پیرس اور لندن کا بغیر ویزہ سفر

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: حلیم عادل شیخ ۔ ایم پی اے 
وادی سندھ کی تاریخ میں ہڑپہ اور موئن جودوڑوں اس کے اہم مراکز تھے ،کسان جولاہے کمہار اور مستری سندھ کی تہذیب کے معمار تھے سندھ کی تحزیب میں انسانی زندگی کی تہذیبوں میں سے کسی ایک تہذیب کا نام دیا جائے تو کم نہ ہوگا 1922میں موئن جوداڈوں کی کھدائی کے بعد جس حالت میں اور جسقدرقدیم چیزیں برآ مد ہوئی اسے ایک صدی ہونے کو آئی ہے اس کھدائی میں ملنے والی اشیاء نے یہ ثابت کردیا تھا کہ سندھ کی تہذیب ہڑپہ سے بھی 800سال پرانی ہے ،آج بھی وادی سندھ کی زمین سونا اگلتی ہے اس میں چھپے بے پناہ وسائل نے سندھ کی اہمیت کو اور بھی بڑھادیا تھا اسی سندھ کی دھرتی کو لعل شہباز قلندر، شاہ عبداللطیف بٹھائی اور سچل سرمست جیسے صوفی بزرگوں کی رہنمائی حاصل رہی ہے جن کی بدولت پورا سندھ صوفیوں کی دھرتی کہلایا یہ وہ لوگ تھے جن کا کام انسانی نسل کے ایمان کی پختگی کرنا تھا ان بزرگوں کاحلقہ احباب ایسے لوگوں پر مشتعمل تھا جن کا نصب العین ہی انسانوں کی خدمت کرنا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ اسی سندھ میں کچھ ایسے سیاستدانوں نے بھی جنم لیا جن کا نصب العین صرف اور صرف غریبوں کے منہ سے نوالہ چھین کر اپنے بچوں کا پیٹ پالنا تھا یہ وہ نسل تھی جن کی نسلوں نے بھی اس سندھ کی بربادی میں اپنا پورا حصہ ڈالا ، 1922میں جب موئن جوداڈوں کی کھدائی میں جو کچھ براآمد ہوا اس کی جو بھی شکل تھی وہ ہی ہوبہ ہو شکل آج سندھ کے حکمرانوں نے پورے سندھ میں پیدا کررکھی ہے یعنی اسے دیکھنے کے لیے ہمیں موئن جودداڑوں جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے بس سندھ کے کسی بھی مقام کا منہ اٹھاکر سفر کرلیجئے کچھ عجب نہیں کہ انسانیت شرماتی ہوئی نظر نہ آئے ،مختلف مقامات اور شہروں کے موازنے اس وقت موزوں ہوتے ہیں جب ان میں بہت سے چیزں نہ سہی مگر کچھ نہ کچھ چیزیں ضرور مشترک ہو یعنی اگر لندن اور پیرس کے لوگوں کے پاس اچھی تفریحی گاہیں ہو، بہترین آب وہوا ہو،ان کے لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی اور کھانے کے ساتھ ساتھ دنیا کی تمام تر سہولیتیں موجود ہواور سب سے بڑھ کر انصاف کا بروقت حصول میسر ہو ،اگر یہ تمام چیزیں کسی دو مختلف شہروں میں مشترک ہو تو یقیناً ہم اسے اس ترقی یافتہ شہر سے مشاہبہ کردیتے ہیں مگر اس سے بڑی بے شرمی اور نالائقی کیا ہوسکتی ہے جب آپ پیرس کو جس کی مثالیں شادی شدہ جوڑوں کے لیے کسی انمول خواب سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں اس پیرس کو اگر آپ اندرون سندھ سے جاکر ملادیں تو آپ سچ سچ بتائیے آپ کو کیسا لگے گا ،میں یقین سے کہتا ہوں کہ جب خورشید شاہ اور کچھ اور لوگوں نے یہ کہا کہ کسی نے اگر پیرس یا لندن دیکھنا ہے تو وہ سندھ میں چلا جائے میرا اللہ جانتا ہے کہ اس بیان کو سن کو ناصرف خورشید کے اپنے عزیز و اقارب شرمندہ ہوئے ہونگے بلکہ پورے پاکستان میں یہ صورتحال پیدا ہوچکی تھی کہ اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو یقیناً آج آدھا پاکستان خودکشی پر مجبور ہوجاتا،لندن اور پیرس میں وہاں کی عوام کو صاف پانی میسر ہے اور سندھ میں انسان تو انسان جانور بھی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں اور بعض علاقوں میں وہ پانی بھی ان کو مسیر نہیں ہے لندن اور پیرس میں جو غذائی صورتحال ہے وہ اس قدر تحقیق شدہ ہوتی ہیں کہ وہاں پر آپ کو کھانے پینے کی اشیاء کی فروخت میں اس لیے بہتری لانے پر مجبور ہیں کہ وہاں نہ صرف قانون سخت ہے بلکہ اس کا احترام بھی کیا جاتاہے اورسندھ کی عوام کو وہ کھانابھی میسر نہیں ہے جو باسی ہو اور کھانے کے قابل ہو اور اگر ہوتاتو یہاں ایک ایک پاؤنڈ کے بچے پیدا نہ ہوتے اور نہ ہی مائیں اس قدر کمزور ہوتی کہ جن کی چھاتیوں میں پلانے کے لیے اپنے معصوم لالوں کو دودھ تک نہیں ہوتا ،اور رہی بات انصاف کی تو اس تحریر کو چھوڑ کر کوئی بھی آپ سندھی یا اردو اخبار اٹھالیں آپ کی پہلی بار جس خبر پر نظر پڑے گی وہ یہ ہوگی سندھ کے فلاں ڈسٹرکٹ سے غریب ہاری یا مزدور کی بیٹی کو اغواکرلیاگیا وغیرہ وغیرہ ،ایسا لگتاہے کہ سندھ کے حکمرانوں نے 18ویں ترمیم کا کچھ زیادہ ہی فائدہ اٹھالیا ہے اور اس کے تحت ملنے والی رقموں سے اپنے اپنے گھروں کو جنت بنالیا ہے جس کے باہر کی دنیا کو یہ شاید جہنم کہتے ہونگے توپھر یقیناً شاہ صاحب کہنا تو یہ چاہتے ہونگے کہ جس جس نے پیرس اور لندن دیکھنا ہے وہ ہمارے سندھ کے وزیروں کے گھروں میں جھانک کردیکھ لیں مگر جلد بازی میں بیچارے سندھ کا نام ان کے منہ سے نکل گیا ہوگا میں نے اپنی زندگی میں سندھ کا شاید ہی کوئی ایسا مقام ہو جو نہ دیکھا ہوں اور یہ کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ میں ان علاقوں میں گیا ہوں جہاں یہ سندھ کے وزیراور مشیر آج تک نہ جاسکیں ہیں کیونکہ وہاں انسانیت بلک رہی ہیں جہاں وڈیروں کی بڑی بڑی گاڑیوں کے ٹائروں تلے انسانی زندگی کو رونددیا جاتاہے جہاں غریبوں کی بیٹیوں کو دن دھاڑے اٹھالیا جاتاہے اور جہاں کے پولیس والے اس لٹیرے کے سامنے متھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑے رہتے ہیں کہ سائیں حکم کریں تو اس کو اڑادیں ،سندھ کے بعض مقامات کا میں تفصیلی زکر اپنے گزشتہ مضامین میں کرچکاہوں مگر یہاں ایسے ایسے بھی دشوا رگزار علاقے ہیں جہاں پر جانا اور پھر نکلنا بہت جان جوکھو ں کا کام ہے ایسا لگتاہے کہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں ابھی سہی معنوں میں زندگی شروع ہی نہیں ہوئی ہے جن کے ر ہنے والوں کی حالتیں صومالیہ کے کمزور اور نحیف لوگوں کے ہو بہو ملتی ہوئی دکھائی دیتی ہے میری گاڑی یا میرے ساتھ چلنے والی گاڑیوں کے ٹائر قدم قدم پر زمینوں میں دھنسے رہے اور پورا پورا دن اسی جستجو میں نکل جاتاکہ کب اس گڑھے سے گاڑی نکلے اور آگے کاسفر شروع ہو،سندھ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے ایک طویل اور تھکا دینا والا سفر صرف اس لیے ہوتاہے کہ یہاں