٭ ٭کیٹیگری: متفرق شاعری ٭

وطن کاگیت

اے پیارے وطن تیری ہرچیزپیاری ہے دیکھوجشن آزادی کی ہرگھرمیں تیاری ہے پرچم کاسماں آیا جھنڈیوں کی بہارآئی پرچم لہراتے ہیں خواہ گھرہویاگاڑی ہے جب ماہِ اگست آئے فورٹی سیون(1947)پلٹ آئے بدلہ خون شہیدوں کا یہ دھرتی ساری ہے ہرفردپہ

اے وطن مری جنت ہے تُو

اے وطن مری جنت ہے تُو عظمتوں کی علامت ہے تُو جس پہ نازاں ہے دنیا تمام وہ سراپا محبت ہے تُو تری مٹی کے سونے کے رنگ ساری دنیا کی نزہت ہے تُو وادیاں تری جنت نشاں کس قدر

نام مٹنے لگے کعبے کے نگہبانوں کے

شاعر: احمد نثارؔ، مہاراشٹر، انڈیا حوصلے کیا ہوئے بتلاؤ مسلمانوں کے نام مٹنے لگے کعبے کے نگہبانوں کے نا ہی پیمانے کی پہچان نہ مئے کی خواہش بند کردیجئے دروازے یہ میخانوں کے آبلے دل کے سنبھلنے نہیں دیتے اس

شرم سے چور ہوگیا شیطاں

شاعر: احمد نثارؔ، مہاراشٹر، انڈیا کارِ انساں پہ رو گیا شیطاں کیسے الزام ڈھوگیا شیطاں کام انساں کا نام شیطاں کا نام بدنام ہوگیا شیطاں آدمی آدمی کا دشمن ہے بیج کیسے یہ بوگیا شیطاں اپنے بھائی کے خون کا

اب نہ جاگو گے تو پھر بیکار ہے

شاعر: احمد نثارؔ، مہاراشٹر، انڈیا اب نہ جاگو گے تو پھر بیکار ہے سوچ لو یہ وقت کی للکار ہے کیا عجب دل کیا عجب دلدار ہے تیرے گلشن میں نہ گل، نہ خار ہے میان ہے نہ دھار کی

میرا شہر لہو لہو ہے

(شاعرہ: نادیہ خان ) میرا شہر لہو لہو ہے، ہر طرف خون بہا ہے، نہ جانے ظالموں نے کس بات کا بدلہ لیا ہے، ماں نے کہا تھا گندے انکل تو سکولوں میں آتے ہیں، علم کے دشمن ہیں وہ،

رمزِ زندگی

رمز زندگی شاعر: چوہدری ذوالقرنین ہندل، گوجرانوالہ بہت کٹھن ہے یہ فطرت انسانی میرے دوست ہر انسان اس فطرت کا قائل نہیں ہوتا جینا مشکل ہے حالات زندگی میں دربدر ہر شخص اس دنیا میں سائل نہیں ہوتا زندگی کی رنگینیوں

ماں کے نام شہیدبچے کا پیغام

سانحہ چارسدہ!۔ ماں کے نام شہیدبچے کا پیغام شاعرہ: حناء پرویز یہ قاتل کون ہوتے ہیں !۔ یہ ظالم کون ہوتے ہیں !۔ جوننھوں کو جدا کر دیں لڑکپن کے بکھیڑوں سے جو جنت کو رہا کر دیں کسی ممتا

میں تھک گیا ہوں میرے خدایا

شاعر: امجد ملک پرائی دنیا میں جیتے جیتے نہ اپنا ہنسنا , نہ اپنا رونا نہ اپنا مرنا ,نہ اپنا جینا خوشی کسی کی , عذاب اپنے ہنسی کسی کی , سراب اپنے میں تھک گیا ہوں میرے خدایا !۔

غزل: کہاں میں عمر اپنی جاودانی لے کے آیا ہوں

شاعر : احمد نثارؔ کہاں میں عمر اپنی جاودانی لے کے آیا ہوں یہاں میں آسماں سے عمر فانی لے کے آیا ہوں کہوں کیسے کہ میں یادیں سہانی لے کے آیا ہوں مگر ہاں درد میں ڈوبی کہانی لے