ضمیر ہوم۔۔۔۔ مصنف : اویس علی

Print Friendly, PDF & Email

دور سے کہیں چیخنے چلانے ، رونے اور سسکیاں لینے کی آوازیں آرہی تھیں قریب جانے پر دیکھا کے ایک بڑا سا مکان ہے جس میں بڑا بڑا لکھا تھا ’’ضمیر ہوم ‘‘ پہلے تو سمجھ نہیں آئی کہ یہ اولڈ ہو م تو سنا ہے جس میں بچے اپنے ماں یا باپ کو جو کہ بوڑھے ہو جاتے ہیں داخل کروا دیتے ہیں یہ ضمیر ہوم کیا ہے؟
مکان کے اندر جانے پر معلوم ہوا کہ ہمارے معاشرے کے بہت سے لوگوں نے اپنے اندر کے ضمیر کو اپنے اپنے اندر سے نکال کر ضمیر ہوم میں داخل کروایا ہوا ہے، وہاں سارے ضمیر بیمار تھے۔
جب ہر مریض سے اسکا مسئلہ پوچھا تو ایک ضمیر نے بتایا کہ اسکے مالک کا نام عبدالدرہم ہے۔ پوچھا کہ یہ کیسا نام ہے عبدالرحمٰن تو سنا ہے لیکن عبدالدرہم نہیں۔ تو اسنے بتایا کہ میرا مالک ایک بہت محنتی انسان ہے صبح سے شام تک اپنے کام میں لگا رہتا ہے اور صرف پیسے کمانا ہی اسکی زندگی کا مقصد ہے کام کے دوران اگر مسجد سے یقینی کامیابی اور فلاح حاصل کرنے کی ندآتی ہے تو اسے سن کر کے اپنے کام میں لگا دیتا ہے۔
میرے ہزار بار سمجھانے پر وہ مجھ سے تنگ آگیا اور مجھے اپنے اندر سے نکال دیا اور یہاں لے آیا۔
دوسرے ضمیر سے پوچھا کہ تم یہاں پر کیسے آئے تمھارے ساتھ کیا ہوا ؟ اسنے بتایا کہ میرا مالک ایک بہت اطاعت گزار اور فرمانبردار انسا ن ہے ااور ایک کمپنی میں ملازم ہے وہ اپنے آفیسر کی اتنی فرمانداری اور اطاعت گزاری کرتا ہے کہ اگر اپنے اللہ کے سامنے اتنا اچھا بننے کی کوشش کرتا تو یقیناً وہ ایک کامیاب انسان ہو جاتا جب یہ باتیں میں نے اسے سمجھائیں تو وہ مجھے ناراض ہو گیا اور میرا بھی یہی حال ہوگیا کہ آج میں یہاں ہوں۔
ایک اور ضمیر نے بتایا کہ میرا مالک امیر وکبیر انسان ہے اور تقریباً ہر روز اسکے گھر اسی جیسے کہاتے پیتے لوگوں کی دعوت ہوتی ہے ایک وقت کے دسترخوان میں اتنا خرچہ ہوجاتا ہے جس میں کسی غریب کے گھر کا پورے مہینے کا راشن آجائے اتنی سے بات سمجہانے پر پہلے تووہ مجھے سلا دیا کرتے تھے لیکن میرے بار بار اصرار کرنے پر اسنے مجھے یہاں جمع کروا دیا۔
پاس بیٹھے بہت سے معصوم ضمیر ہماری باتیں سن رہے تھے اور مسلسل رو رہے تھے جب انسے انکے رونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے مالکان نئی نسل کے نوجوان ہیں جو رات رات گھر موبائل فون اور نیٹ پر لڑکے لڑکیوں سے بلا امتیاز دوستیاں کرتے ہیں کوئی کسی کو منارہا ہوتا ہے تو کوئی کسی کو خوش کر رہا ہوتا ہے۔
ہم نے انہیں صرف یہ سمجھایا کہ یہ لوگ تو کبھی نہیں ماننے والے آپ کچھ بھی کر لیں صرف رات کا کچھ حصہ اپنے رب کہ منانے اور خوش کرنے میں لگا دیں ، وہ رب ہم سے ناراض ہے تبھی تو ہم سے یہ غلط کام ہو رہے ہیں یہ اسکی ناراضگی ہی تو ہے کہ اسکی رحمت ہم پرزحمت بن جاتی ہے لیکن ہمارے مالکان کو ہماری باتیں پسند نہیں آئیں اور آخر کار ہمارا بھی وہی انجام ہوا جو دوسرے ضمیروں کا ہوا تھا۔
باقی ضمیر بھی اپنی 10 کہانیاں سنا رہے تھے کہ کے مالک اپنے بیویوں کے اتنے فرمانبردار تھے جتنے اپنے ماں باپ کا ہونا چاہیئے انکو اپنی جنت اپنی ماں کے قدموں کی جگہ بیوی کے قدموں میں نظر آئی تھی۔
کوئی ضمیر عدل کا درس دیتے ہوئے نکالا گیا تو کوئی غیرت کی بات کرنے پر ، کوئی سچاء کا ساتھ دیتے ہوئے نکالا گیا تو کوئی ضمیر سوچ کا رخ صحیح سمت کی طرف کرنے پر تھوڑی دیر کے لیئے ہم اپنا جائزہ لیں اپنے اندر جھانکیں کہ ضمیر موجود بھی ہے یا ضمیر ہوم میں موجود ہے اگر موجود ہے بھی تو کہیں سویاہوا تو نہیں ہے۔
انسانوں اور جانوروں میں کئی قدریں مشترکہ ہیں سوائے احساس کے اگر ہماری سانس نکل جائے تو ہم زندہ نہیں رہیں گے لیکن اگر احساس نکل گیا تو ہم انسان بھی نہیں رہیں گے۔
اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے ہمیں اپنے ضمیر کو ، ضمیر ہوم سے واپس لانا ہوگا اگر وہ ہمارے اپنے اندر موجود ہے تو اسے جگانا ہو گا اور اسکی بات کو سننا اور سمجھنا ہو گا کہ اسی کی باتوں پر عمل کر کے ہم اچھے اور برے میں تمیز کرنا سیکھ جائیں گے۔
اور جب ہمیں یہ تمیز آجائے گی جب ہی تو وہ رتبہ ہم پر سوٹ کریگا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں دیا گیا ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/huykhck
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *