چلاس تعلیمی اداروں پر حملہ

گلگت یا راوپنڈی سے بذریعہ قراقرم ہائی وے جسے آج کل سی پیک کہا جاتا ہے سفر کرنے والوں نے تھلیچی کے مقام پر روڈ میں نصب ایک سائن بورڈ کو ضرور دیکھا ہوگا اس سائن بورڈ پر کچھ الفاظ لکھے ہوئے ہیں ۔جی ہاں ۔لُک یور لفٹ۔۔یعنی اپنے بائیں طرف دیکھیں ۔۔اور ساتھ میں لکھا ہوا ہے کِلر مونٹین۔جی ہاں خونی پہاڑ۔۔اب آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ بائیں طرف جس پہاڑ کو دیکھنے کے لئے کہا جا رہا ہے اور جسے دنیا نانگا پربت کے نام سے جانتی ہیں اس کی خوبصورتی یا اس کی مہم جوئی کے بارے بتانے لگا ہوں ۔۔ایسی بات ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی میں آپ کو سانحہ نانگا پربت کی تفصیل جو پہلے آپ نے پڑھی ہے اس کا اعادہ کرنے لگا ہوں ۔بس میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ لُک یور ایرونڈ۔یعنی اپنے ارد گرد نظر رکھو۔ سوال یہاں یہ ہے کہ کیا ہم اپنے ارد گرد یا ہمارے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے بعد غور کرنے کی زحمت کرتے ہیں یا ان حالات اور واقعات کے مضمرات اور ان کے تانے بانے کہاںسے ملتے ہیں اور یہ واقعات ہماری اس مادر وطن میں وقفے وقفے سے کیوں پیش آتے ہیں سوچا ہے۔؟ اس کا جواب میرے پاس نفی میں ہے۔۔میں آپ حضرات کو ماضی میں پیش آنے والے خونی واقعات اور یہاں بوئے جانے والے نفرتوں کے بیچ کی طرف مائل نہیں کرنا چاہتا اس لئے کہ ماضی سے ہمیں نفرت ہے ہم ماضی کو بھولنا چاہتے ہیں اور حال کے فائدے سے لطف اٹھاتے ہوئے مستقبل سے آنکھیں بند رکھنا چاہتے ہیں اور جس قوم کے اندر یہ بیماری آجاتی ہے اس قوم کی ثقافت اس قوم کی راویات مٹننے میں ذرا بھی دیر نہیں لگتی۔اگر میں غلطیوں اور نادانیوں کا ذکر کرنے بیٹھ جائوں تو صفحوں کے صفحے بھر جائنگے۔یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جو واقعہ چلاس مین رونما ہوا یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کو شرپسند عناصر یا نا معلوم افراد کی کاروائی سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔ یہ واقعہ اور اس سے پہلے وقوع پذیر ہونے والے واقعات کس بات کی نشاندہی کرتے ہیں ہمیں اس طرف دیکھنے کی ضرورت ہے یہ واقعہ صرف چلاس کا واقعہ نہیں اور نہ ہی جہالت کا جیسے کہا جا رہا ہے کون کہتا ہے دیامر والے جاہل ہیں کس نے کہا ہے کہ دیامر کے لوگ تہذیب سے بہرہ مند نہین اور جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں وہی بصیرت سے محروم ہیں ۔بصیرت کی آنکھ یہی کہتی ہے کہ چلاس تعلیمی اداروں کی توڑ پھوڑ اور جلائو ایک منظم سازش ہے اور اس سازش سے پردہ اٹھانے کے لئے ان کڑیوں کو ملانا ہوگا ۔کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا کھُل کر اظہار کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے وہ اس لئے کہ ان باتوں سے لوگ دوسرا مطلب اخز کر لیتے ہیں ۔۔بس سادہ لفظوں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک طرف کلچر کے نام سے مدر پدر آزاد اور بے حیائی اور بے شرمی اور دوسری طرف کلچر کے نام سے جہالت کے اندھیرے اور تعلیم سے نفرت پھیلانے کی پالیسی پر عمل پیرا افراد ہی ایسے واقعات کے ذمہ دار ہیں ۔۔اس کی وجہ اور وجہ صاف دکھائی دے رہی ا انٹرنس یعنی داخلہ اور یہ داخلہ کس کا ہو رہا ہے اس کی کہانی سی پیک اور دیگر عوامل سے جُڑی ہوئی ہے