو کے کپڑے جھاڑے اور کمالِ بے نیازی سے ایک ادا سے اپنے کٹے بالوں کو جھٹکا دیا کافی پینے کون کون چلے گا ؟ میں میں کی صدائیں بلند ہوئیں اؤے ہوئے وہ مسکرائی یہ دیکھو آج ہی بھیا سے پاکٹ منی لی ہے اس نے پیسوں سے بھرا پرس لہرایا ،اوکے کم ان گائیز لیٹس گو اس کی چنچل آواز کے ساتھ لڑکیوں نے نعرہ لگایا اور کھڑی ہو گئیں ۔۔سر وقاص نے گذرتے ہوئے انہیں گھورا ۔کیا ہر وقت ہلڑ مچائے رکھتی ہیں وہ منہ میں بدبداتے ہوئے آفس کی طرف بڑھ گئے ۔ لا لا لا لا ،ہانیہ گنگناتے ہوئے گھر کے لاؤنج میں چکر لگا رہی تھی ،رانیہ نے مونگ پھلی کی ٹوکری سنٹر ٹیبل پہ رکھی ۔شانی کشن گود میں رکھے ٹی وی پہ کرکٹ کا میچ دیکھنے میں محو تھا ۔جبکہ دانی کارپٹ پہ اوندھے لیٹے لیپ ٹاپ پہ تیزی سے انگلیاں چلا رہا تھا ۔رانیہ بھی میچ دیکھنے لگی ۔ہانیہ نے دھپ سے صوفے پہ گرتے ہوئے پاؤں سمیٹ کر اوپر کیے کیا بوریت ہے یار ؟ وہ برا سا منہ بنا کے بولی ۔یس آؤٹ ،شانی نے فرط جوش سے کشن کو مکہ جڑا ۔ آج بڑے فٹ جا رہے نیوزی لینڈ کو مشکل ٹارگٹ دیں گے رانیہ نے تبصرہ کیا ۔ہمم شانی نے سر ہلایا ،ہانیہ نے ریموٹ سے ٹی وی آف کر دیا ،اؤ شٹ منحوس لائیٹ وہ چلایا ۔پھر اس کی نظر ہانیہ کے ہاتھ میں دبے ریموٹ اور اس کی شرارتی مسکراہٹ پہ پڑی۔ہانی کی بچی وہ اس پہ لپکا ،بھائی میں بور ہو رہی وہ منہ بسور کر بولی ۔میں کوئی نہیں اس وقت کہیں لے کے جانے والا تجھے ،شانی گویا اس کا مطمعِ نظر بھانپ کر بولا اور پھر میچ کی طرف متوجہ ہو گیا ۔رانیہ نے مسکراہٹ ہونٹوں میں دبائی ۔بڑے بھائی،اب وہ دانی کے سر پہ سوار تھی ،ہوں دانی نے مسلسل نظریں لیپ ٹاپ پہ مرکوز کیے ہنکارہ بھرا ۔مجھے کنزہ کی طرف چھوڑ آئیں ناں پلیز ۔گڑیا مجھے یہ فائل مکمل کر لینے دو پھر لے جاتا ہوں ،دانی نے مسکرا کر اس کے منہ بسورتے چہرے کو دیکھا ۔آخر وہ تنگ آکر اٹھی اور کچن میں مصروف ماں کے پاس پہنچ گئی مما کیا بنا رہیں ؟پلاؤ بنایا ہے تم زرا جلدی سے سلاد بنا دو تمہارے بابا آنے والے ہیں ،انہوں نے جلدی جلدی توے پہ کباب کو پلٹتے ہوئے کہا ۔مما میں کنزہ کے گھر جا رہی ہوں بھائی کے ساتھ ، اس نے کام سے بچنے کے لیے فورا بہانہ تراشا ۔دماغ خراب ہے شام کے پانچ بجنے والے یہ کون سا وقت ہے کسی کے گھر جانے کا آرام سے گھر بیٹھو مدد کرواؤ میری سارا دن رانیہ لگی رہتی اگلے ماہ اس کی شادی ہو جائے گی تو تب تمھیں پتہ چلے گا ۔ثمینہ بیگم نے ہانیہ کو کھری کھری سنا دیں ۔
وقاص احمد اور ثمینہ کا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تھا ۔اپنا بزنس اور زمین تھی،اللہ نے دو بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا تھا ۔دانیال ایم بی اے کرنے کے بعد باپ کا ہاتھ بٹاتا تھا ۔اس کے بعد رانیہ تھی اس نے بی ایڈ کیا تھا اور اگلے ماہ اس کی اور دانیال کی شادی تھی۔وہ دونوں اپنے ماموں زاد بھائی بہن سے منسوب تھے ۔ اس کے بعد شایان تھا وہ بی بی اے کر رہا تھا سب سے چھوٹی اور لاڈلی ہانیہ تھی جوسیکینڈ ائیر کی طالبہ تھی ۔شوخ چنچل ہنس مکھ سی پیاری سی یہ لڑکی سب کی لاڈلی تھی ۔ایک ماہ بعد رانیہ اور دانیال کی شادی ہوگئی رانیہ رخصت ہو گئی اور ماہا دانیال کی دلہن بن کر آگئی ۔ایسے میں شانی پہ باہر جانے کی دھن سوار ہوگئی وہ تعلیمی ویزے پہ سنگاپور چلا گیا ۔دانیال بزنس کی مصروفیت کی وجہ سے بمشکل ماہا ہی کو وقت دے پاتا ۔ہانیہ اب گریجوشن کر چکی تھی اسے پڑھائی سے خاص دلچسپی نہ تھی ۔سارا دن گھر پہ یا سو کے وقت گذارتی یا نند بھاوج شاپنگ کے لیے نکل جاتیں ۔ثمینہ اب چاہتی تھی کہ ہانیہ کی شادی ہو جائے ۔وقاص احمد کے بڑے بھائی لندن میں ہوتے تھے ان کا ایک ہی بیٹا ،کمال تھا ۔وہ ہانیہ کا رشتہ اس سے کرنے کے خواہشمند تھے ۔گھر کی بات تھی سو فورا ہامی بھر لی گئی ۔کمال جب ماں باپ کے ساتھ لندن گیا تھا تب بمشکل چار برس کا تھا ۔ہانیہ تب ایک سال کی تھی ۔گو ہانیہ کو بیاہ کے لندن ہی جانا تھا ۔اس کے کاغذات بنوانے کے لیے نکاح ضروری تھا ۔باہم مشورے سے فون پہ نکاح کر دیا گیا ۔ہانیہ نے ابھی تک کمال کو ایک دو بار اسکائپ پہ ہی دیکھا تھا اور بات چیت کی تھی کمال کا کہنا تھا وہ اب روبرو ہی ملیں گے وہ بزنس میں بہت مصروف ہوتا ہے مگر ہانیہ کے آنے پہ وہ ورلڈ ٹور پہ جائیں گے اور وہ ہانیہ کو خوب سیر کروائے گا ۔ہانیہ بھی سنہری سپنے بن رہی تھی ۔آخر وہ دن بھی آن پہنچا جب ہانیہ رخصت ہو کر پاکستان سے لندن کی فضاؤں میں اتری اس کے تایا اور فیملی اسے لینے آئے تھے تب اس نے پہلی بار کمال کو دیکھا ،قدرے چھوٹا سا قد گہرا سانولا رنگ چہرے پہ چیچک کے داغ اسے بدصورت بنا رہے تھے ۔وہ گرم جوشی سے آگے بڑھا اور اس کا ہاتھ تھام لیا ہانیہ کا سفید ہاتھ کمال کے سانولے بالوں والے ہاتھ میں ایک سہمے کبوتر کی مانند لرز رہا تھا ۔کمال نے اس لرزش کو شرم پہ محمول کیا راستے بھر ہانیہ خاموش رہی اس کے سپنوں کا تاج محل کمال کو دیکھتے ہی ٹوٹ چکا تھا ۔مگر گھر پہنچنے تک وہ کافی حد تک خود پہ قابو پا چکی تھی ۔جبکہ کمال کو وہ بہت پسند آئی نازک سی لڑکی جو اس کی ماں کی کسی بات کے جواب میں نظریں جھکائے مسکرا دی تھی۔
گھر پہنچ کر اسے ہاتھوں ہا تھ لیا گیا ۔اس کا روم بہت اچھی طرح ڈیکوریٹ کیا گیا تھا ہر طرف سفید اور سرخ گلاب تھے ۔ہانیہ کو شکل کا ملال دھلتا دکھائی دیا ۔کمال نے اسے منہ دکھائی میں ہیرے کی بہت خوبصورت انگوٹھی دی۔اگلے دن وہ ہنی مون پہ روانہ ہوگئے ۔پندرہ روزہ اس ٹور میں انھوں نے بہت سیر کی باالآخر وہ گھر لوٹ آئے ۔ہانیہ کافی حد تک ایڈجسٹ کر چکی تھی ۔اب معمول کی زندگی شروع ہو چکی تھی کمال کااپناذاتی فلیٹ تھا وہ جلد وہاں شفٹ ہو گئے کیونکہ وہ کمال کے آفس سے قریب تھا ۔سرمئی دھوپ ڈھل چکی تھی ہانیہ نے بہت دل لگا کر کھانا تیار کیا ،اور تیار ہو کر کمال کا انتظار کرنے لگی اس دوران اس کی مما کی کال آگئی ۔رانیہ کو اللہ نے بیٹے سے نوازا تھا ہانیہ نے باری باری سب سے بات کی اور مبارکباد دی جب فون بند ہوا تو شام کے سائے چھا رہے تھے اور کمال کا کوئی اتا پتہ نہ تھا ۔آخر اس نے کمال کے نمبر پہ کال کی اس نے کال کاٹ دی ہانیہ بہت پریشان تھی انجانا ماحول کیا کرے کیا نہ کرے ساس سسر بھی دوسرے شہر تھے ۔رات کے نو بجے دروازے پہ بیل ہوئی ۔ہانیہ نے کی ہول سے دیکھا تو کمال کھڑا تھا ،اس کی جان میں جان آئی وہ دروازہ کھول کے اس سے لپٹ گئی کہاں رہ گئے تھے آپ ؟ایک ناگوار سی بو اس کی سانسوں سے ٹکرائی اس نے بمشکل اپنی ابکائی روکی ۔کمال شراب کے نشے میں تھا ۔ہانیہ اس کو سہارا دے کر اندر لائی وہ دھڑام سے جوتوں سمیت بستر پہ دراز تھا ۔ہانیہ نے اس کے جوتے اتارے اور اس پہ کمبل دیا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اس صورتحال میں کیا کرے ۔وہ خاموشی سے بیڈ کے دوسرے کنارے پہ لیٹ گئی ۔نجانے کیوں اس کا دل اندیشوں میں گھر گیا ۔سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی ۔صبح کھٹر پٹر سے اس کی آنکھ کھل گئی اس نے بیڈ پہ نظر دوڑائی کمال وہاں نہیں تھا پھر کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی ۔وہ جلدی سے اٹھی اتنے میں کمال کپ تھامے کچن سے برآمد ہوا ،آپ کب جاگے مجھے جگا دیا ہوتا؟ اس نے ہاتھوں سے بال سمیٹے اور اس میں کیچر اڑایا ۔کمال خاموش رہا اور کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے اس کے چہرے کو غور سے تکتا رہا۔وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔یکایک وہ اٹھا اور گرم کافی اس کے ہاتھ پہ انڈیل دی ،ہانیہ نے ایک چیخ ماری اوراٹھ کر کچن میں بھاگی اور نل کے نیچے ہاتھ کر دیا بے انتہا جلن ہو رہی تھی اس کی آنکھوں میں تکلیف سے آنسو آگئے۔کمال کا رویہ اس کی سمجھ سے بالاتر تھا ۔وہ اس کے پیچھے آکر کھڑا ہوگیا اور اس کے بال پکڑ کر سر اپنی طرف موڑا ،وہ درد سے چلائی ۔چپ چپ ادھر آؤ اس کی کلائی تھامے اسے بیڈ پہ بٹھایا اور فرسٹ ایڈ باکس کھول کر اس کے ہاتھ کو تھام لیا گرم کافی نے اس پہ سرخ چھالے ڈال دیئے تھے ۔ان پہ برنال لگا کر اسے بیڈ پہ لٹا کر اس کا گال تھپتھپایا تم آرام کرو میں ناشتہ بنا کر ابھی لایا ۔کچھ دیر بعد وہ اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر اس کے منہ میں ڈال رہا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ کمال کے اس پاگل پن میں شدت آتی جا رہی تھی اب وہ اس پہ ہاتھ اٹھانے لگا تھا شراب پی کر اسے وحشیوں کی طرح بھنبھوڑتا ۔جان بوجھ کر اسے اذیت دیتا کبھی سگریٹ سے داغتا اس کے رونے اور چیخنے چلانے پہ وہ مسکراتا جیسے اسے کوئی روحانی خوشی مل رہی ہو۔رفتہ رفتہ اس کا پاگل پن بڑھتا جا ہا تھا دوسروں کے سامنے اس کا رویہ انتہائی محبت والا ہوتا کہ کسی کو شک بھی نہ گذرتا کہ اصلیت کیا ہے ۔ہانیہ کسے بتاتی کون تھا جو اس پہ یقین کرتا ۔ہانیہ ذہنی مریضہ بنتی جا رہی تھی کمال کے آفس جانے کے بعد وہ سکون کا سانس لیتی کسی کو کچھ کہہ نہ دے اس ڈر سے کمال گھر کو باہر سے لاک کر جاتا ۔اسی دوران دانی کی آمد کی اطلاع آئی کمال نے ہانیہ کو دھمکی دی کہ خبردار تم نے کوئی بات اس کو بتائی۔ہانیہ چپ کی چپ رہ گئی،دو دن بعد دانی آیا کمال نے اس کا پرجوش ویلکم کیا سائے کی طرح ساتھ رہا ہانیہ کے خوب ناز نخرے اٹھاتا رہا جیسے ان کی زندگی انتہائی خوشگوار ہو ۔دانی دو دن رہا ۔اور کمال سے بہت متاثر ہو کر گیا ۔
