اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے بچوں کو وظیفہ دینااور پڑھانا حکومتِ پنجاب کا ایک احسن قدم ہے۔ بھٹوں پہ کام کرنے والے بچے اکثر اپنے والدین کے ہمراہ کام کرتے ہیں اور والدین اپنی اولاد کو قابلِ برداشت
مکرمی! جیسے ہی میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے نتائج کا اعلان ہوتاہے ساتھ میں ناکام ہونے والے کئی نوجوان طلبا و طالبات کی خودکُشی کی خبریں بھی اخبارات میں چھپنا شروع ہوجاتی ہیں۔ خودکُشی کا یہ رجحان انتہائی افسوس ناک ہے۔
حکومت نے سرکاری سکولز میں مفت تعلیم کا بندوبست کررکھاہے۔ کتب بھی مفت مہیا کی جارہی ہیں۔ لیکن لڑکیوں کے لیے مفت تعلیم بھی مہنگی پڑرہی ہے۔ کیونکہ قرب و جوار کے سکولز میں تو لڑکیاں آسانی سے پیدل جاسکتی
مکرمی! حکومتی نے دہشت گردی وفرقہ واریت سے نمٹنے اور دیواروں کے حُسن کو لاحق خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ملک بھر میں وال چاکنگ پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ اس پر کافی حد تک عمل بھی کرایا جارہاہے۔
سرکاری سکولز میں خرابی کا سبب پرائمری سطح پر غیر معیاری تعلم کو قرار دیاجاتاہے۔ اس کے لیے ڈی ایس ڈی جیسا ادارہ کئی سالوں سے تگ و دو میں مصروف ہے۔ ایلیمنٹری کالجز میں ڈسٹرکٹ ٹریننگ سپورٹ سنٹر بنائے
گندم کی کٹائی کا موسم آتے ہی گندم کی کاشت والے اضلاع میں ہر سال ایک مسئلہ غریب والدین کے سکول جانے والے بچوں کو درپیش ہوتاہے۔ غریب والدین اُجرت پر گندم کی کٹائی کے لیے اہل و عیال کے
ضلع میانوالی میں پرائیویٹ سیکورٹی کمپنیز نے ظلم کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ سیل فون کمپنیز نے ہر گاؤں اور قصبے میں ٹاورز نصب کررکھے ہیں۔ جن کی سیکورٹی پرائیویٹ کمپنیز کو ٹھیکے پر دی گئی ہے۔ہر ٹاور
مکرمی! اس میں تو کوئی شک نہیں کہ علماکرام انبیاء کے وارث ہیں۔ مگر مذہب کے نام پر دہشتگردی کرنے والے ، فرقہ واریت کو ہوا دینے والے اور اپنے کاروبار کو بڑھاوا دینے والے علماہیں نہ ہی انبیاء کے