مہنگے کپڑے

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: حنا شاہد، بوریوالا
شادی سے واپس آتے ہوئے اس کا موڈ کافی خراب ہو چکا تھا۔وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ پریشان نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ ایک مضبوط عورت تھی ہر کڑوی بات کو میٹھی مسکراہٹ سے سہہ جانے والی۔لیکن آج نجانے کیوں وہ جھنجھلا گئی تھی۔یہ بھی نہیں تھا آج سے پہلے اس نے ایسی باتوں کا سامنا نہیں کیا تھا لیکن انسانی فطرت ہے کہ اگر کوئی بات بار بار دہرائی جائے تو جھنجھلاہٹ یقینی ہوتی ہے۔اس کے ساتھ بھی یہی ہورہا تھا۔ سنا ہے اس کا میاں ڈاکٹر ہے، لیکن کپڑوں سے تو نہیں لگ رہا۔بھئی ان کے بچوں سے اچھے اور مہنگے تو ہمارے بچے کپڑے پہنتے ہیں۔اور یہ تو وہی سوٹ ہیں نا جو انہوں نے پچھلے ماہ سدرہ کی شادی پہ پہنے تھے شادی ہال میں پاس کھڑی دو عورتوں کی سرگوشی،جو بظاہر سرگوشی کم اور اعلان زیادہ معلوم ہورہی تھی اس کے کان تپا گئے تھی۔ اب بھی یہ الفاظ اس کی سماعتوں میں جوں کے توں گونج رہے تھے۔اس نے ماتھے پہ بل ڈال کے ڈرائیو کرتے احمر کی طرف دیکھ کے کہا۔بس!بہت ہوگیا،اب میں بھی اپنے بچوں کو برانڈڈ کپڑے پہناؤں گی۔کم از کم ان روز کے طعنوں سے تو جان چھوٹے گی۔وہ واقعی سخت جھنجھلائی ہوئی لگ رہی تھی۔احمر نے ذرا سی گردن موڑ کے اس کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں حیرت تھی۔یہ یہ تم کہہ رہی ہو؟بھء میں نے کب منع کیا ہے تمہیں؟تم خود ہی تو کہتی ہو جب ہم ایک بہت مہنگا اور برانڈڈ سوٹ لیتے ہیں تو بہتر ہے اس کی جگہ دو اچھے لیکن کم مہنگے سوٹ لے لیں۔ایک اپنے بچے کیلئے اور ایک کسی ضرورت مند کے بچے کیلئے۔۔۔اور یقین مانو جو کپڑے ہم اس جہاں میں کسی غریب کو لے کر دیں گے وہ اگلے جہاں کیلئے ہماری سیونگ ہوگی۔احمر نے اس کے کہے ہو بہو الفاظ اسے یاد کروائے.(وہ کرتی بھی ہمیشہ ایسے ہی تھی) ”ہاں تو ٹھیک ہی کہتی ہوں”۔اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنا تو ہم پر فرض ہے۔ تو کیا اچھا نہیں کہ ضروریات کو ضروریات ہی رکھا جائے آسائشات میں نہ بدلا جائے۔بلکہ جو پیسہ اپنے بچوں کی آسائشات پہ خرچ کرنا ہو وہ کسی اور کی ضروریات کیلئے خرچ کر دیا جائے۔اب کی بار وہ ہمیشہ کی طرح سوچ کے بولی تھی۔ ”لیکن احمر یہ عورتیںیہ عورتیں مجھے غصہ دلا دیتی ہیں۔دیکھو تو ہمارے کپڑے کتنے نفیس ہیں لیکن وہ شازیہ کہہ رہی تھی یہ پرانے ہیں ہم نے پچھلے ماہ سدرہ کی شادی پہ پہنے تھے۔مجھے بس غصہ آگیا اس بات پہ۔ اب وہ قدرے نارمل ہو گئے تھی اور اپنا پچھلا رویہ اسے احمقانہ لگ رہا تھا کہ یہ تو کوئی نئی بات نہیں تھی ایسی دقیانوسی سرگوشیاں تو وہ عرصے سے سنتی آرہی تھی۔اس نے ماتھے پہ ہاتھ مار کے اپنی کوفت دور کرنا چاہی۔ احمر کافی دیر سے اس کی ہر حرکت پہ غور کر رہا تھا۔ دیکھو آئمہ! اگر تعلیم انسان کے دماغ سے ہو کر گزرے تو اس کی طبیعت میں سادگی آجاتی ہے وہ جتنی ترقی کرتا جائے گا اتنا ہی سادہ ہوتا جائے گا۔لیکن اگر یہی تعلیم انسان کے سر پر سے گزرے تو وہ محض ڈگری ہولڈر ہوگا چاہے کوئی ڈاکٹر ہو، پروفیسر ہو،

Short URL: http://tinyurl.com/y284xjgx
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *