چوڑیاں
تحریر: اسدالرحمان اسد
باؤ جی باؤ جی! آواز گونجی۔ میں حسب معمول رک گیا۔ شاہین آج پھر صبح سے دفتر آبیٹھی تھی۔ اس کا مرد میرے دفتر میں کلرک تھا۔ سرکاری دفاتر کی طرح ادھر بھی متاثرین کی خوب عزت کی جاتی تھی۔ باہر نیلے رنگ کے بورڈ پر سفید سیاہی سے خوبصورت نستعلیق میں محافظ انشورنس لکھا ہوا تھا اور اس کے نیچے باریک لکھائی میں ” آپ کے مستقبل کے محافظ” درج تھا۔ کمپنی کا مالک علی اعجاز شاہ کراچی کا رہائشی تھا کبھی کبھار جب کوئی بڑا مسئلہ بنتا تو صاحب سیدھا کراچی سے آٹپکتے۔ ”عجیب آدمی ہے” میں کبھی کبھار سوچتا کہ لاکھوں کا مالک ہے اور اپنے کاروبار کی فکر نہیں خیر بڑے لوگ ہیں ان کو خدا نے دولت تو دی ہوتی ہے سنبھال لینا کسی کسی کے بس میں ہوتا ہے۔ میں بطور برانچ مینیجر فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ خوب کمائی چل رہی تھی صاحب نے کبھی حساب کتاب مانگا نہیں اور ہم نے کوئی موقع چھوڑا نہیں۔ خیر شاہین کا میاں خان محمد بطور کلرک کام کرتا تھا دو ہفتے قبل کسی گاڑی والے باؤ نے ٹھوک دیا بیچارہ گھر پڑا تھا۔ شاہین مسلسل دو ہفتے سے روز دفتر آکر بیٹھ جاتی کہ کوئی کام دھندہ مل جائے۔ انٹر پاس تھی شاید لکھنا پڑھنا جانتی تھی لیکن بیچاری کی شنوائی نہ ہوئی ہوتی بھی کیسے صاحب بہادر کا مال کھانے میں سب اس طرح مگن تھے کہ بس چھوڑیئے۔”رکیے باؤ جی خدا قسم گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑ گیا ہے کچھ نہیں تو صفائی کا کام دے دیجیے غریب ہیں دعائیں دیں گے”۔ وہ کافی درد بھرے لہجے میں بول رہی تھی۔ میں مڑا، اسے دیکھا، عمر کوئی ستائیس کے قریب، رنگ گندمی، دوپٹے کے پلو سے کچھ روپے وغیرہ باندھ رکھے تھے۔ میں آج اتنے غور سے دیکھ رہا تھا وہ واقعی خوبصورت تھی۔ خاں محمد تو جنت میں تھا اس قدر حسین جورو کسے ملتی ہے۔ اب میں اسے نوکری دینے کا سوچنے لگا۔ ” تم کل میرے دفتر آجانا کام ہو جائے گا ”۔ یہ سن کر مسکرانے لگی اور چلی گئی۔ میں گھر آکر بھی اسی کے بارے سوچتا رہا حرام کھاتا تھا خیالات بھی حرام ہی آتے رہے۔ صبح میں جلدی اٹھ گیا لڑکی کو کالج چھوڑنا تھا وین والا چھٹی پر تھا بیگم رات کو سونے سے پہلے ہی تاکید کرچکی تھی۔ کالج سے سیدھا دفتر پہنچا تو شاہین میرے کمرے میں آبیٹھی تھی۔ ”ارے اتنی صبح صبح گھر اور کام نہیں کیا ” میں تھوڑا بے رخی سے بولا۔ نہیں باؤ جی ہمارا سائیں تو بستر سے لگا ہے نہ نیند پڑتی ہے نہ بھوک لگتی ہے” وہ شکوہ کررہی تھی۔ شکوہ جائز بھی تھا اس قدر جوانی سے بھرپور مجسمے کو ایک عدد میاں تو لازم ہے۔ میں اب اسے مائل کرنے کی کوشش میں تھا۔ گھنٹی بجا کر چائے منگوائی اسے بھی پلائی۔ وہ کافی ہنس ہنس کر بات کررہی تھی۔ آخر کار میرے اندر کا بے شرم مجید جاگا اور میں نے مدعا بیان کر دیا۔ اول تو وہ خاموش ہو گئی،مجھے تاکتی رہی پھر مسکرا کر دوپٹے سے سینے کو ڈھانپا اور بولی ” بس یہی باؤ جی”۔ میں زور سے ہنسا وہ بھی شرمیلی مسکان سے کچھ سوچتی رہی۔میرے کمرے میں ایک عدد اسسٹنٹ کلرک کی ضرورت تھی کام دھندا سارے دفتر میں کونسا ہوتا تھا جو کوئی پڑھا لکھا کلرک ڈھونڈا جاتا۔ خیر اب جب کہ وہ میرے ارادے جان چکی تھی تو شرما رہی تھی میں نے حوصلہ دینے کی کوشش کی تو بولی باؤ جی ڈر تو کسی بات کا نہیں بس چوڑیاں ٹوٹ جایا کرتی ہیں۔ میں کھل کر ہنسا۔ وہ بھی مسکراتی رہی۔ جگہ کا کوئی بھی مسئلہ نہیں تھا دفتر کے چھت والے فلیٹ خالی تھے البتہ موقع شام کو ملنا تھا کہ شاہین کی چوڑیوں کا کچھ کیا جائے۔ سارا دن وہ میرے دفتر کے کام کرتی رہی کبھی کوئی فایل نکال دیتی تو کبھی صفائی کردیتی۔ پانچ بجے سارے لوگ چلے جاتے تھے مینیجر صاحب کو کون پوچھتا تھا میں اور شاہین ابھی تک کمرے میں موجود تھے۔ لالا جی گارڈ کو میں پہلے ہی ساری کہانی بتا چکا تھا وہ میرا مال کھاتا تھا بولنے کی جرات کیسے کرسکتا تھا۔ شام چھے بجے میں نے شاہین کو اشارہ کیا۔ وہ سمجھ گئی اٹھ کر چھت پر چلی گئی۔ میں بھی کنگی وغیرہ کر کے جا پہنچا۔ پرانے ملازمین کے پلنگ پڑے تھے ایک پلنگ پر وہ ایک طرف ٹانگیں کر کے خاموش بیٹھی تھی۔ میں نے ہلکا سا پاؤں نیچے ٹھونکا تو وہ ڈر گئی۔ ‘ابے ڈرتی کیوں ہے سارے ڈر دور ہو جائیں گے چوڑیاں ٹوٹتی ہیں تو بڑا سکون ملتا ہے”۔ وہ اس بات پر پھر مسکرا دی منہ سے کچھ نہ بولی۔ میں سامنے پڑے پلنگ پر اس کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا۔ خدایا کیا حسن تھا چھوٹی چھوٹی آنکھیں، ناک میں نتھلی عمدہ تراشہ گیا جسم پیلے بلب کی روشنی میں نکھر کر ظلم ڈھا رہا تھا۔اب میں کاروباری لہجے میں اس سے بات کرنے لگا ”دیکھو یہ سب اس لیے نہیں کہ میں نے تمہیں نوکری دی بلکہ یہ تو تمہارا حق ہے کہ کوئی تو اس مجسمے کو پاش پاش کرے”۔ وہ مسکرا تو رہی تھی لیکن خاموش۔ میں مے سوچا معرکہ شروع کیا جائے اور جان چھوڑی جائے میں اس ارادے سے اٹھا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ لڑکی کا نمبر تھا۔ ہیلو۔ بابا کہاں ہیں آپ۔ بیٹا میں آفس میں۔ بابا گھر کب آنا ہے میں اکیلی ہوں۔ کیوں بیٹا ماما کدھر ہیں آپ کی۔ بابا وہ بھی نہیں آئیں ابھی تک صبح کہہ رہی تھی کہ آج بنک مالک نے آنا ہے ان سے ترقی کی گزارش کریں گی۔ چلیں میں آیا۔ یہ کہہ کر میں نے کال کاٹ دی۔ شاہین شاید تیار بیٹھی تھی میں نے اسے دیکھا تو میرا رنگ فق ہو گیا۔ سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔ شاہین بولی ”باؤ جی رکیے کہاں چل دیے” میں نظریں ملاے بغیر یہ کہہ کر سیڑھیاں اتر گیا۔ اپنی چوڑیاں بچانے
Leave a Reply