پی ٹی آئی حکومت کا میدانِ عمل۔ ۔ ۔معیاری تعلیم سب کے لیے

Zulfiqar Khan
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ذوالفقار خان، میانوالی
آیئے پیف پارٹنر بنتے ہیں!پرائمری حصہ کے لیے 6، مڈل کے لیے 3، ہائی کے 2، کمپیوٹر لیب، سائنس لیب ، لائبریری، سٹاف روم اور پرنسپل آفس کے لیے ایک ایک۔ یعنی کم ازکم16 کمرے بنائیں۔ جن کی لمبائی چوڑائی اتنی ضرور ہو کہ کلاس روم میں 35 طلبہ آسانی سے بیٹھ کر تعلیمی عمل سے مستفید ہوسکیں۔کمروں کے آگے برآمدہ بھی فضول خرچی نہیں، ضرورت ہے۔ طلبہ کے کھیل کود کے لیے ایک میدان اور ایک ان ڈور کے لیے ہال کمرہ بنائیں۔ میرے خیال میں مذکورہ عمارت اور ضروریات کے لیے کم ازکم چار کنال زمین درکار ہوگی۔ ایک دیہی علاقہ میں جہاں زمین آپ کو شہر کے مقابلے میں کافی سستی مل جائے گی لیکن عمارت کی تعمیر پر لاگت آپ کو شہر کی نسبت زیادہ برداشت کرنا ہوگی۔ اگر سولہ کمرے، ایک ہال، برآمدہ ، کم ازکم 8 عدد واش رومز، چاردیواری اور زمین کی مالیت شامل کریں تو 10000000 روپے تو خرچ ہوہی جائیں گے۔ فرنیچر،لائبریری کتب، کمپیوٹرز، سائنس لیب سامان وغیرہ پر 500000 روپے خرچ سمجھ لیں۔
اب آیئے سٹاف کی طرف۔اگر ہم ایک ٹیچر کو روزانہ 6 پیریڈز تفویض کریں تو حصہ پرائمری کے لیے 8، مڈل4 اور ہائی کے لیے 3 اساتذہ درکار ہوں گے۔ اس کے ساتھ پرنسپل، سیکورٹی گارڈ، چپڑاسی، خاکروب اور رات کا چوکیدار بھی سکول کی بنیادی ضرورت ہیں۔ اگر ہم گورنمنٹ کی مقرر کردہ کم سے کم تنخواہ 16 ہزار کی بجائے 12000 روپے فی کس 15 اساتذہ کو، 15000 روپے پرنسپل کو، کلرک 6000 روپے (پارٹ ٹائم)، سیکورٹی گارڈ کو 8000 روپے، چپڑاسی کو 7000 روپے، خاکروب کو 6000 روپے اور رات کے چوکیدار کو 5000 روپے دیں ۔ اس کے علاوہ بجلی بل، فرنیچر، عمارت، سینٹری مرمت، سٹیشنری اور سٹاف کی ریفریشمنٹ وغیرہ پر کل ملا کر اوسط ماہانا 15000 روپے ۔ یہ ماہانا اخراجات جمع کریں تو کم و بیش 242000 روپے بنتے ہیں۔ 
یاد رکھیں یہ کوئی مثالی سکول کا نقشہ نہیں ہے کیونکہ ایک مثالی سکول میں ایک استاد کی تنخواہ 12ہزار نہیں کم ازکم 25ہزار تو ہو کہ وہ کچھ عرصہ ٹِک کے کام کرسکے اور پرنسپل کو 30 ہزار تو ملیں اور تجربہ کار تو 50 ہزار سے کم پر بمشکل راضی ہوگا۔
پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی موجودہ پالیسی کے مطابق اگر آپ کا سکول 36 شرائط پر پورا اُترے اور آپ کی ہرکلاس میں 35 طلبہ 15 اپریل تک داخل ہوجائیں تو پرائمری حصہ میں فی طالب علم 550 روپے، مڈل حصہ فی طالب علم 600 روپے اور ہائی حصہ سائنس گروپ فی طالب علم 1100 روپے ملیں گے۔اگر مکمل ادائیگی کی جائے تو یہ 255500 روپے بنتے ہیں۔
اب اگر ماہانا آمدن سے اخراجات نکالیں تو باقی 13500 روپے بچتے ہیں۔ یعنی ایک کروڑ پانچ لاکھ روپے لاگت سے تیار ہونے والے سکول سے سکول مالک کو 13 ہزار 5 سو روپے بچ سکتے ہیں۔ 385 طلبہ ریگولر اور کم ازکم ہرکلاس میں 35 سے فالتو 4,5 طلبہ ملائیں تو یہ تعداد 430 تک پہنچ جاتی ہے۔ یعنی پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن 430 طلبہ کی نرسری سے میٹرک تک تعلیم کے لیے ماہانا 255500 روپے دے کر فارغ ہوجاتی ہے۔ جبکہ اس آڑھائی لاکھ سے بھی سکول مالک کو 13500 روپے بچ پاتے ہیں۔
اب ہوتا کیا ہے کہ سکول مالکان اگر پیف کی 36 شرائط کے مطابق سکول بنائیں اور چلائیں تو کوئی فاطر العقل ہی اپنے دماغ کی طرح چلاسکتاہے، یا پھر کروڑپتی خدمتِ خلق کے جذبہ سے لبریز شخص ہی اس میدان میں آسکتاہے۔ لیکن ایسی مثال شاید ہی کسی سکول کی دی جاسکے۔ تو پھر مالکان کنجوسی کرکے بس اتنے کمرے بناتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے ڈیسکس پر 35طلبہ کی گنجائش بن جائے۔ عمارت بھی سیمنٹ کی بجائے مٹی گارا اور اوپر پلستر ،ایک دروازہ اور دو روشن دان یا ساتھ میں ناقص میٹریل کی ایک کھڑکی لگا دی۔ تاکہ کم سے کم لاگت میں سکول تیار ہوجائے۔لائبریری، کمپیوٹر اور سائنس لیب کو ایک کمرے میں ایڈجسٹ کردیتے ہیں۔ سٹاف روم اور پرنسپل آفس ایک ہی بن جاتاہے جبکہ اکثر سکول برآمدے کا تکلف بھی نہیں کرتے۔چار کنال کی بجائے دوکنال پر گزارا کرتے ہیں۔ اساتذہ کی تنخواہ آٹھ سے دس ہزار روپے تک بمشکل دیتے ہیں۔ اساتذہ کی تعداد کم کرکے سارا وقت باقی اساتذہ کو کلاسز میں مصروف رکھتے ہیں۔ اور کئی ادارے تو کلاسز سے کم اساتذہ پر کام چلاتے ہیں۔
ان تمام اقدامات کے باوجود ایک ہائی سکول کی عمارت پچاس لاکھ روپے سے کم پر تیار ہونا ممکن نہیں۔ ذرا بڑے قصبے میں تو دوکنال زمین ہی بیس تیس لاکھ میں پڑجاتی ہے۔ پچاس لاکھ تو وہاں خرچ ہوں گے جہاں زمین لاکھ ، دولاکھ فی کنال میں مل جائے۔ چلو پچاس لاکھ ہی تصور کرلیں۔ اب اگر اساتذہ کی تنخواہ کم دیں تو بچت 40 ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ ایک طرف ایک سکول مالک نے پچاس ساٹھ لاکھ سرمایا لگا رکھاہے، مل رہے ہیں صرف 40ہزار روپے۔ اوپر سے پیف کی طرف سے جرمانوں کا ہر وقت خطرہ۔ دوبار لگاتار پیف امتحان جو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ مگر ہمارے طلبہ کی ذہنی سطح سے بہت بلند ہوتاہے فیل ہوجائے توتیسرے سال ادائیگی نصف اور پھر فیل تو سکول کے ساتھ معاہدہ ختم ۔ امتحان ہر سکول کی دو تین کلاسز سے پندرہ پندرہ طلبہ کو موقع پر چُن کر لیا جاتاہے۔ اور 75 فیصد طلبہ کا امتحان پاس کرنا ضروری ہوتاہے۔ میرے خیال میں اگرپیف امتحان ناگزیر ہے تو 50 فیصد نتائج پر ادارے کو پاس کیا جانا چاہیے۔ تاکہ ادارے خوف کی بجائے شوق سے تعلیمی عمل جاری رکھ سکیں۔ 75 فیصد پاس والی شرط نے پیف سکولز کے مالکان اور اساتذہ کو ذہنی مریض بنادیاہے۔ ہر وقت فیل ہونے کا خوف ذہن پر سوار رہتاہے۔ جس کی بدولت رٹا، خلاصہ کلچر پروان چڑھ رہاہے۔
پیف امتحان میں فیل ہونے کے ڈر سے سکول مالکان بے چارے گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی سمرکیمپ لگائے رکھتے ہیں۔ مختلف پبلشرز کی کتابیں منگوا منگوا کے تھک جاتے ہیں۔ پیف کی طرف سے پانچ پانچ سال اساتذہ کو تربیت تک نہیں دی جاتی۔ صرف آئے روز ویب سائٹ پر اور ایس ایم ایس کے ذریعے احکامات کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ طلبہ کا ڈیٹا ، تصاویر ، ماہانا اپ ڈیٹ، وقتاََ فوقتاََ واٹس اپ پر حاضری اور کسی تھوڑی سی کمی بیشی پر لاہور دفتر طلبی معمول کی مشق ہے۔ اگر آپ وزیراعظم پاکستان کے آبائی حلقہ میانوالی کو دیکھیں تو پیف کے ہیڈآفس جانے کے لیے چارسو کلومیٹر کا سفر کرناپڑتاہے۔ مانیٹرنگ کے دن اگر حاضری 80فیصد سے کم ہوتو بس حاضر طلبہ کی ادائیگی ہوگی۔ یا پھر دوبارہ مانیٹرنگ کے درخواست بمع 10 ہزار روپے جمع کرانا پڑتی ہے۔ طلبہ کو حاضر رکھنے کے لیے سزا دی جاسکتی ہے نہ ہی جرمانہ کی اجازت ہے۔ 
ادائیگی بھی بروقت نہیں ہوتی۔ دو دو ماہ ادائیگی پیف کے فنانس ڈیپارٹمنٹ میں گھومتی رہتی ہے۔ پنجاب بھر سے سکول مالکان یکم سے تیس تک فون کرتے رہ جاتے ہیں، اگلے ہفتے اگلے ہفتے کا جواب سُن پر خوش ہوجاتے ہیں اور ایک ہفتہ، دو ہفتے اور پھر ایک ماہ سے دو ماہ انتظار میں گزار جاتے ہیں ۔جب اچانک ایک روزپے منٹ کی خبرملتی ہے تو یہ خبر یقین کریں پنجاب بھر میں جنگل میں آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ وٹس اپ گروپس میں پیف مالکان ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیتے نہیں تھکتے۔ سکول مالکان شکرانے کے نفل ادا کرتے ہیں اور اساتذہ کو بھی اطمینان حاصل ہوتاہے کہ اب سکول ایک دو ماہ مزید بند نہیں ہوگا۔
یہ اصل صورتِ حال ہے۔ اس صورتِ حال میں یقین کریں یہ سکول مالکان شاید اگلے سال اگلے سال کی اچھی اُمید پر گھاٹے کے سودے پر چل رہے ہیں یا پھر اساتذہ کو کٹ اور اساتذہ کا کَٹ لگا رہے ہیں۔ یا پھر یہ اللہ کے اولیا نئی نسل کو علم کی روشنی سے منور کرنا اپنا فرض سمجھ کر ادا کررہے ہیں۔ اور جہاں دودراز، ڈیرہ جات پرمشتمل مضافاتی علاقہ جات میں پیف کے سکولز ہیں، وہاں تو ہائی سکول کی تعداد بھی بمشکل دو سے آڑھائی سو تک پہنچ پاتی ہے۔ اُن کے لیے یہ ٹاسک اور بھی مشکل ہے۔ سکول کو کامیاب کرنے کے لیے اردگرد سے کئی طلبہ کو مفت سفری سہولت بھی دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اکثردیہی لوگ سکول سے زیادہ گھر کے کام کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اپنی اولاد کو طالب علم سے زیادہ چرواہا دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان حالات میں پیف کے سکولز کام کررہے ہیں۔ 
