یکم اپریل 1501 ء ، مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کا پہلا عالمی دن

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: منور حسین عاجز
ماضی کا اندلس آج سپین اور پرتگال نامی دو ممالک پر مشتمل ہے۔مسلمانوں نے 19 جولائی 711 ء کو سپین فتح کیا۔انہوں نے صلیبیوں کو ہر میدان میں شکست دی۔ لیکن جب مسلمانوں نے احکامات الٰہیہ،تعلیمات قرآن وسنت کوپس پشت ڈال دیااور آپس کے اختلاف میں الجھ کر رہ گئے توعیسائیوں کے دل سے مسلمانوں کا دبدبہ ختم ہوگیااورمسلمان زوال کا شکار ہوتے چلے گئے ۔بالآخر 2 جنوری 1492 ء کو عیسائیوں کا مکمل طور پر سپین پر قبضہ ہو گیا۔
یہ وہی اندلس ہے جہاں طارق بن زیاد نے اس کے ساحل پر اتر کر کشتیاں جلا ڈالیں۔ گوتھ بادشاہ راڈرک کی ایک لاکھ فوج کا مقابلہ بارہ ہزار کے اسلامی لشکر سیہوا ۔راڈرک کو شکست ہوئی اورتیس ہزار کو قیدی بنا لیا گیا۔اندلس میں مختلف حکمران آتے رہے۔ عبد الرحمن سوم کے دور میں سائنس اور تعلیم اِس قدر عام ہوئی کہ شرحِ خواندگی سو فیصد تک جاپہنچی۔ شہر میں 20 ہزار دکانیں کتب فروشی اور اُس سے متعلقہ کاروبار کے لئے وقف تھیں۔ یہاں پارچہ بافی کی پانچ ہزار مشینیں نصب تھیں۔دوسری طرف یورپ بھر کے تمام عیسائی ملکوں کی علمی و تہذیبی حالت اور معیارِ زندگی اِس قدر ناگفتہ بہ تھا کہ پیرس اور لندن جیسے بڑے شہروں میں بھی راتیں گھپ اندھیرے میں گزرتی تھیں۔ گلیاں کیچڑ اور سیوریج کے بیماریاں پھیلاتے پانی سے اَٹی رہتیں۔ صدیوں بعد تک بھی اُن کی گلیوں میں سٹریٹ لائٹس کا اِنتظام نہ ہو سکا۔ 
اس کے بعدحکم ثانی کا دور آیا۔ اس کی لائبریری اپنے دَور میں دُنیا کی سب سے بڑی لائبریری تھی، جہاں 6 لاکھ سے زیادہ کتب موجود تھیں۔ عیسائیوں کی طرف سے سپین پر دوبارہ حملوں کا آغاز ہوا تو شمالی افریقہ سے یوسف بن تاشفین نے بیس ہزار کے لشکر کے ساتھ عیسائی بادشاہ الفانسو ششم کے 80 ہزار لشکر کو شکست دی۔اس سے سپین ایک طویل عرصے تک عیسائیوں کیخطرے سے محفوظ ہو گیا۔ 1214 ء میں الفانسو نہم نے ایک بھر پور حملہ کیا جس میں مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ اس کے بعد وہ کہیں بھی جم کر نہ لڑ سکے۔1232 ء سے لے کر 260 سال تک غرناطہ کے خاندان بنو نصر نے اپنے دور حکومت میں عیسائیوں کی یلغار کو روکے رکھا۔سیاسی عدم اِستحکام اور صلیبی شورشوں کے باوُجود غرناطہ اُن دِنوں سپین کا سب سے بڑا علمی شہر بن کر اُبھرا تھا۔ لیکن بالآخر 2 جنوری 1492 ء کو سپین میں مکمل طور پر عیسائیوں کا قبضہ ہو گیا اور مسلمانوں کو ختم کر دیا گیا۔
جب عیسائی افواج نے اسپین کو فتح کیا تو وہاں خون کی ندیاں بہا دیں ۔عیسائی حکمرانوں نے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا کہ مسلمان یا تو عیسائی ہوجائیں یا نہ ہونے کے عوض 50 ہزار سونے کے سکے دیں۔ ایسا نہ کرنے والا سولی پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ اگرچہ بظاہر اب کوئی مسلمان نظر نہیں آرہا تھالیکن عیسائیوں کو یقین تھا کہ مسلمان اپنی شناخت چھپا کر اب بھی زندہ ہیں۔ بالآ خر بادشاہ فرڈی نینڈنے اعلان کرایا کہ جو مسلمان دیگر مسلم ممالک میں جانا چاہتے ہیں وہ یکم اپریل تک غرناظہ میں جمع ہو جائیں تا کہ ان کے جانے کا بندوبست کیا جا سکے۔قصرِ الحمراء کے نزدیک خیمے نصب کر دئیے گئے۔سمندر میں بحری جہاز لنگر انداز ہوتے رہے۔یہ منظر دیکھ کر مسلمان خیال کرنے لگے کہ اب شائد امن ہو گیا ہے اور عیسائی افواج اس معاملے میں سنجیدہ ہے۔ لہذا خود کو ظاہر کر دینے کا اس سے اور اچھا موقع نہیں۔ مارچ کے پورے مہینے اعلانات ہوتے رہے۔سب اہلیان اندلس الحمراء کے قریب خیمہ زن ہو گئے۔31 مارچ کی رات ان کی بڑی خاطر مدارت کی گئی۔یکم اپریل ہوتے ہی جرنیلوں نے مسلمانوں کو الواداع کیا اور جہاز چلا دئیے گئے۔ان جہازوں میں بچے، بوڑھے،خواتین سبھی شامل تھے۔جہاز جب عین سمند ر کے وسط میں پہنچاتو منصوبہ بندی کے تحت انہیں گہرے پانی میں ڈبو دیا گیا،یوں اندلس کے مسلمان ابدی نیند سو گئے۔ان کا سب سے قیمتی اثاثہ کتابیں بھی پانی کی نذر ہو گئیں۔جب جہازغرقاب ہوگیاتو وہ مسلمانوں کی تباہی وبربادی کاجشن منانے لگے۔ یہ المناک حادثہ یکم اپریل1501ء کوپیش آیا۔
اس دن کو یورپ میں فتح کا دن قرار دیا گیا کہ کس طرح مسلمانوں کو بے وقوف بنا یا گیا۔بعد ازاں یہ تہوار پورے یورپ کا عظیم دن قرار دیا گیا،اور اسے انگریزی میں First April Foolکا نام دیا گیا،یعنی یکم اپریل کے بے وقوف۔آج بھی اس دن کو یورپی دنیا اس فتح کی یاد میں پورے اہتمام سے مناتی ہے۔مغربی ممالک میں یکم اپریل کو عملی مذاق کا دن قرار دیا جاتا ہے اس دن ہر طرح کی نازیبا حرکات کی چھوٹ ہوتی ہے اور جھوٹے مذاق کا سہارا لے کر لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے یہ فضول اور فول رسم اب مسلم معاشرے کا بھی ایک اہم اور لازم حصہ بن چکی ہے۔مسلمان اپنے ہی بھائیوں کی تباہی اور بربادی پر خوشی کا دن مناتے ہیں۔اپریل فول سے ہونے والے نقصانات 2 اپریل کے اخبارات میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپریل فول منا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ 

Short URL: http://tinyurl.com/y8yc7wn8
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *