کھلی آنکھوں کا خواب
تحریر: محمد حسن رضا حسانی، کلاس والہ سیالکوٹ
کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ کسی ایسی ذات سے ہم کلام ہوا جائے جو اذیت کے تمام کانٹے ہالہء انسان سے دور کر دے اور زندگی کو گُل بار کر دے ، مگر ایسا کیسے ہو جب کہ خیالوں کی دنیا جسے خواب سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس کی وسعت نیند تک محدود ہے تو اس لحاظ سے کافی غورُ خوض کے بعد ذہن اس نہج پر پہنچا کہ کیوں نا یہ خواب کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے ، تاکہ یہ خواب حقیقت میں ڈھل کر شرمندہء تعبیر ہونے سے بچ جائے لہذہ جب آنکھیں کہنہ ادراکی کرتے ہوئے حق کی متلاشی ہوئیں تو شش جہات میں دیکھا کوئی ایسا نا ملا ضمیر میں جھانکا اپنے سے بُرا نا ملا الغرض جب ہر طرف نظرُ فکر کر لی تو عالمِ افلاکی سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے نازل ہوئے قرآن کا پیغام ذہن میں مستحضر ہوا رشاد ربانی ہوا(نَحنُ اَقرَبُ اِلَیہِ مِن حَبلِ الوَرِيد) سورہ ق الایہ 16 مفہوم ہم تو شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں اس مفہوم نے وہ تسلی دی جو دنیا میں باعثِ تسکین اور آخرت میں ذریعہ نجات ہے کیونکہ اللہ وہ ذات ہے کہ خواب تو خواب حقیقت بھی اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے خدا کی حقیقت تو دور اس کے حبیب دنائے سبل ختم رسل سیدی عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حقیقت کو خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تو اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے ہمیں عدم سے وجود دیا پھر اس وجود کو بقا دی پھر فنا دے گا اس کے بعد اگلے مرحلے پھر بقا دے گا اور ابدی زندگی عطا کرے گا ہمارے کربُ حزن کے سارے کانٹے وہ ستر ماؤں سے زیادہ رحم کرنے والا واجب الوجود جو تمام حمدوں کا مستحق ہے دور کرے جو ہم چھپاتے ہیں اسے بھی وہ جانتا ہے جو ظاہر کرتے ہیں اسے بھی وہ جانتا ہے کیونکہ اللہ صانع عالم ہے لھذا اللہ پاک باقی زندگی اپنی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام مصائب و آفات ہم سے دور کرے حوادثاتِ زمانہ سے محفوظ رکھے اور موت کی تکالیف سے محفوظ رکھے جس طرح موسم بہار میں بادِ نسیم میں مہکتا گلاب ہوتا ہے اسی طرح موت عطا فرمائے تاکہ یہ کھلی آنکھ کا خواب تعبیر کے مراحل طے کرے یا الہی تو رحمٰن ہے یہ صفت صرف تیری ہی ہے ہم پر رحم فرمائے
Leave a Reply