کی زمینیں نہ ہموارہوتی ہیں بلکہ اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکارسڑکیں جس پر چلتے ہوئے مریض کے وہ ٹانکنے بھی باہر آکر جھانکنے لگتے ہیں جن کے آپریشن کو دس سال بیت چکے ہو ،میری سندھ کے معاملے میں جو بھی رپورٹ ہو وہ غلط ہوسکتی ہے مگر اس وقت مختلف زرائعوں سے چلنے والی رپورٹیں ہی اس اسقدر دلخراش ہیں کہ جن کے بارے میں بات کرتے ہوئے سننے والوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے ہیں سندھ کے مختلف مقامات پر اس وقت 8ہزار کے قریب اسکول ایسے ہیں جو بند ہیں جن کے گیٹ یا کمروں کے ا ندر یا تو جاگیرداروں کی اوطاقیں ہیں یا پھر ان کے گدھے اور خچر بندھے ہوئے الغرض گزشتہ پانچ سالوں میں ایک رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ سے زیادہ بچوں نے ایسی صورتحال پر اسکول جانا ہی بند کردیاہے یا پھر جو بچے سندھ کے اندر قائم اسکولوں میں پڑھتے ہیں ان اسکولوں میں فرنیچر ،پینے کے لیے پانی اور سب سے بڑھ کر کچھ اسکولوں کی تو چھتیں ہی نہیں ہے یہ ہی حال ہسپتالوں کا ہے کہ مت پوچھیں اس پانچ کروڑ سے زائد کی آبادی میں بتایا جاتاہے کہ جتنے بھی ہسپتال ہیں ا سمیں صرف 13ہزار بستروں کی گنجائش ہے یعنی تیرہ سو مریضوں کے لیے صرف ایک ڈاکٹر اور یہاں پر مریضوں کولگے امراض اس قدر شدت کے ہوتے ہیں کہ ان کے بروقت علاج نہ ہونے کے باعث وہ وقت سے پہلے ہی مرجاتے ہیں اور تھرمیں جس طرح سے بچے روزانہ کے حساب سے مرتے ہیں وہ تو اس قوم کے لوگوں کو زبانی ہی یاد ہوگئے ہونگے ہسپتالوں میں ادویات ،ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی کمی ہی نہیں ہے بلکہ یہاں ایمبولینسسز بھی نہ ہونے کے برابر ہیں لوگ گدھا گاڑیوں میں مریضوں کو لاد کرلاتے ہیں اور ان کے اضلاع سے اس قدر دور تعلقہ ہسپتال یا ڈسپنسریاں ہوتی ہیں کہ وہاں تک جانے کے لیے ٹرانسپورٹ بھی موجود نہیں ہوتی ،دوستوں اور میرے پڑھنے والوں سندھ کی عوام کا درد صرف وہ ہی جان سکتاہے جس کے سینے میں ہلال کا لقمہ اترا ہوجو عشق رسول سے سرشارہو جس کے نزدیک انسانیت زرداریوں اور شاہوں کے ان گھوڑوں سے کہیں زیادہ ہو جن کی خوراک ماہانہ کروڑوں روپے ہے جو سیب کے مربے اور باداموں سے اپنی توازع کرواتے ہیں ،لہذا سندھ میں پی پی کے لیڈروں کا یہ کہنا کہ اگر لندن اورپیرس دیکھنا ہے تو سندھ میں آؤ ایک غیر حقیقت پسندانہ بیان ہے ایسے الفاظوں کو منہ سے نکال کر یہ اپنی اصل حقیقتوں کی پردہ پوشی کررہے ہیں باقی کچھ بھی ہو میں نے تو یہ لندن اور پیرس بغیر کسی ویزے اور پاسپورٹ کے دیکھ لیا ہے اب آپ میں سے جو یہاں جانا چاہے تو اپنے ساتھ احتیاطاً کچھ پانی کی اضافی بوتلیں اور کھانے کا سامان زیادہ مقدار میں رکھ لے ممکن ہے کہ ان کو اس پیرس کے سفر میں کچھ ایسے لوگ بھی مل جائیں جن کے مقدر میں ایک گھونٹ پانی بھی میسر نہ ۔ آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔#

Short URL: http://tinyurl.com/yyk6l24r
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *