خواجہ سعد رفیق صاحب ! جمہوریت کے ثمرات مگر کہاں
تحریر:رشید احمد نعیم،پتوکی
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ایک بار پھر عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا،ان کا کہنا تھا کہ نیازی صاحب! کس نے کہا تھا کہ شیر کی کچھار میں ہاتھ ڈالو؟ سیاست سنجیدہ لوگوں کا کام ہے، آپ جو کھیل کھیل رہے تھے، کھیلتے رہتے۔صوابی میں مسلم لیگ ن کے منعقدہ جلسے سے خطاب میں انہوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ آپ تو شروع سے ہیرو تھے، سیاست نیچے سے اوپر آنے والوں کا کام ہے۔خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ آپ شغل کرتے ہو۔قوم سے مذاق کرتے ہو۔ آپ کے پیٹ میں درد کیوں اٹھتا ہے جب موٹروے بنتی ہے، بجلی کے کارخانے لگتے ہیں؟انہوں نے یہ بھی کہا کہ عمران خان صاحب! آپ کو ملک کی ترقی سے خوشی کیوں نہیں ہوتی، آپ جمہوریت کے لیے بوجھ بن گئے ہیں۔وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پاکستانی سیاست کا ’’زمانہ جاہلیت‘‘ گزر چکا ہے، اب تبدیلی ڈنڈے، یا دھرنے سے نہیں بلکہ ووٹ سے آئے گی،پاناما کا جلد ہی پاجامہ بن جائے گا،صوابی والو! آپ نے سب کو آزما لیا، لوگوں نے ووٹ لیے، جب آپ نے حکومت دی تو وہ واپس نہیں لوٹے،اس بار 2018ء میں نواز شریف کو ووٹ دے کر دیکھو، صوابی اور خیبر پختونخوا کی قسمت بدل جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ جب ہمیں 2013ء میں ملک کی حکومت ملی تو ایک دن میں دس دس بم پھٹا کرتے تھے، پاکستان دہشت گردی کی آگ میں جل رہا تھا، کراچی مقتل بنا ہواتھا،لوڈشیڈنگ اپنی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی اور بجلی بنانے کا کوئی کارخانہ نہیں لگایا جارہاتھا،دنیا کہہ رہی تھی کہ 2018ء میں پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا، پھر نوازشریف آیا اور حالت بدلنے لگے، چین نے نواز شریف سے کہا کہ پچھلوں پر اعتبار نہیں تھا، آپ پر اعتبار ہے۔سعد رفیق نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ’’ سی پیک‘‘ کسی ایک شہر کے لیے نہیں پورے ملک کی خوشحالی کا منصوبہ ہے، ملک بدلنا شروع ہوا تو بعضوں کے پیٹ میں درد ہونے لگا،جب موٹروے بنتا ہے، ریلوے ٹھیک ہوتا ہے، بجلی آتی ہے تو ان کے پیٹ میں درد کیوں اٹھتا ہے، عمران خان خود تو کچھ نہیں کرسکے، پشاور کے چوہے تو مار نہیں سکے، یہ پولیو کو کنٹرول نہیں کرسکے، ان کے سو کروڑ درخت کہاں گئے؟؟؟خواجہ صاحب! بصد احترام سوال ہے کہ کون سی جمہوریت ؟ آپ کس جمہوریت کی بات کر رہے ہیں ؟ خواجہ صاحب ! آپ کی حکومت کی زیرنگرانی جمہوریت کے نام پرپاکستان میں جو نظام چل رہا ہے وہ جمہوریت کم او ر’’ مجبوریت‘‘ زیادہ لگتا ہے ۔اس نام نہاد جمہوریت میں غریب اور امیر کے لیے الگ الگ پیمانے مقرر ہیں۔ معمولی نوعیت کے چوری کے واقعات و مقدمات میں ملوث چور تو جیل میں جاتا ہے مگر وطنِ عزیز کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے بڑے بڑے ڈاکو اژدھا کی طرح پھنکارتے اور دندناتے پھر تے ہیں ۔ ان پر ہاتھ ڈالنے والا کوئی نہیں ہے۔ ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ۔ان پر قانونی گرفت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ جس کی لاٹھی ،اس کی بھینس والا فارمولہ چل رہا ہے۔ نیب جیسا ادارہ بھی آپ کے سامنے بے بس ہے ۔ہر طرف لا قانونیت کا رقص جاری ہے ۔طاقتور کمزور کو دبائے ہوئے ہے،حاکم محکوم کی گردن کے گرد شکنجہ کسے ہوئے ہے ۔جاگیردار ،سرمایہ دار ،وڈیرا اپنے مزارعوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ظلم و بربریت کی ایک بھیانک تاریخ انتہائی ڈھٹائی سے رقم کی جا رہی ہے قیام پاکستان کے بعد جب وطنِ عزیز مخلص قیادت سے محروم ہو گیا تو اس خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مفاد پرست ٹولہ ملک پر غالب آگیا جو مختلف نام و اشکال کی صورت میں آج تک مسلط ہے ۔چند خاندانوں پر مشتمل اشرافیہ اس ملک کے وسائل پر مکمل طور پر قابض ہے جبکہ بیس کڑور مجبور ومحکوم عوام کے لیے کو ئی معیشت ہے نہ کاروبار۔ مال و جان کا تحفظ ہے، نہ حقوق کی پاسداری ۔جینے کا حق ہے ،نہ کسی کی عزت و آبرو محفوظ ۔یہ ملک صرف اورصرف چندگنے چنے لوگوں کی جاگیر بن کر رہ گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کا قیام کروڑوں افراد کے لیے تھا یا چند ہزار لوگوں کے لیے ؟؟؟ کیا مہنگائی ،بے روزگاری اور کرپشن کے خلاف کڑھناہی عوام کا مقدر بن کر رہ گیا ہے ؟ ۔درحقیقت یہ سارا نظام دجالی نظام ہے جسے آپ نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بنایا ہے ۔ آپ عوام کو اپنے استحصالی نظام میں جکڑکررکھناچاہتے ہیں اور حق حکمرانی اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔یہ سمجھتے ہیں کہ عوام صرف آپ کی محکومی کے لیے جنم لے رہی ہے ۔جس میں شریف اور کمزور کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اسمبلی میں بیٹھا ہر شخص جھوٹ بولتا ،مکرو فریب سے کام لیتا،اپنے اقتدار کے دوام کے لیے ملک وقوم سے سیاست کرتا ہے۔ توجہ دلانے پر بجائے شرمندگی محسوس کرے،ہٹ دھرمی اورڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے پر فخر محسوس کرتا ہے ۔ غریب عوام کی زندگی مشکلات سے دو چارہے ،پٹرول پر بے شمار ٹیکس لگا کرعوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے ۔سی این جی ویسے ہی غائب رہتی ہے،لوڈ شیڈنگ سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں۔اس وقت پاکستانی عوام مجبوری و مقہوری کی تصویر بنی نظر آتی ہے۔۔موجودہ حالات میں پاکستانی قوم کا حال یہ ہے کہ غریب کو اپنی جان اور روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اوروہ اسی پریشانی میں ہی گھومتے پھر رہے ہیں۔ آپ نے اس قوم کو روٹی روزی کے حصول کی جدوجہد میں اس حد تک پھانس کر رکھ دیا ہے کہ عوام کو کوئی دوسرا خیال آنے ہی نہیں دے رہے ہیں۔فیکٹریوں ،کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور 12سے 18گھنٹے کام کے بعد معاشی تنگدستی کا شکار ہیں۔ ان کو اپنے گھروالوں کے لیے روٹی روزی کے حصول کی کوششیں اور بھوک اور افلاس میں گھری صورتحال ہی سر اٹھانے نہیں دیتی۔بھوک وافلاس کی ماری قوم ذہنی غلام بن چکی ہے۔جس میں غلامی سے آزادی کی حس ہی نہیں رہی۔یہی وجہ ہے کہ اسی چیز کو دیکھتے ہوئے آپ جیسا حکمران طبقہ تمام تر عوامی احتجاج اور سنگین صورتحال کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چین کی بانسری بجا رہاہے اور حلوہ کھانے میں مگن ہے۔آپ کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ آپ کی ذمہ داری کیا ہے اور رعایا آپ سے کیا چاہتی ہے؟۔آج پاکستان کو اغیار کی کالونی بنا دیا گیا ہے ،جہاں را،موساد،سی آئی اے،بلیک واٹرمختلف شکلوں اورصورتوں میں ملک کی بقاء اور سا لمیت سے کھیل رہی ہے۔پاکستان میں ملک دشمن عناصراس ارض وطن کونقصان پہنچانے کی سازشوں میں مصروف ہیں،جن سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کے ادارے پوری جانفشانی اور جرات سے کام کر رہے ہیں۔پتہ نہیں آپ کس جمہوریت کے گن گا رہے ہیں؟۔وہ جمہوریت جس کو بچانے کے لیے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ صاحب دن رات ہلکان ہو رہے ہیں۔اسی جمہوریت کا تحفظ کرتے کرتے پاکستان کی سب سے منظم جماعت ۔۔۔ جماعت اسلامی کھڈے لائین لگ کر چار دیوری کے اندرمحدود ہو گئی ہے۔جی ہاں !یہ ہی وہ جمہوریت ہے جس میں محمود اچکزئی جیسے لوگ مراعات بھی وطنِ عزیز سے حاصل کر رہے ہیں اور ہرزہ سرائی بھی پاکستان کے خلاف کر رہے ہیں۔اس جمہوریت کا حُسن ملاحظہ فرمائیں کہ دھرتی ماں کو ناسور کہا جاتا ہے۔دہشت گردی کی آماجگاہ قرار دیا جاتا ہے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں او ر پھر اخبارات میں تین سطور کا عاق نامہ یا اعلانِ لاتعلقی کا بیان دے کر محبِ وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لیا جاتا ہے۔اسی جمہوریت کی بدولت اسفند یار جیسے سیاستدان پہچان پاکستان سے حاصل کرتے ہیں مگر پاکستان کے خلاف بولنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔آیئے آئین کے تناظر میں جمہوریت جمہوریت کی رٹ لگانے والے مولانا ٖفضل الرحمن کو دیکھیے جو آج بھی کشمیر ی عوام پر ہونے والے مظالم یا پاکستان و بھارت کی موجودہ جنگی کشیدگی کے موقع پر وطن عزیز کے مفاد کی بجائے صرف جمہوریت بچاؤ مہم پر کام کر رہے ہیں یہ ہے وہ جمہوریت جس کی بقاء کی جنگ لڑنے کے لیے پرویز رشید، طلال چوہدری، راناثناء اللہ،دانیال عزیز،زعیم قادری،عابد شیر علی خواجہ آصف اور آپ ہمہ وقت قوم کو جمہوریت کے ثمرات سے آگاہ کر نے میں مصروف ہیں۔مگر ان ثمرات سے کون کون مستفید ہو رہا ہے ؟ یہ کوئی نہیں بتاتا بلکہ سوال کرنے والے کو جمہوریت کا دشمن قرار دے دیا جاتاہے۔ احتساب کی بات کرنے والے کو معیشت کا قاتل کہا جاتا ہے۔اس طرز حکومت پر بات کرنے اور حق و صداقت کی آواز بلند کرنے والوں کے سرپر سائبر کرائم بل کی تلوار لٹکا دی جاتی ہے۔ جمہوریت کے پجاریوں سے میرا ایک سوال ہے کہ اگر یہ جمہوریت کا حُسن ہے، اگر یہ جمہوریت کی خوبصورت تصویر ہے، تو پھر جمہوریت کا بھیانک چہرہ کیسا ہو گا ؟
سوال یہ بھی ہے کہ کون سی جمہوریت؟؟؟کیسی جمہوریت؟؟؟وہ جمہوریت جس میں ایک میٹرریڈر چند سالوں میں اپوزیشن لیڈر تک کا سفر طے کر لے؟؟؟وہ جمہوریت جس میں محمود اچکزئی کا پورا خاندان حکومتی عہدوں اور پرکشش مراعات سے لطف اندوز ہو رہا ہو ؟؟؟وہ جمہوریت جس میں مولانا فضل الرحمان سدابہار چیرمین کشمیر کمیٹی کی کرسی کے مزئے جھولتے ہیں ؟؟؟وہ جمہوریت جس میں الطاف حسین ’’را ‘‘ سے مالی ،ا خلاقی اور دفا عی مدد مانگ کربھی محب وطن کہلائے؟؟؟وہ جمہوریت جس میں نیب زدہ سیاست دان وزراء اعظم ،وزرا ء اعلیٰ اور وزرا ء قلیدی ریاستی عہدوں پر فائزہو جاتے ہیں ؟؟؟وہ جمہوریت جس میں کروڑوں کی کرپشن کو برا نہ سمجھا جائے ؟؟؟وہ جمہوریت جس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بے روز گاری سے تنگ آ کر جرائم کی دنیا میں داخل ہو کر مجرم کہلاتے ہیں جب کہ پیسے اور اثرورسوخ کے بل بوتے پر آپ کے سیاستدان بھائی جعلی ڈگری کے سہارئے رکن اسمبلی بن کر مراعات کے مزئے لوٹتے ہیں ؟؟؟ایسی جمہوریت جس میں ہر طرف رشوت کا بازار گرم ہو؟؟؟قتل و غارت روزکامعمول بن چکا ہو؟؟؟لا قانونیت کا رقص جاری ہو؟؟؟چادراور چار دیواری کا تحفظ خواب بن گیا ہو ؟؟؟ایسی جمہوریت جس میں پانچ سو روپے چوری کرنے والاپابندسلاسل اور کروڑوں روپے کی کرپشن میں ملوث اقتدار کے جھولے جھولنے میں مصروف ہو ؟؟؟ایسی جمہوریت جس میں میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اقربا پروری کے فروغ پر فخر محسوس کیا جارہا ہو؟؟؟وہ جمہوریت جس میں وطن عزیزکے شہری بنیادی سہولتوں سے محروم ہوں اور ارکان اسمبلی ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ اور مراعات کی مد میں وصول کر رہے ہوں؟؟؟ایسی جمہوریت جس میں عوام مہنگائی ،بے روزگاری اور تنگدستی کی چکی میں پس رہی ہو؟؟؟ایسی جمہوریت جس میں عوامی نمایندے منتخب ہونے کے بعد اگلے انتخابات تک چہرہ دکھانے میں ہتک محسوس کرتے ہوں ؟؟؟ایسی جمہوریت جس میں کمیشن مافیا،قبضہ مافیا اور بھتہ مافیاکا راج ہو؟؟؟ایسی جمہوریت جس میں سیاست دان اور حکومتی ارکان قومی وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں ؟؟؟اگر اسی کا نام جمہوریت ہے توخدا کے لیے ہمیں ایسی جمہوریت نہیں چا ہیے ۔خدا ایسی جمہوریت سے محفوظ رکھے جس جمہوریت میں جمہوریت کی بھیانک چھتری تلے غنڈے،بد معاش،چور ،رہزن، اور لٹیرے پرورش پائیں اور عوام کا خون پئیں۔ ہمیں ایسی جمہوریت سے دور رکھیں جو قبضہ گروپوں کے لیے تقویت کا باعث بنے۔ہم پناہ مانگتے ہیں ایسی جمہوریت سے جس میںآپ ، رانا ثنا اللہ۔ پرویز رشید ، خواجہ آصف،عابد شیرعلی،زعیم قادری ،دانیال عزیزجیسے کھلنڈرے ،عقل سے پیدل اور زمینی حقائق سے نا آشناء وزراء بن جائیں۔ہمیں ایسی جمہوریت سے محروم ہی رہنے دیں جس میں جب آپ کی بدعنوانیوں سے پردہ چاک ہونے لگے تو جمہویت کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔ آپ اس جمہوریت کی بات کرتے ہیں جس میںآپ جیسا حکمران ٹولہ جمہوریت کے نام پر بیس کروڑ عوام کو دن رات لوٹنے میں مصروف ہے اور پھر اسی لوٹ مار پر اکتفا نہیں کر رہے ہیں بلکہ لوٹی ہوئی دولت کو بیرون ملک منتقل کرنے پر آپ کو ذرا بھرشرمندگی کا احساس نہیں ہوتاوزیراعظم جناب میاں نواز شریف اور وفاقی وزرا ء نے پاناما لیکس کو جمہوریت کے خلاف سازش قراردیتے ہوے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ یہ سب پاکستان کی خو شحالی اور ترقی کے ان مخالفین کی ملک کے خلاف گہری سازش ہے جو موجودہ حکومت کی طرف سے وطن عزیز میں لائی خوش حالی اور ترقی کے مخالف ہیں سوال یہ ہے کہ کون سی خوشحالی اور ترقی آگئی ہے ؟؟؟ذراعوام کو بھی بتایا جائے ۔کیا ملک میں بے روزگاری ختم ہو گئی ہے ؟؟؟کیا مہنگائی دم توڑگئی ہے؟؟؟کیا دہشت گردی اپنی موت آپ مر گئی ہے؟؟؟کیا اقربا پروری اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے؟؟؟کیا رشوت کا گرم بازار ٹھنڈا ہو گیا ہے؟؟؟کیا امن و امان کی صورت حال بہتر ہو گئی ہے؟؟؟کیا لوڈشیڈنگ کا جن بوتل میں بند ہو چکا ہے؟؟؟کیا انصاف اور میرٹ کا قتل عام کرنے والوں کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے؟؟؟کیا امدادی پیکج کے نام پر کسانوں کو دی گئی خیرات سے ان کی ٹوٹی ہوئی کمر سیدھی ہو گئی ہے؟؟؟کیا سرمایہ داروں نے غریب کا معاشی قتلِ عام بند کر دیا ہے؟؟؟کیا وزیروں، مشیروں،ارکان اسمبلی اور حکومتی چہیتوں کے’’ اللو ں تللوں ‘‘پر قومی وسائل کا بے دریغ استعمال روک دیا گیا ہے؟؟؟کیا تھانہ کلچر تبدیل ہو گیا ہے؟؟؟کیا پولیس کی آمرانہ سوچ میں کوئی کمی آ گئی ہے؟؟؟کیا ترقیاتی کاموں میں’’ کمیشن مافیا ‘‘ابدی نیند سو گیا ہے؟؟؟کیا بھتہ خور قانونی شکنجے میںآگئے ہیں ؟؟؟کیا سٹریٹ کرائم کی شرح صفر ہو گئی ہے؟؟؟کیا عوامی نمائندو ں اور غریب عوام کے درمیان رابطے کے فقدان کا پہاڑ زمین بوس ہو گیا ہے؟؟؟اگر جواب ہاں میں ہے تو کسی ایک چیز کی نشاندہی کر دیں جو تبدیل ہوئی ہے اور اگر جواب نفی میں ہے تو خدا کے لیے عوام کو بے و قوف بنانے کا سلسلہ بند کر دیں کیونکہ خو شحالی آئی ہے یقیناًآئی ہے مگر جوخوشحالی آئی ہے عوام کے لیے نہیں وہ رسہ گیروں ،سرمایہ داروں ،ذخیرہ اندوزوں،ڈاکوؤں،چوروں،بدمعاشوں،راہزنوں،قانون شکنوں اور لٹیروں کے لیے آئی ہے جس سے وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔امن و امان کی صورت حال یہ ہے کہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں معمار ان قوم کو پرسکون اور محفوظ ماحول کی فراہمی آ پ سے ممکن نہیں ہو پا رہی ہے پٹرولیم مصنوعات پر مصنوعی ٹیکسوں کے ذریعے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ زنی کا ارتکاب کرتے ہوئے لوٹ مار کا قانونی بازار گرم کر رکھا ہے۔ مہنگائی اور بے روز گاری انتہا کو پہنچ چکی ہے ۔اساتذہ جیسا مقدس اور قابل احترام طبقہ سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہے۔ غربت کی چکی میں پسی ہوئی عوام کے لیے جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنا دشوار ہو چکا ہے لاقانونیت انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ رشوت کے بغیر کسی مسلئے کا حل دیوانے کے خواب کے مترادف ہے عوام کی آنکھیں ترقیاتی کاموں کو دیکھنے کے لیے ترس رہی ہیں مگر عوامی نمائندے یوں غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔معلوم نہیں کہ آپ خود فریبی کا شکار ہیںیاڈرامہ بازی کر کے عوام کو بے و قوف بنا رہے ہیں حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا،،اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک ِ ِکہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی سے مر گیا تو اس کا ذمہ دا ر عمر ہو گا‘‘۔ مگر ان سیاستدانوں کو دیکھ کر تو سمجھ نہیں آتی کہ ان کو کس طرح یاد کیا جائے ؟؟؟ اان’ قائدین‘‘ کو راہبر کہوں یا راہزن ؟؟؟ کس نام سے یاد کروں؟؟؟میں ان کو قوم کے غم خوار کہوں یا ڈاکو اور لٹیرے؟؟؟ عوامی خدمت کے ان دعویداروں کو خون خوار درندے سمجھوں یا شب خون مارنے والے بھیڑیے ؟؟؟ مگر یہ تو درندوں ، حیوانوں اور بھیڑیوں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ حیوان بھی اپنی نسل پر اتنا ظلم نہیں کرتے ، جتنی ظلم و بربریت ،لوٹ ماراور حقوق سلبی کی داستانیں یہ لوگ رقم کر رہے ہیں آج ان سیاستدانوں کی لوٹ مار کی جو مبینہ کہانیاں سن کر ہر محب وطن شہری پر یشانی سے دوچارہے کہ ہمیں کس قسم کے رہنماوں سے واسطہ پڑا ہوا ہے جن کو جب اور جس طرح موقع ملتا ہے قومی خزانے کو اپنے آباو اجداد کی جاگیر سمجھ کر لوٹتے ہوے دولت بیرون ملک منتقل کرنے پر ذرا بھر شرمندگی محسوس نہیں کرتے اور وطن عزیز سے سرمایہ منتقل کر کے اپنی جائیدادیں اور کاروبار کو وسعت دینے میں مصروف رہتے ہیں ا م
سے مر گیا تو عمر اس کا ذ مہ د ار ہو گا‘‘ مگر ان سیاستدانوں کو دیکھ کر سمجھ نہیں آتی کہ ان کو کس طرح یاد کیا جائے ؟؟َ ان’ قائدین‘‘ کو راہبر کہوں یا راہزن ؟؟؟ کس نام سے یاد کروں؟؟؟میں ان کو قوم کے غم خوار کہوں یا ڈاکو اور لٹیرے؟؟؟ عوامی خدمت کے ان دعویداروں کو خون خوار درندے سمجھوں یا شب خون مارنے والے بھیڑیے ؟؟؟ مگر یہ تو درندوں ، حیوانوں اور بھیڑیوں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ حیوان بھی اپنی نسل پر اتنا ظلم نہیں کرتے ، جتنی ظلم و بربریت ،لوٹ ماراور حقوق سلبی کی داستانیں یہ لوگ رقم کر رہے ہیں آج سیاستدانوں کی لوٹ مار کی مبینہ کہانیاں سن کر ہر محب وطن شہری پر یشانی سے دوچارہے کہ ہمیں کس قسم کے رہنماوں سے واسطہ پڑا ہوا ہے جن کو جب اور جس طرح موقع ملتا ہے قومی خزانے کو اپنے آباو اجداد کی جاگیر سمجھ کر لوٹتے ہوے دولت بیرون ملک منتقل کرنے پر ذرا بھر شرمندگی محسوس نہیں کرتے اور وطن عزیز سے سرمایہ منتقل کر کے اپنی جائیدادیں اور کاروبار کو وسعت دینے میں مصروف رہتے ہیں جبکہ وطن عزیز میں صورت حال یہ ہے کہ کہیں قانون کے رکھوالوں کے ہاتھوں ماوارے عدالت قتل عام ہو رہا ہے تو کہیںآپ کی بے حسی اور لا پرواہی کی وجہ سے شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑہ رہے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ گھر سے نکلنے کے بعد کسی کو یقین نہیں ہوتا کہ وہ خیریت سے گھر پہنچ پائے گا یا نہیں ان حالات میں آپ کس خوشحالی کی بات کرتے ہیں ؟؟؟کس خوشحالی کا ذکر کرتے ہیں ؟؟؟کہاں ہے وہ خوشحالی ؟؟؟کہاں ہے وہ ترقی جس کا آپ راگ الاپتے ہیں ؟؟؟ اور کہتے ہیں کہ عمران خان کو یہ ترقی اور خوشحالی دیکھ کر پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں۔ ان کو درد ہوتا ہے ۔وہ حسد کرتے ہیں اور ہمارے راستے کی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ عمران خان ترقی کا دشمن ہے ۔ خدا ر ا بند کریںیہ فریب زدہ بیانات اور غلط بیانی۔
ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ اب کی حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں کیو نکہ جب ظلم حد سے بڑتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ قانونِ قدرت ہے کہ سیاہ رات کے بعد اُجالا ضرور ہوتا ہے۔ حکومت نے ظلم و بربریت کی داستان رقم کر کے اپنے اقتدار کی بنیادیں خود اپنے ہاتھوں سے کھوکھلی کر لی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ موجودہ صورت حالِ کا ادراک کرے۔ اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے یا عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی بجائے ملک و ملت اور وطن عزیز کی خوشحالی و ترقی کے لیے یکسوئی و ایمانداری سے کام کرے اور پاناما لیکس کی آزادانہ و غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونے دے ورنہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے ۔