گندم کی کٹائی اور غریب طلباء۔۔۔۔ از: ذوالفقار خان، داؤد خیل

گندم کی کٹائی کا موسم آتے ہی گندم کی کاشت والے اضلاع میں ہر سال ایک مسئلہ غریب والدین کے سکول جانے والے بچوں کو درپیش ہوتاہے۔ غریب والدین اُجرت پر گندم کی کٹائی کے لیے اہل و عیال کے ساتھ کم ازکم بیس پچیس دن کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر زمینداروں کے کھیتوں کا رُخ کرتے ہیں۔ جہاں وہ صبح سے شام تک فصل کی کٹائی کرتے ہیں تاکہ اُجرت میں اتنی گندم اکٹھی کرلیں جس سے سال بھر کم ازکم اور کچھ نہیں تو کھانے کے لیے روٹی تو میسر رہے۔ اکثر بلکہ سب غرباء کے بچے سرکاری سکولز میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ انچارج کلاس اور سکول ہیڈ کے لیے طالب علم کو اتنی زیادہ چھٹیاں دینا بہت بڑا مشکل کام ہوتاہے۔ اس لیے اکثر سکول ہیڈ سختی سے چھٹی پر پابندی لگا دیتے ہیں۔ کیونکہ گندم کی کٹائی کے موسم میں ایک دو نہیں بلکہ درجنوں طلبہ اپنے والدین کے ساتھ جاتے ہیں جس سے کلاسز میں غیر حاضری کی شرح بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔حکومت پنجاب طلبہ اور اساتذہ کی حاضری بارے بہت حساس ہے۔ بہت مجبور والدین کے بچوں کو جب چھٹی نہیں ملتی تو بلا اجازت تک اپنے بچوں کو ساتھ لے جاتے ہیں۔ کئی بار بیس پچیس دن کے بعد طلبہ کی واپسی پر اُسے سکول میں داخلے سے محروم ہونا پڑتاہے۔ میری محکمہ تعلیم کے صوبائی وزیر ، سیکرٹری تعلیم پنجاب سے گزارش ہے کہ وہ اس سنجیدہ مسئلے پر فوری غور فرمائیں اور اس کا کوئی حل نکالیں۔ ایسے اضلاع کے دیہی سکولز میں گندم کی کٹائی کے موسم میں پندرہ سے بیس چھٹیاں بھی کی جاسکتی ہیں۔او ر اس کے بدلے موسمِ سرما کی چھٹیاں ختم کی جاسکتی ہیں یا پھر چودہ اگست کے بجائے ایسے علاقہ جات کے سکولز یکم اگست سے کھولے جاسکتے ہیں۔ اگر یہ قابلِ عمل نہ ہوتو ایسے طلبہ کی فہرستیں مرتب کی جائیں جن کے والدین اُجرت پر گندم کی کٹائی کے لیے گئے ہوں۔ باقاعدہ تصدیق کے بعد ایسے ہر طالب علم کو روزانہ کے حساب سے بیس دن کی معقول رقم دے دی جائے جس سے اُس کے والدین گندم خرید سکیں۔ اس مسئلے کا حل نہایت ضروری ہے کیونکہ غریب والدین کا کوئی اور چارہ ہی نہیں ہوتا۔ جب تک گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو وہ اپنے بچوں کو اطمینان سے تعلیم کیسے دلوا پائیں گے؟
ذوالفقارخان ۔ داؤدخیل ضلع میانوالی
Leave a Reply