٭ احمد نثار، انڈیا ٭

کیا زمانے میں کوئی صاحبِ کردار بھی ہے؟

دلِ نشتر تیری حسرت کا گنہگار بھی ہے کبھی گفتار بھی، بیکار بھی، مکّار بھی ہے عشق میرا تِرے جلؤں کا پرستار بھی ہے کیا مِرے حق میں تِرا وصل بھی دیدار بھی ہے؟ تیغ و بھالا بھی ہے اور

غزل: کہاں انسان پائے جارہے ہیں

Kahan Insan Paye Ja Rahe Hein Kahan Insan Paye Ja Rahe Hein Kahan Insan Paye Ja Rahe Hein شاعر: احمد نثارؔ کہاں انسان پائے جارہے ہیں فقط انساں کے سائے جارہے ہیں یہ کیسے غم ہیں کھائے جارہے ہیں ہمیں

غزل: یہ نفرتوں کے پجاری کی راجدھانی رہی

جو حال دل کا سنایا تو ہم دیوانے لگےہمارے بول سبھی آپ کو فسانے لگے کھلی فضا میں چہکنے کا ڈھنگ بھول گئےقفس میں کون پرندے یہ گنگنانے لگے چمن کی سیر کہاں، اور کہاں نصیب مِرا ہیں سارے اُلّو یہاں

مِترو

اپنی تقریر میں اک بار کہا تھا مترومیرے چیلوں نے تو تہوار منایا مترو ہوتے ہوتے ہوئے یہ بول بہت ہی مقبولبن گئے تکیہ کلامی یعنی تکیہ مترو پہلے پہلے تو بہت خوب مزے لیتا تھامائک پر جب بھی مِرا

اُسی کے نور سے ہم انحراف کر بیٹھے

کبھی غرور پہ ہم اعتراف کر بیٹھے محبتوں سے کبھی اختلاف کر بیٹھے کبھی دھنک کے بدن پر لحاف کر بیٹھے کبھی مہک کی روش پر غلاف کر بیٹھے ہمارے چہرے پڑھے انکشاف کر بیٹھے اُن آئینوں کی خرد پر

چراغِ مردہ سے امیدِ انقلاب نہیں

کھلا ہے شمس کہ اس پر کوئی نقاب نہیں حقیقتوں کا ہے منظر کوئی سراب نہیں ہمارے دن میں اندھرا ہے آفتاب نہیں ہماری شام کے حق میں بھی ماہتاب نہیں یہ سیدھا سادھا سا فطرت کا اک تقاضا ہے

میرا زندہ اب بھی ضمیر ہے

تیری زلف کا جو اسیر ہے وہ زمانے بھر کا امیر ہے جو زمانے بھر کا امیر ہے تیرے در کا ادنیٰ فقیر ہے تیرا شکریہ میرے اے خدا میرا زندہ اب بھی ضمیر ہے تو خوشی سے مجھ کو

نعت شریف

(احمد نثار، ممبئی، مہاراشٹر) فرشتوں کا ایک جھنڈ سفر پر نکل پڑا! کہکشانوں سے ہوتا ہوا دودھیا راستوں سے گذرتا ہوا بروجوں سے ستاروں کی دنیا سے راستہ کرتا ہوا لا کے فلک سے اِلہ کے سماں تک تیرتا ہوا کہیں

نام مٹنے لگے کعبے کے نگہبانوں کے

شاعر: احمد نثارؔ، مہاراشٹر، انڈیا حوصلے کیا ہوئے بتلاؤ مسلمانوں کے نام مٹنے لگے کعبے کے نگہبانوں کے نا ہی پیمانے کی پہچان نہ مئے کی خواہش بند کردیجئے دروازے یہ میخانوں کے آبلے دل کے سنبھلنے نہیں دیتے اس

شرم سے چور ہوگیا شیطاں

شاعر: احمد نثارؔ، مہاراشٹر، انڈیا کارِ انساں پہ رو گیا شیطاں کیسے الزام ڈھوگیا شیطاں کام انساں کا نام شیطاں کا نام بدنام ہوگیا شیطاں آدمی آدمی کا دشمن ہے بیج کیسے یہ بوگیا شیطاں اپنے بھائی کے خون کا