اب پی ٹی آئی کی حکومت وفاق میں بھی آچکی ہے اور پنجاب میں بھی۔ پنجاب میں سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویزالٰہی سپیکر ہیں اور حکومت کے اہم اتحادی ہیں۔ پیف کو اوپر لے جانے میں ان کا اہم کردار رہاہے۔ پی ٹی آئی کی پالیسی بھی معیارِ تعلیم کو بڑھانا ہے۔ سرکاری اداروں کو پروان چڑھانا ہے۔ ظاہر ہے ریاست ہرجگہ محدود وسائل میں سکولز مہیا نہیں کرسکتی۔ خاص طورپر بے ہنگم طریقے سے بڑھتی ہوئی آبادی کی موجودگی میں کوئی بھی حکومت بڑے بڑے ادارے ہرجگہ کھڑے نہیں کرسکتی لیکن طلبہ کو مفت تعلیم پرائیویٹ پارٹنرز کے ذریعے مہیا کرسکتی ہے۔ جہاں تک وسائل میسر ہیں، وہاں سرکاری ادارے بنائے جائیں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع مہیا کیے جائیں لیکن اگر حکومت کو وسائل کے مسائل کا سامنا ہے تو پھر پیف جیسے ادارے کو مزید فعال بنایا جائے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں درمیانے درجے کے معیارِ تعلیم والے سکولز میں بھی فی طالب علم فیس دو سے آڑھائی تین ہزار وصول کی جارہی ہے۔ پیف کم ازکم نرسری سے میٹرک تک دوہزار روپے فی طالب علم ادائیگی کرے۔ اور چھتیس کی بجائے شرائط چالیس کردے۔ پھر دیکھیں معیارِ تعلیم کیسے بڑھتاہے۔
یاد رکھیں موجودہ حالات میں جو پیف سکولز نتائج دے رہے ہیں ، وہ اساتذہ کا استحصال کرکے ، یا پھر خدمتِ خلق کے جذبہ سے سرشار ہوکر دے رہے ہیں۔ لیکن خدمت خلق کتنے ادارے کریں گے اور کب تک کریں گے۔موجودہ حالات میں تو بہت سے پیف پارٹنرز اپنے چلتے سکولز کرایہ پر دینے اور بیچنے تک کو بھی تیار ہیں۔
اگر حکومت پیف کو ختم کرنے کا خیال یا ارادہ رکھتی ہے تو سکول مالکان اور طلبہ پر ایک رحم ضرورکرے ۔ انہیں کم ازکم 2021ء کے تعلیمی سال تک ادائیگیوں کی یقین دہانی کرائے ۔ اورطلبہ کواتنا وقت مل جائے کہ وہ سوچ سمجھ کے اور اپنے حالات کے مطابق سرکاری یا پرائیویٹ اداروں میں شفٹ ہوسکیں۔ یہ تب ممکن ہوگا جب حکومت نئے سکولز تعمیرکرنے میں کامیاب ہوجائے ۔ بغیر نئے سکول تعمیر کیے پیف کا خاتمہ خودکُشی کے مترادف ہوگا۔ کیوں کہ اس وقت 7400 سے زیادہ پیف سکولز میں 26لاکھ طلبہ زیرِتعلیم ہیں۔
اُمید ہے یہ تحریر ہمارے صوبائی وزیرتعلیم جناب مراد راس اور پیف ذمہ داران توجہ سے ملاحظہ کریں گے اور طلبہ کے بہتر مستقبل کے لیے ہمدردانہ غور کریں گے۔

Short URL: http://tinyurl.com/ybnhquks
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *