تحریر: عثمان غنی انسانیت معاشرے کی معراج ہے اور انسان اشرف المخلوقات ، دنیا کا خلیفہ، برتری کا معیار ، صرف تقویٰ کو حاصل ہے رنگ نسل ، ذات پات کوہر گز نہیں ،زمین کی تہوں کو کریدنے ، سمندروں کی
تحریر: عثمان غنی محبت کے ستونوں کے وجود سے کائنات کی عمارت قائم و دائم ہے جیسے جگمگاتے ستاروں اور چاند کا وجود ،رات کے حسن کو دوبالا کر دیتا ہے یا پھر پوپھوٹنے کا منظر ،جب سورج اندھیرے کو
تحریر: عثمان غنی انسان غلطی کا نہیں، غلطی انسان کی استاد ہوا کرتی ہے ، غلطیوں ، کوتاہیوں کو تسلیم کرنا اعلیٰ ظرفی کی علامت ہے ، انسان غلطی کرنے سے نہیں غلطیوں پر اصرار کرنے سے تباہ ہوتا ہے
تحریر: عثمان غنی ادارے اہم ہوا کرتے ہیں افراد نہیں،ابدیت سفر کو ہے مسافر کو نہیں ،غلام ذہن آزاد ترجیحات کا تعین نہیں کر سکتے ،درویش نے کہا تھا علم نگاہ سے ملتا ہے کتاب سے نہیں، باقی سب فسانے
تحریر: عثمان غنی غصہ اور اشتعال حکمت کو کھا جاتا ہے ، حکمت سے امید کے پودے نشوونما پاتے ہیں۔ ، فرمایا ! حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے ، خوف کوخلوص نیت اور اعمال صالح سے شکست دی جاتی
Eldrige Cleaver کے بقول You’re Either Part Of The Solution, Or You’re Part Of The Problem دھرتی کے ساتھ کھلواڑ مگر زیادہ دیر نہیں چل سکتے ،ظالم اور مظلوم کا بیک وقت دم بھرنے والے معاشرے نیست و نابود ہو
چاہے کتنا ہی گُھپ اندھیرا کیوں نہ ہو ،ننھے جگنو کی روشنی بھٹکے ہوئے مسافروں کے لیے امید کی کرن بن جاتی ہے جو ’’طاہر زیر دام ‘‘ آشیاں سے دور ہو جاتے ہیں ،ہمت و کوشش سے بالاخر ایک
ایک کھوٹے سکے سے قائدؒ نے کہا تھا ’’جب کھرے سکے دشمن کی جیب میں ہوں تو پھر کھوٹے سکوں سے ہی کام چلانا پڑتا ہے‘‘۔ گلی گندی ہو گی تو مکان کو کون صاف کہے گا، جناب! جس کردار
برصغیر کے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کی تیاریاں ہو رہی تھیں قائداعظم محمد علی جناح ؒ بانٹو کے مسلمانوں سے ایک خطاب کر چکے تھے جس میں پاکستان کے حق میں بڑے پرجوش اور فلک شگاف نعرے لگائے اور
کیسے کیسے لوگوں سے زمین خالی ہو رہی ہے جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ،روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد ۔۔۔۔بقول شاعر غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی دوانہ