اس دن آسمان پہ سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے ،کمال کچھ دیر پہلے ہی باہر سے آیا تھا اپنے کمرے میں آکر اس نے الماری سے وائن کی بوتل نکالی اور ہانیہ کو ساقی گری کا کہا اس کے چہرے پہ تشویش تھی وہ پریشان لگ رہا تھا ۔دو پیگ پینے کے بعد اس نے کمرے میں ٹہلنا شروع کر دیا نشے کے اثرات غالب آرہے تھے چلتے چلتے اسے ٹھوکر لگی اور وہ لڑکھڑایا ۔ہانیہ نے اسے سہارا دیا اس نے غصے میں تپائی کو ٹھوکر ماری اور ہانیہ کے بال ہاتھوں میں جکڑ لیے اور اسے پیٹنا شروع کر دیا وہ نہایت بے دردی سے ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا اور ہانیہ کو پیٹ رہا تھا ۔ہانیہ کا سر بیڈ کے کونے سے ٹکرایا اور وہ بے سدھ ہوگئی۔کمال نے اس بیڈ پہ لٹایا اور اس کے ماتھے پہ بینڈیج کی اسے ہوش میں لایا ۔ہانیہ پھٹی پھٹٰی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔اس کا مہربان رویہ اب اسے اس کا دوغلا پن سمجھ نہیں آرہا تھا ۔سر کی تکلیف الگ ہو رہی تھی اس نے تکلیف سے آنکھیں موند لیں آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر تکیے میں جذب ہوتے گئے۔
کچھ دن سے وہ بخار میں مبتلا تھی گھر میں موجود ادویات کھانے کے بعد بھی اسے آرام نہیں آیا ۔شاید سوچوں اور تذلیل کا دکھ بخار کی صورت بھڑاس نکال رہا تھا ،آج اتفاق یا اس کی خوش قسمتی کہ کمال جلدی میں تالا لگانا بھول گیا ،وہ سردی سے کانپتے ہوئے گھر سے باہر نکل آئی سڑک کے کونے پہ ایک کلینک تھا وہ وہاں چلی گئی ۔وہ ایک انڈین لیڈی ڈاکٹر تھی اس نے اس کی حالت کے بابت پوچھا ہانیہ نے سب کہہ سنایا ڈاکٹر نے اسے حیرانی سے دیکھا تم کب سے یہ سب برداشت کر رہی یہ پاکستان نہیں تم پولیس سے رجوع کرو وہ تمھیں تحفظ دے گی۔لو کال کرو،ہانیہ نے کال کی اور ساری صورتحال بتائی ۔پولیس نے کمال کو گرفتار کر لیا اور اس پہ ہانیہ کو حبسِ بے جا میں رکھنے کا مقدمہ درج ہوا ۔اور ہانیہ کو لندن گورنمنٹ نے اپنے خرچے پہ ہاسٹل دیا جہاں اسے ہر ہفتے مخصوص رقم خرچ کے لئے دی جاتی ۔کمال کے والدین نے اس کی ضمانت کر وا لی وہ ہانیہ سے بھی ملنے آئے اور صلح کے لئے کہا مگر ہانیہ خلع لینا چاہتی تھی وہ قطعا کمال پہ اعتبار کرنے کو تیار نہ تھی ۔ہانیہ کے والدین بھی چاہتے کہ صلح ہو جائے ۔مگر ہانیہ نے ان کو بھی انکار کر دیا ۔کمال ٖنے غصے میں ہانیہ کو بد کردار قرار دیا اور اس کے والدین کو بھی اس کے متعلق گمراہ کیا پورے خاندان میں باتیں ہونے لگیں ۔ہانیہ کے والدین نے کمال سے وعدہ کیا کہ وہ ہانیہ کو واپس پاکستان بلوا کر اس رشتے کو از سر نو قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ہانیہ نے اپنے والدین سے فون پہ بات کی تو انہوں نے اسے کمال کے ساتھ واپس جانے کو کہا اس بات نے اس کے دل میں گرہ سی لگا دی وہ دوبارہ وہ زندگی جینا نہیں چاہتی تھی ۔اس نے اپنے تمام کانٹیکٹ نمبر بند کر دیئے اس کے خیال میں اسے اب خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے وہ کورٹ میں خلع کا مقدمہ دائر کر چکی ہے اور جلد علیحدگی کے بعد پاکستان واپس چلی جائیگی،مگر سوال یہ ہے کیا پاکستان میں اسے کوئی سپورٹ کرے گا ؟ایک اکیلی طلاق یافتہ عورت اس نام نہاد مردانہ معاشرے میں پنپ پائے گی؟شاید ان سوالوں کا جواب قبل از وقت ہے ۔

(عفت بھٹی)

Short URL: http://tinyurl.com/goz7ml7
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *