ڈیمانڈڈ سچ

Print Friendly, PDF & Email

تحریر:مہوش احسن
کالمز جب اخبارات میں بھیجے جاتے ہیں تو معاشرتی ڈیمانڈ کے مطابق ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کچھ کرنٹ اور سچ ہو۔ آپ لوگ ہم سے سچ لکھنے کی توقع کرتے ہو اب مجھے ہی ایک بات سمجھا دو کس طرح لکھیں ہم یہ سچ ایک پانچ سالہ بچی سڑک کے کنارے ننگی حالت میں بدنامی کا بوجھ لیے جسم پہ الجھتی تڑپتی سسکتی سانسوں کا لبادہ اُڑھے زرد چہرہ لیا جس پہ ہزاروں چیخوں کا عکس ہو لاوارث پڑی ہو اور ایسا واقعہ صرف آج ہی نہیں کل بھی نہیں پرسوں بھی نہیں ہر وقت کھیل کی طرح دیکھنے کو مسلسل ملے کیسے لکھ سکتیہیں قلم میں دم ضرور ہوتا ہے پر اتنی قوت نہیں ہوتی ہے کسی مرد کی آنکھوں میں بجھتی آگ دیکھ کر لکھ سکے کیسے ایک مرد اپنی بیٹی پہ کپڑا ڈالتا ہوگا کنارے پہ موجود ہزاروں لوگوں کے ہجوم میں کیا گزرتا ہوگی ان مظبوط کندھوں پہ جو زمانہ بھر کا بوجھ اٹھا سکتا ہے پر اپنی بیٹی کی گند اور خون میں لت پت لاش کو کیسے اٹھاتا ہوگا روح کانپ نہیں جاتی ہو چیخ نہیں پڑتا ہوگا جسم کا ایک ایک زرہ یا الہی تیری بارگاہ میں طوفان بھی نہیں آتا یہ سب دیکھ کے کیسے لکھ دیں ہم یہ سب دردناک سچ کبھی زینب کبھی اقراء اب یہ حادثہ روز اخبار اٹھائیں تو کچھ نا کچھ ایسا ضرور نظروں سے گزرتا ہے جو دل کو جھلسا کے رکھ دیتا ہے کیسے لکھ دیں یہ سارے سچ ہم کیسے لکھیں روز واقعہ ہوتا ہے روز ہی میرے جیسے کئی لوگ یہ لکھتے ہیں انصاف کی اپیل کرتے ہیں ٹی وی چینلز اسے ہر پندرہ بیس منٹ بعد دیکھاتے ہیں کیا کسی ایک کو سزا مل جانے سے مسئلہ حل ہوگیا ایسا حل کیوں نہیں نکالا جاتا کے اس دنیا سے ایسے ظالموں کا نام و نشان مٹ جائے کیوں نہیں ایسی عبرت ناک سزا سوچی جاتی ہر شے پہ فوکس ہے حکومتوں کا ہمارا ایسے سنگین اور بھیانک مسئلہ پہ غور و فکر کیوں نہیں کی جا رہی خدار کب تک سہیں یہ زیادتیں ہم دل. چیر دینے والے حادثات کب تک کبھی سننے کو ملتا ہے ہسپتال میں نائٹ ڈیوڈی پہ موجود بیماروں کی محافظ نرس کا ریپ ہو گیا کبھی پڑھ رہے ہوتے ہیں ہم کے ایک مولوی نے مدرسے میں ہی ایک شگرد کے ساتھ زیادتی کر کے اسے مار دیا کبھی کیا کبھی کیا ہائے اللہ ہم یہ پڑھ کے دیکھ کے اس غم کو محسوس کر مر کیوں نہیں جاتے ارے احتجاج بڑا کرتے ہو اسلام کے نام پہ کبھی کسی حوالے سے کبھی سیاسی حوالے سے ایسے معمالات یہ سب احتجاج کرنے والے کدھر چلے جاتے ہیں کسی بھی صحافی کی زبان ایسے معاملات پہ کیوں نہیں چیختی افسوس سد افسوس ہم کچھ نہیں کر سکتے کچھ بھی نہیں بس اندر ہی اندر روز ایسا خوفناک تماشہ دیکھ کے اللہ واللہ کر سکتے ہیں ارے پھر کہتے ہو سچ لکھو اور جو موجودہ صورت حال ہے معاشرے کی وہ لکھو کیسے لکھ دیں یہ سب اب آپ ہی بتائیں کیسے لکھ دیں لکھ تو دیں انصاف کہاں سے لائیں یہ سیاست کی آگ میں ہر وقت جلتے لوگ کبھی سمجھیں گے ہی نہیں کے ہمارے معاشرہ کس لو میں جل رہا ہے آخر کس چیز کو بدلنے کی ضرورت ہے حقیقی معنوں میں سمجھے ہی نہیں کبھی ہم نہ سمجھ سکتے ہیں یہ دماغوں سے کھیلتے واقعات ہمیں بس سمجھا ہی سکتے ہیں کے اس جہاں میں کتنے غیر محفوظ ہیں ہم پچھلی بار بھی یہی سردی تھی یہی دسمبر تھا اور ہم زینب کیس پہ چیخ چلا کر انصاف کی مشعل جلا رہے تھے ابھی وہ سانحہ اترا نہیں آنکھوں اور دل سے اور ایک بار پھر انھیں دنوں میں ایک اور غم ستانے آ گیا ہے یا اللہ یہ حکمران یہ دنیا تو اب کسی کام کی رہی نہیں تو ہی کوء موسی عیسی بھیج کے یہ جہاں انصاف اور سکون کو ترس کے رہہہ گیا اے پرودیگار ہم پہ اپنی نگاہ کر پہلے باپ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے اب بیٹیاں زندہ دفن ہو جانے کی التجا کرتی ہیں یہ درندگی آخر کب تک اپنا قہر ڈھاتی رہے گی مرد یہ تو کہتے ہیں عورت محفوظ نہیں یہ نہیں بتاتے کے کیوں محفوظ نہیں ارے اب تو مرد خود بھی محفوظ نہیں یا اللہ اس سے بڑی قیامت تو کوء ہو نہیں سکتی ملک پاکستان پہ اپنا خاص کرم بنائے رکھ تیری رحمتوں کی ہم گنہگاروں کو اشد ضرورت ہے ہمیں اپنی حفظ و آماں میں رکھ آمین… 

Short URL: http://tinyurl.com/y45pyl7z
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *