تحریر: شفقت اللہ خان آج نہ جانے اس دور کے مسلمانوں کے کو کیا ہو گیاہے۔جیسے ہی ماہ رمضان آیا نہ ہی اس میں کوئی مہنگائی میں کوئی کمی آئی اور نہ ہی کسی نے غریب کی طرف نظر اٹھا
تحریر: شفقت اللہ خان آج ہم پڑھے لکھے ان پڑھ ہے۔ہم لوگوں میں اکثر ایسے لوگ بھی شامل ہے ۔جن کو یہ معلوم ہی نہیں کہ پیشہ اور قومیت ہے کیا کئی تو ایسے لوگ ہے۔جو جان بوجھ کر قومیت
میں صبح کے ٹائم تقریبا دس بجے کے قریب یوٹیلٹی سٹور کے سامنے سے گزار رہا تھا۔کہ کیا دیکھتا ہوں ۔ایک مردوں کی لمبی قطار اور دوسری طرف عورتوں کی لمبی قطار لگی ہوئی دیکھ کر پریشان ہوگیا۔اسی قطار کے
میں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا۔کہ جو ڈاکٹر ہوتاہے۔اس کو مسیحا کہتے ہیں۔جوکسی کی جان بچائے اس کو مسیحا کہتے ہیں۔جو ایک انسان کو کوئی بھی ہنر دے اور اس کو اچھا انسان بنا دے میری نظر میں اس
میں ڈی ایچ کیو ہسپتال کی ایمرجنسی میں کھڑا تھا۔اور منظر دیکھا رہا تھا۔کہ کافی لوگ ایک چارپائی اٹھائے ہوئے ہسپتال کے میں گیٹ سے باہر جارہے تھے۔اور پھر روڈ پر چارپائی رکھ کر روڈ بلاک کردیا۔وہ کوئی خالی چارپائی
میں آج ان شخصیات کے چہرے سے نقاب اٹھاوں گا۔جو اپنے آپ کو انسانیت کے ٹھیکیدار کہلواتے ہیں۔دیکھا جائے تو محکمہ صحت کا ملازم ہونا بہت بڑے درجہ کی بات ہے جس میں صرف انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔یہ اللہ
آج نہ جانے اس دور کے مسلمانوں کے کو کیا ہو گیاہے۔جیسے ہی ماہ رمضان آیا نہ ہی اس میں کوئی مہنگائی میں کوئی کمی آئی اور نہ ہی کسی نے غریب کی طرف نظر اٹھا کے دیکھا۔آج کے اس
آج نہ جانے کیوں ہمارے ضمیر مردہ ہوچکے ہے۔آج کے اس دور میں ہم صرف نام کے مسلمان بن کررہے گئے ہے۔آج ہم کو کوئی مسلمان بھائی ملنے چلا آئے۔یا پھر کسی جگہ راستے میں مل جائے ۔تو ایک دوسرے
آج مجھ کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہمارا شہر ترقی کیوں نہیں کرپارہا۔ترقی کرنے کی بجائے دن بادن اس کی حالات دیکھ کر رونا آتا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے ۔کہ جیسے اس کا کوئی وارث ہی نہ ہو شہر
آج ہر انسان کے ذہن اس طرح کے ہوکر رہے گئے ہیں۔کہ ان کے ذہن میں یہی ہے ۔کہ میرے سے زیادہ کوئی عقل مند انسان نہیں ۔جبکہ ہرانسان میں اگر کوئی برائی ہے ۔تو اس میں کچھ نہ کچھ