آج مادر ڑے کے موقع پر مضمون لکھتے ہوئے مجھے چند دوز قبل کی یہ شام یاد آگء.. دوپہر کے 3بج تھے,دھوپ چھاوں کے اس موسم میں ہوا کے تیز جھکڑریتلی مٹی کے ساتھ سفیدے کیدرختوں کے سوکھے پتوں کو
کچھ روزقبل ایک سڑک سے گزر ہوا ..لوگوں کا مجمع لگا ہوا تھا, دیکھ کر گھبراہٹ ہوئی اور تشویش بھی.دل میں بے اختیار اس مجمع کی وجہ جاننے کی خواہش بیدار ہوئی. زرا قریب جانے پر معلوم ہوا کہ یہ
قدرت کی بنائی ہوئی زمین پر صدیوں سے کسی آبلہ پائی میں آنکھیں فرشِ راہ کئے صحرا, جہاں باوجود مشکلات کے زندگی آب وتاب کے ساتھ رقص کرتی نظر آتی ہے۔ کراچی سے چھ سو پچیس کلو میٹر دور جنوب
کچھ سانحے اسیے ہوتے ہیں جن پر بولنے والوں کی زبان اور لکھنے والوں کے لفظ جم جاتے ہیں۔ مگر دل بولتا ہے اور اسکی آواز بہت اونچی ہوتی ہے۔سانحہ گلشن اقبال پارک بھی اسییہی سانحہ کی مثال ہے۔ میں
درج ذیل آرٹیکل ,میں نے یہ ایک نامور اخبار میں شائع ہونے کے لیے دیاتھا مگر شاید آج بھی ہمارا میڈیا اس حد تک آزاد نہیں ہے جتنا ہم ینگ رائٹرز سمجھتے ہیں یا شاید اس تاریخی غلطی کا کوئی