٭ شاہ فیصل نعیم ٭

وہ اُن میں سے ایک تھی

خود طالب علم ہوتے ہوئے میں اپنی زندگی میں جن طالب علموں سے متاثر ہوا وہ اُن میں سے ایک تھی ۔ دنیا کے ۲۵ سے زائد ممالک گھوم چکی تھی، ۷ زبانوں پر عبور حاصل تھا اور مزید سیکھنے

کہانی خود سے شروع ہوتی ہے

آٹھویں تک میں انتہا درجے کا نکما طالبِ علم تھا ۔ انگلش میں تو ہاتھ تنگ تھا ہی دس سال کی تگ ودو کے بعد اُردو بھی ٹھیک سے پڑھنی نہیں آئی تھی۔ نویں جماعت میں ہوتے ہوئے بورڈ کے

وہ منتظر ہیں۔۔۔۔!۔

بازارِدنیا گرم ہے تڑکے اُٹھے ہوئے متلاشیانِ رزق شام کے دھندلکے میں اپنی مکین گاہوں کی سمت پلٹ رہے ہیں کچھ پیٹ کا ایندھن اُٹھائے ہوئے اور کچھ خالی ہاتھ ہیں بس اسی طرح محفلِ ہستی کا یہ قافلہ رواں

کشتیاں جلانے والے۔۔۔۔ تحریر: شاہ فیصل نعیم

یہ سفارت خانہ اسلامی جمہوریہ ایران لاہور کا منظر ہے ۔ ویزہ کے لیے آنے والوں کی ایک لمبی لائن ہے دھوپ کی شدت اپنا آپ دکھا رہی ہے میں بھی پسینے سے شرابور لائن میں کھڑا ہوں۔ میرے بعد

خاک چمکتی ہے۔۔۔۔ مصنف: شاہ فیصل نعیم

یہ پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل کی کینٹین کا ایک منظر ہے ،لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے، کسی کی روٹی کم پڑ گئی ہے، کوئی سالن کے لیے چلا رہا ہے ، کوئی پانی منگوا رہا ہے اور کوئی ویٹر کو

کھلتے راز۔۔۔۔ مصنف: شاہ فیصل نعیم

بچپن میں میں جب بھی اْس کے پاس جاتا، لڑ پڑتا تھا۔ یہ لڑائی دن میں دوبار تو پکی ہوتی تھی اور اگر کوئی مہمان آ جاتا تو تیسری بار ہونے کے امکانات کم نا ہوتے۔ ایسے ہی وقت گزرتا