گلگت اور شینا زبان

Hadayat Ullah Akhtar
Print Friendly, PDF & Email

گرمیوں کے دن تھے وہ اپنی چھٹیاں گزارنے  ایبٹ آباد آئے تھے وہی اسے  ایک  پروانہ تھما دیا گیا جس میں یہ معلومات درج تھیں کہ انہیں گلگت میں بطور  ایجوکیشن آفیسر گلگت بلتستان  مقرر کر دیا گیا  ہے۔یہ جولائی 1953 کی بات ہے تب اسے یاد آیا کہ  اسے تو انٹرویو  دیئےہوئے کافی دن بیت گئے تھے اور وہ یہ بات فراموش بھی کر چکے تھے۔پروانہ ملتے ہی وہ ایبٹ آباد سے واپسی پر سیدھے  اسلام آباد شہزاد کوٹھی میں  سکریٹری صاحب برائے امور کشمیر و ریذیڈنٹ سے مل کر اس بات کی اجازت  مانگ  رہے تھے  کہ انہیں  گلگت کی تیاری کے لئے مزید ایک ہفتے درکار ہیں ۔اس ایک ہفتے کے دوران انہوں نے اپنا کام جو اس کے منصوبے میں شامل تھا کی تمام ضرورتوں کو یکجا کیا جس میں کتابیں سر فہرست تھیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس منصوبے کا اس نے سوچا تھا اس کی ابتدا لاہور سے  شروع ہو چکی تھی ۔جب ہفتے کا اختتام ہوا تو تین نفوس اسلام آباد کے چک لالہ ہوائی اڈے پر کھڑے تھے ۔ایک وہ ایک پندرہ سال کا سیاہ رنگت کا لڑکا اور ایک برقعہ پوش خاتون  شائد اس کی بیگم اور دوسرا ان کا نوکر۔یہ تین افراد 3اگست کی پرواز سے  گلگت کے لئے محوپرواز ہوجاتے ہیں۔ویسے ان دنوں اسلام آباد سے گلگت کا سفر ڈیڑہ گھنٹہ کا ہوتا تھا  لیکن ہوا یہ کہ اس جہاز نے گلگت پہچنے میں  پورے ڈھائی گھنٹے صرف کیئے ۔وجہ اس کی یہ ہوئی کہ  موسم خراب تھا  جس کے باعث جہاز کو پولینڈ کے ہوا باز نے  واپس موڑا تھا اور اسلام آباد لینڈ کرنے کے  بجائے چترال کے راستے  شندور  درے سے گلگت لینڈ کر گیا تھا ۔   گلگت  کے ہوائی   سفر کی تاریخ  کا شائد  یہ  پہلا  انوکھا  ہوائی جہاز کا سفر تھا  جو انہوں نے طے کیا ہوگا ۔اس کے بعد سے آج تک  ایسا نہیں ہوا  ۔ جب جہاز سے ایک برقعہ پوش خاتون اور ایک کالا کلوٹا لڑکا  اتر رہے تھے  تو سب کی نگاہئیں ان کی طرف تھی  اس کی وجہ شائد  اس لڑکے کی کوئلہ  جیسی رنگت تھی اور دوسری  خاتون کا برقعہ تھا کیونکہ  گلگت میں اس وقت برقعہ کا رواج نہ تھا اور نہ ہی  کسی نے  اتنا کالی رنگت  کے کسی فرد کو دیکھا تھا ۔بعد میں گلگت کے لوگوں میں  ایجوکیشن آفیسر کا نوکر  اپنی کالی رنگت کی وجہ سے بڑا مشہور ہوا  اور جب گلگت والے کالی چیز کی مثال دیتے تو کہتے  جیسے ایجوکیشن آفیسر کا  نوکر۔گلگت پہچنے کے فورآ بعد لازمی بات تھی اسے ایجوکیشن دفتر میں رپورٹ کرنا تھا ۔اس کام سے فارغ ہونے کے بعد  اپنی دفتری امور کے ساتھ ساتھ  اس نے اپنے منصوبے کو بھی عملی جامعہ پہنانا شروع کر دیا ۔اس کے منصوبے کو مکمل اور پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اس برقعہ پوش خاتون کا  جو ایجوکیشن آفیسر کی شریک حیات تھی  کا بھی بڑا حصہ رہا  اور وہ ان جگہوں سے  بھی  معلومات  پہنچانے میں مددگار ثابت ہوئی جہاں  مرد نہیں پہنچ پاتا ۔اب تک آپ لوگ تجسس میں ہونگے  کہ کون تھا یہ شخص؟۔ بتا ہی دیتا ہوں  یہ شخص ایجوکیشن آفیسر گلگت بلتستان  ڈاکٹر خواجہ شجاع ناموس تھے جن کا تعلق بہاولپور سے تھا  جسے یہ شرف حاصل ہوا کہ اس نے شینا زبان کے مخصوص حروف ایجاد کر دیئے جو دوسرے زبانوں میں نہیں ہیں ۔اس کی کتاب گلگت اور شینا زبان  اس خطے میں  شینا زبان  کے متعلق لکھنے والی اولین تصنیف  سمجھی جاتی ہے ۔ڈاکٹر شجاع ناموس نے اگست 1953 سے ستمبر 1955 تک گلگت میں اپنی خدمات انجام دیئے ۔چونکہ اس کا کام  مختلف سکول کا معانہ کرنا ہوتا تھا  جس کا انہوں نے  بھرپور فائدہ اٹھایا ۔وہ گلگت اور بلتستان کے  ان علاقوں تک پہچ گئے  جہاں جہاں سکول  قائم تھے۔ کتاب کی تیاری اور اسے سنوارنے میں  جن حضرات کی مدد اسے حاصل ہوئی ان میں  ماسٹر عجب خان، حمیداللہ استاد ،سید محمد عباس ،عادل خان استاد،جوہر علی ایڈوکیٹ،راجہ شاہ رئیس خان،ابولفراح  اور ڈومیال کے حیدر شاہ کے نام شامل ہیں ۔گلگت سے جانے کے بعد ڈاکٹر شجاع ناموس نے کتاب کو اس وقت آخری مراحل سے گزارا  جب وہ بھکر کالج میں پرنسپل تھے  اور یہ کتاب 1961 میں منظر عام پر آئی ۔۔مجھے اپنی زبان سے پیار ہے اور اس کے ترویج کے لئے اپنی بساط بر کوشش میں لگا رہتا ہوں ۔ڈاکٹر شجاع ناموس کی لکھی ہوئی کتاب بہت پہلے ایک بار پڑھی تھی اور آج جب  کسی ریفرنس کے لئے مجھے اس کتاب کی ضرورت پڑی تو ایک دفعہ اور اس کو سرسری سا پڑھنے کے بعد خیال آیا کہ  کیوں نہ  اپنے  پڑھنے والوں  کے لئے  معلومات  اور اس  ایک شخص  کے لئے   خراج تحسین  کے  کچھ کلمات   ادا کئے جائیں جو غیر مقامی   ہونے کے باوجود لاہور سے  پلان بنا کے  چلا تھا کہ جس  علاقے میں وہ سرکاری ڈیوٹی انجام دینے جارہا ہے وہاں کی بولی اورحالات  پہ کچھ تحریری شکل مین پیش کیا جائے  جو اس  خطہ کا تعارف بن جائے ۔ اس کے مقابلے میں آج ہم  اپنے مقامی ایجوکیشن آفیسروں کی طرف دیکھتے ہیں تو اس میں آسمان اور زمین کا فرق محسوس ہوتا ہے۔ڈاکٹر شجاع ناموس کے بارے یہ کالم لکھتے ہوئے اور اس کی اشاعتی تاریخ جو اس کتاب میں درج ہے اس کا حساب لگایا تو اس کے مطابق  جب یہ کتاب شائع ہوئی تھی اس وقت میری عمر شائد ہی تین یا چار سال ہوگی اور آج کئی سالوں بعد میں اس کتاب کے لکھنے والے کے بارے میں پھر سے ایک  اور زاویے سے معلومات پہنچا رہا ہوں  جس کا مطلب یہ ہے کہ لکھاری اور صاحب کتاب کبھی نہیں مرتے اور رہتی دنیا تک آئندہ نسلوں کو  کسی نہ کسی کہانی  میں ان کے روپ دیکھنے کو ملتے رہئیگے ۔۔مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ  میں آج  اس شخص  کے بارے خراج تحسین پیش کرکے مقامی لوگوں کی طرف سے  اس  کے احسان کا شکریہ ادا کرنے  کا حق ادا کر رہا ہوں جو اس نے گلگت اور شینا زبان لکھ کر گلگتیوں پر کیا ہے اور شینا زبان کو ایک نئی جہت سے متارف کراکے  شینا زبان کی ترویج اور بڑھوتری میں اپنا حصہ ڈالا ہے جو ایک بیش بہا تحفہ ہے  جس کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے ۔اپنی کتاب میں ڈاکٹر شجاع ناموس نے جہاں شینا زبان کے حروف تہجی اور مخصوص آوازوں کا تعارف پیش کیا ہے وہاں اس نے گلگت اور بلتستان سے متعلق بہت ساری معلومات بھی قارئین کو بہم پہنچائی ہیں ۔ڈاکٹر شجاع ناموس کی کتاب “گلگت اور شینا زبان” شینا زبان کی لکھائی  اور اس کی ترویج کے لئے کوشش کرنے والوں کے لئے  بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی ۔اسی کتاب کی مدد سے ہی  مقامی لکھاریوں نے شینا زبان کو مزید آگے بڑھانے میں محنت کی لیکن اس میدان میں اب بھی  بہت ساری رکاوٹیں موجود ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے ۔شینا کی ترویج میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت کے باعث مزید آسانیاں پیدا ہوئی ہیں اس سلسلے میں کمپیوٹر کی دنیا میں  سب سے بڑا کارنامہ شینا “کی بورڈ” ہے جس کی مدد سے شینا زبان لکھنے میں آسانی پیدا ہوئی ہے۔ اور انشاللہ شینا زبان جو افغانستان سے کارگل داراس تک ایک وسیع علاقے میں بولی جاتی ہے مزید ترقی کے منازل طے کریگی ۔

Short URL: http://tinyurl.com/yxmu3axf
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *